اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص رزق حلال وحرام میں تمیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ رزق حلال کمانااور رزق حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز، روزہ اور دیگر فرائض پرعمل پیرا ہونا، بلکہ حیرت ہے کہ مسلم سوسائٹی کے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز حرام کیوں ہے؟ اسکے استعمال میں حرج کیا ہے؟ حالانکہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہےکہ وہ اللہ کےنازل کردہ قانون کو ماننے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے، حضرت محمد ﷺ سب سے افضل ہیں اللہ کریم نے انبیائے کرام و رسل کی مقدس ومطہر جماعت کو قرآن مجید میں مخاطب فرمایا: سورۂ مومنون کی آیت نمبر51 میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱) ترجمہ کنز الایمان: اے پیغمبرو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ آئیے حرام کی مذمت پر احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیے:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو بندہ مال حرام حاصل کرتاہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ تعالیٰ برائی سے برائی نہیں مٹاتاہاں نیکی سے برائی کو مٹادیا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)

2۔ اللہ تعالیٰ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9258)

3۔ اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے،اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہےتو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث: 6495)

4۔ سرکارِ دوعالم نے ایک شخص کا ذکر کیاجو لمبا سفر کرتا ہے اسکے بال پر گندا اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! پکاررہاہے حالانکہ اسکا کھانا حرام، پینا حرام،لباس حرام اور غذا حرام ہو پھر اسکی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)

معلوم ہوا حرام کمانے کھانے سے صدقہ مقبول نہیں، دعائیں مقبول نہیں،ایسے شخص کے لیے آگ بہتر ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنے محبوب کے صدقے حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین