خدا کی بندگی و اطاعت میں رزقِ حلال کی بنیادی حیثیت ہے۔ تقوی و خوف خدا کا سب سے بڑا پہلو اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنا ہے اور نافرمانی والے کاموں میں رزق حرام شدید اور گھٹیا ہے ۔ ، افسوس کے لوگ حلال و حرام کمائی کا خیال رکھنے میں بہت بے پرواہ ہو چکے ہیں۔

رزقِ حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز و حرام ہے۔ اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ! ترجمہ کنز العرفان : اے ایمان والو ! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔

قارئین کرام! چند احادیث طیبہ حرام کمانے و کھانے کی مذمت پر ملاحظہ ہو :

احادیث طیبہ میں حرام کمانے و کھانے کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے اور بہت سخت وعیدات بیان کی گئی ہے۔

حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فر مایا : اللہ پاک ہے۔ پاک چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اس نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا۔اور فرمایا : ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ (پ18،المؤمنون:51)پھرنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے۔ یارب ! یا رب ! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو اس کا لباس حرام ہے۔ اس کی غذا حرام ہو کو اس کی دوا سے کہاں قبول ہوگی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ باب قبول الصدقة من الكسب الطيب ،ص 506،حدیث : 1015)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرام کمانے اور کھانے والی کی دعا قبول نہیں ہوتی اور جو شخص اپنی کمائی و کھانے کو حلال رکھتا ہے۔ وہ مُستَجابُ الدَّعْوات بن جاتا ہے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا : اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے ، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی جان ہے ! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے ۔ ( معجم الاوسط، من اسمه : محمد، 5 / 34، حدیث : 6495)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ جو اپنی غذا کو پاک کر لیتا ہے وہ مستجاب الدَّعْوات بن جاتا ہے اور حرام کا ایک لقمہ کھانے سے بندے کے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔

ایک اور حدیث پاک میں حرام کھانے والے کا نہ نفل قبول ہے اور نہ ہی فرض۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا دیتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نہ نفل قبول ہیں نہ فرض ۔( الكبائر للذهبي، الكبيرة الثامنۃ والعشرون،ص134)

اسی طرح ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا: جس شخص نے دس درہم میں کپڑا خریدا اور اس کی قیمت میں ایک درہم حرام کا ہے تو جب تک وہ کپڑا اس (کے جسم) پر ہو گا اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد الله بن عمر ، 2/417،حدیث:5736)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان التاسع والثلاثون من شعب الایمان،5/56،حدیث:5759)

30 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم اللہ پاک کے نزدیک حالتِ اسلام میں 30 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔ (سنن الدار قطنی کتاب البیوع ،3/19، حدیث :2821)

کوئی صدقہ قبول نہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم ،ص 115 ،حدیث :224)

جہنمی شخص ہے : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشوت لینے والا اور دینے والا جہنمی شخص ہیں ۔( معجم الاوسط ،1/550، حدیث: 2026)

ایک اور جگہ اسی طرح و رشوت کی مذمت پر ارشاد فرمایا: رشوت لینے والے اور دینے والے پر رسولُ اللہ نے لعنت بھیجی ہے۔ (ابو داؤد ، 3/420، حدیث: 3580)

حلال و حرام سے متعلق صحابہ کی احتیاطیں!

خلیفۂ اول امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے اپنے غلام کی کمائی سے دودھ نوش فرمایا(یا کوئی چیز کھائی)،پھر غلام سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے عرض کی :’’میں نے ایک قوم کے لئے کہانت کی تھی ( یعنی فال کھولی تھی)تو انہوں نے بطورِ اجرت مجھے یہ دودھ دیا۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنی انگلی منہ میں ڈال کر قے کردی۔ راوی کہتے ہیں: آپ رضی اللہُ عنہ نے اتنی شدت سے قے کی کہ میں سمجھا آپ کی جان نکل جائے گی۔ پھر آپ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:’’ اے اللہ پاک !جو کچھ رگوں نے روک لیا اور آنتوں میں مل گیا میں اس سے تیری بارگاہ میں معذور ہوں۔‘‘(صحیح بخاری کتاب مناقب، الانصار باب ایام الجاهليہ : 2/571، حدیث: 3842)

ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے غلطی سے صدقہ کی اونٹنی کا دودھ پی لیا تو(معلوم ہونے پر)انگلی ڈال کر زبردستی قے کردی۔

قارئینِ کرام! جیسا کہ آپ نے ابھی حرام مال کمانے و کھانے کی مذمت پر احادیث طیبہ کا مطالعہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام کھانے و کمانے پر کتنی سخت وعیدات وارد ہیں ۔ کہ جو بندہ حرام کماتا و کھاتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی اس کی نفل و فرض حتی کہ کوئی بھی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ اس کا دیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا ۔ ایک حرام کا لقمہ کھانے سے 40 دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے، حرام خور شخص کے آگ زیادہ قریب ہے۔ حرام خور شخص پر رسولُ اللہ کی لعنت ہے ۔

قارئینِ کرام! ہمیں ان وعیدات کو پڑھ و سن کر ڈر جانا چاہیے اور اگر ہمارے مال میں کسی بھی طرح حرام مال شامل ہو رہا ہے تو اللہ کے حضور سچی توبہ کیجئے اور آئند اپنے مال کو پاکیزہ و طیب بنائیں۔

دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں رزقِ حلال کمانے اور حلال و طیب کھانے اور رزقِ حرام سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم