ابو الخبر عبد الواجد عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ اپر مال روڈ لاہور پاکستان)

Mon, 11 Sep , 2023
1 year ago

جہاں اللہ پاک نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہے اسی نعمتوں میں سے ایک نعمت مال ہے اور (یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر انسان کا زندگی گزارنا بہت دشوار ہے)۔ یہ بندے کے ہاں اللہ پاک کی امانت ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ بندے کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ جس طرح چاہے اس مال کو کمائے اور جہاں چاہے صرف کردے بلکہ جس طرح قراٰن و احادیثِ مبارک میں بیان کیا گیا ہے کہ( اگر تم نے اس طرح مال کمایا تو یہ تمہارے لیے حلال ہوگا اور اگر اس طرح مال کمایا تو یہ تمہارے لیے حرام ہوگا اور جب مال کما لیا تو اس کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔ کہاں خرچ کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا ؟) اس طرح کمانا ہوگا اور اسی طرح خرچ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بارے میں بروزِ قیامت  سوال کیا جائے گا کہ تم نے مال کہاں کمایا اور کہا خرچ کیا، کیا تم نے یہ مال حلال ذرائع سے کمایا تھا یا پھر حرام ذرائع سے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5، النسآء:29) اس لیے مال حلال طریقے سے ہی کمانا چاہیے نہ کہ حرام طریقے سے ، اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس نے ناجائز طریقے سے مال کمایا اور اس میں خو د بھی کھایا اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلایا ہو جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو تو اس کے جسم پر جنت حرام فرما دی جاتی ہے۔

جیسا کہ حدیثِ پاک میں آیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2 / 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

حرام کا لقمہ : تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناجائز طریقے سے مال کمانا یا کسی کا ناحق مال دبا لینا عام ہوتا جا رہا ہے۔ بندہ یہ سمجھتا ہی نہیں ہے کہ وہ حرام مال کما رہا ہے اور یہ بات یاد رہے کہ کسی کا بھی حق دبا کر اس کا مال کھا جانا حرام ہے کسی دوسرے کا حق دبانے کی کئی صورتیں ہیں اور ان پر بہت سخت وعید بھی آئی ہیں۔ان صورتوں میں سے چند صورتیں پیش خدمت ہے:

(1)امانت میں خیانت: یعنی جب کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے اور جب واپس مانگی جائے تو وہ دینے سے انکار کردے۔ یا اس میں کمی کردے۔ حدیث پاک میں امانت میں خیانت کرنے والے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضا سے روایت ہے کہ الله رسول الله صلے سے ہم سے ارشاد فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ (صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب بيان خصال المنافق، حديث: 59، ص50)

(2) مال غصب کرنا: یعنی جب کسی سے کوئی چیز مانگ کر لی پھر اس کو واپس نہ کرے یا پھر کسی کی جگہ پر قبضہ کر لے، ایسے شخص کے بارے میں حدیثِ پاک میں بہت مذمت بیان ہوئی ہے جیسا کہ حضرت سعید ابن زید سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو بالشت بھر زمین ظلمًا لے لے تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (مسلم، بخاری)

(3) یتیم کا ناحق مال کھانا : یتیم کا مال ناحق کھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی اس یتیم کا مال کھانے میں ملوث ہوتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا۔ انہی صورتوں میں سے ایک صورت پیشِ خدمت ہے۔

جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے اور حدیث پاک میں بھی ایسے شخص ( جو یتیم کا مال ناحق طریقے سے کھاتا ہے) کے بارے میں بھی بہت شدید وعیدیں آئی ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ پاک پر حق ہے: (1)شراب کا عادی۔ (2)سود کھانے والا۔ (3)ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4)والدین کا نافرمان۔( مستدرک حاکم، کتاب البیوع ، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم ، 2/338، حدیث:2307)

(4) مال چوری کرنا: چوری کر کے بھی بندہ دوسرے کا ناحق طریقے سے مال دباتا ہے۔ اس کی بھی حدیث پاک میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زانی زنا نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو، اور چور چوری نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو۔( نزهۃ القاری،حدیث : 2840)

(5) قسم کے ذریعے کسی کا ناحق مال کھانا: اس کی بہت صورتیں بن سکتی ہے مثلاً، بائع (بیچنے والا) مشتری سے کہے: قسم سے تمہاری اتنی ہی رقم بنتی ہے کیونکہ یہ چیز مجھے اتنے کی ملی ہے حالانکہ اس کی قیمت کم بنتی ہے، یا پھر کسی نے اس کے پاس چیز رکھیں تو جب یہ اس سے مانگے تو یہ کہے کہ قسم سے مجھے تم نے اتنی ہی رقم دی تھی۔ ایسوں کے بارے میں حدیثِ پاک میں مذمت بیان کی گئی۔ جیسا کہ حضرت ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص نے مسلمان کا حق اپنی(جھوٹی) قسم کے ذریعے کھا لیا تو اللہ پاک اس پر جہنم واجب کر دیتا ہے اور جنت حرام کر دیتا ہے ایک شخص نے آپ سے پوچھا: یا رسولَ اللہ! اگرچہ وہ کوئی معمولی چیز ہو! فرمایا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین، حدیث:137)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ خالق کائنات اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور رزقِ حلال کمانے ،کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم