محمد اشفاق عطاری(مرکزی جامعۃُالمدینہ
فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
اللہ پاک کا اس بات پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے کہ اس نے
ہمیں تمام مخلوقات میں سے افضل مخلوق میں پیدا کیا، تمام ادیان میں سے افضل دین
عطا کیا، تمام انبیا سے افضل نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا امتی ہونے کا
شرف بخشا۔ لیکن اس کے باوجود دورِ حاضر میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود کو
عاشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور عاشق قراٰن تو کہتے ہیں لیکن فرامین
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور احکامات قراٰن سے بالکل ناواقف ہیں اور
کچھ تو ایسے ہیں جو احکامات کو جاننے کے باوجود حُبِّ دنیا میں اس قدر مگن ہیں کہ
ربُّ العالمین کی رضا اور ناراضگی کی طرف توجہ ہی نہیں۔یعنی کتنے ہی ایسے لوگ ہیں
جو کہلوانے کو تو مسلمان ہیں لیکن مال جمع کرنے کے چکر میں رشوت خوری، چور بازاری،
سودی کاروبار، ملاوٹ، غریبوں کا حق مارنا، فحاشی پھیلانا وغیرہ گناہوں کے ذریعے
ناجائز اور حرام کمانے میں لگے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان حرام کاموں سے بچنا ضروری ہے
کیونکہ ان کی حرمت دلیلِ قطعی سے ثابت ہے۔ جو اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق وفاجر ہے۔
ایسے کام کو کہتے ہیں جس کا ترک کرنا ضروری ہو اور اس کو
کرنا لازماً ممنوع ہو اسے ترک کرنے کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کی ممانعت کے لزوم
پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر ہو اور اس کام کو کرنے والا عذاب کا مستحق
ہو۔ حرام کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے۔،چنانچہ قراٰنِ مجید کی سورةُ النساء کی آیت
نمبر 29 میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! باطل طریقے
سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے
تجارت ہو اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
بیشک حرام کمانے اور کھانے سے قراٰن و احادیث میں منع وارد
ہے اور جو حرام کاری کریں انہیں اس سے منع کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چنانچہ قراٰنِ
مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے:﴿ لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ
الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ
السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری
اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے، بیشک بہت ہی برے کام کر رہے
ہیں۔(پ6،المائدۃ:63)
امام ضحاک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک اس آیت
سے زیادہ خوف دلانے والی قراٰنِ پاک میں کوئی آیت نہیں، افسوس کہ ہم برائیوں سے
نہیں روکتے ۔ (تفسیر طبری،4/638، المائدۃ، تحت الآیۃ: 63)
اس آیت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی حرام کمانے والوں کو منع
کرنا چاہیے۔ یہ نا ہو کہ بروز قیامت ہماری اس بات پہ پکڑ ہو کہ ہم نے انہیں گناہ
کرتے دیکھا اور منع نہ کیا۔
رزقِ حلال کا حصول رب کی اطاعت میں بنیادی حیثیت کا حامل
ہے۔ افسوس کہ آج کل لوگ حلال و حرام کا فرق کرنے میں بہت بے پروا ہوچکے ہیں اور اس
زمانے کے آثار نظر آتے ہیں جسے حدیث پاک میں یوں بیان کیا گیا کہ لوگوں پر ایک
ایسا زمانہ بھی آئے گا جب آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ جو کچھ حاصل کررہا ہے
وہ حلال سے ہے یا حرام سے؟ (بخاری،2/7، حدیث:2059)
سنن ابن ماجہ میں ہے : نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فرماتے ہیں : سُود تہتر گناہوں کا مجموعہ ہے ، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی
اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابن ماجہ، 3/72، حدیث :2274، 2275 مُلْتَقَطاً مِنَ
حدیثیْن)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،کتاب
المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 1598)
مُسْنَدِ امام احمد بن حَنبل میں ہے : جو شخص جان بوجھ کر سُود
کا ایک درہم کھائے ، تو چھتیس دفعہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے ۔ (مسند امام احمد بن
حنبل، 8/223، حدیث :22016 دارالفکر بیروت)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : معراج
کی رات میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا، جن کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے ، ان میں
سانپ تھے ، جو پیٹوں کے باہر سے بھی نظر آتے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اے جبرئیل!
(عَلَیْہِ السَّلَام ) یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے عرض کی، وہ سُود کھانے والے ہیں ۔
(سنن ابن ماجہ، 3/71، حدیث: 2273دار المعرفۃ بیروت)
فرمان مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:اس ذات پاک کی
قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! بیشک بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں
ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام اور
سود سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم اوسط، من اسمہ محمد، 5/34
حدیث: 6495)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص
حرام کماتا ہے پھر صدقہ کرتا ہے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سے خرچ کرے گا
تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔ اسے پیچھے چھوڑے گا تو اس کے لیے دوزخ کا زادِ راہ
ہوگا۔(شرح السنہ للبغوی ، 4/205 ،حدیث:2023)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حرام
خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔(مسلم، ص393، حدیث:2346)
فرمان مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حرام مال سے
کیے جانے والے نیک کام بھی قبول نہیں کیے جاتے کیوں کہ اللہ تعالٰی پاک ہے اور پاک
مال ہی قبول فرماتا ہے۔( پراسرار بھیکاری،ص19 مکتبہ المدینہ)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشوت
لینے والا، دینے والا جہنمی ہے۔ (معجم اوسط،1/550، حدیث:2026)
بنی آدم کے پیٹ میں جب حرام کا لقمہ پڑا تو زمین و آسمان کا
ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا۔ جب تک وہ لقمہ اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت
میں مرے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔(مکاشفةالقلوب،ص 10)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشوت
دینے والے اور لینے والے پر اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لعنت
بھیجی ہے۔ (ابوداؤد، 3/420،حدیث:3580)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تجارت
میں جھوٹ بولنے والے اور عیب چھپانے والے کے کاروبار سے برکت مٹادی جاتی
ہے۔(بخاری،2/14،حدیث:2082)
مزدور کی مزدوری مارنے والے کے مقابلے میں قیامت کے دن نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس مزدور کی حمایت میں ظالم کے خلاف کھڑے ہوں
گے۔(بخاری،2/52،حدیث:2227)
فرمان امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ: حرام مال میں برکت
نہیں ہوتی کسی نا کسی طرح ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔(مدنی مذاکرہ۔29 جنوری 2015)
ان فرامین کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے
طلب گاروں کے لیے رزقِ حلال کمانا اور مالِ حرام سے بچنا کتنا ضروری ہے۔
اللہ پاک سے دعا
کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا
فرمائے اور مالِ حرام سے بچتے رہنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم