بے شک رزق کے حلال الله کی عظیم نعمت اور سببِ برکت ہے جب کہ حرام کھانا اور کمانا عذابِ الہی کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے۔

قران و احادیث میں حلال کھانے کے ساتھ حرام سے بچنے کا بھی حکم دیا گیا جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) (پ 2، البقرۃ: 168) ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ شیطان کے راستوں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ طیب رزق سے مراد جو بذات خود بھی حلال ہو اور حلال ذریعے سے کمایا ہو جیسے سبزی وغیرہ۔ حرام رزق سے مراد جو خود بھی حرام ہو اور حرام ذریعے سے کمایا ہو، جیسے چوری وغیرہ کے ذریعے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص99) آئیں حرام کھانے کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی سنتے ہیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہ ہوگا اگر اس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ بےشک الله پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/505 حدیث 3744)

2۔ اگر کسی نے حرام مال جمع کیا پھر اُس میں سے زکوٰة ادا کی یا صدقہ دیا تو اُس کو اِس کا کچھ اجر نہیں ملے گا۔ بلکہ اُلٹا اُس کو اِس کا وبال ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، 5/151، حدیث: 3356)

3۔ جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا لیکن اُس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

4۔ حضرت علی کرم الله وجہہ کی روایت میں ہے کہ جس نے حرام مال سے کرتا پہنا تو اُس کی نماز قبول نہیں۔

(مسند بزار، 3/61، حدیث:819)

الله تعالیٰ سے دعا ہے ہمیں حرام کھانے اور کمانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین