حرام کمانے
کھانے کی مذمت از بنت قاسم حسین، جامعۃ المدینہ یزمان ضلع بہاولپور
حرام کمانا اور کھانا الله تعالیٰ کی بارگاہ میں
سخت نا پسندیدہ عمل ہے، اس کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ
بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29)
ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت کے
متعدد معنی ہیں، اس سے سود، جوا،لوٹ مار،چوری،خیانت،جھوٹی شہادت کے ذریعے مال حاصل
کرنا یہ سب حرام خوری میں شامل ہیں، یہ وہ مال ہے جو دوسرے انسان سے عوضانہ کے
بغیر حاصل کیا جائے، یہ آیت دوسروں کا مال نا حق لینے سے منع کرتی ہے اور یہ حکم
قیامت تک رہے گا۔
حرام مال
سے متعلق کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیے:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر فاروق رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے: جس نے دس درہم کا کپڑا خریدا اس میں ایک درہم حرام مال
تھا جب تک وہ اپنے جسم سے اس کپڑے کو جدا نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول
نہ فرمائے گا، اگر میں نے یہ الفاظ نبی اکرم ﷺ سے نہ سنے ہوں تو اللہ پاک یہ میرے
دونوں کان بہرے کر دے۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)
2۔ تم میں سے کوئی اپنی رسی لے کر پہاڑ پر جائے اور
لکڑیاں اپنی پیٹھ پر لاد کر آئے وہ اس سے بہتر ہے جو لقمہ حرام کھائے۔ (مسند امام
احمد، 3/68، حدیث: 7493)
3۔ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ
کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ
کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا
ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)
4۔ اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو،مستجاب الدعوات ہو جاؤ
گے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ
اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا
گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث: 6495)
اللہ اکبر کس قدر نحوستیں ہیں حرام مال کمانے اور
کھانے کی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حلال کمانے اور کھانے کی توفیق دے! آمین