حرام کمانے
کھانے کی مذمت از بنت محمد اعجاز، جامعۃ المدینہ ستراہ سیالکوٹ
حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت
نا پسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے 4
احادیث درج ذیل ہیں:
احادیث مبارکہ:
1۔ جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو
صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد
چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں
مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)
2۔ اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے
جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2 / 8،
حدیث: 9257)
3۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا: اے سعد!
اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ
قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن
کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ
بہترہے۔ (معجم الاوسط، 5 / 34،
حدیث: 6495)
4۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا
سفر کرتا ہے،اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی
طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس
حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)
اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ
بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29)
ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔حضور اکرم ﷺ
کا ارشاد ہے: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پروا نہیں کرے گا کہ اس مال
کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے؟(بخاری، 2/7، حدیث: 2059) چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، رشوت، شراب،
سنیما، جوا، سٹہ، ناچ، گانا، جھوٹ، فریب، دھوکا بازی، کم ناپ تول، بغیر کام کئے
مزدوری اور تنخواہ لینا، سود وغیرہ یہ ساری کمائیاں حرام و ناجائز ہیں۔ جس شخص نے
حرام طریقوں سے مال جمع کیا اور مر گیا تو اس کے وارثوں پر یہ لازم ہے کہ اگر انہیں
معلوم ہو کہ یہ فلاں فلاں کے اموال ہیں تو ان کو واپس کر دیں اور نہ معلوم ہو تو
کل مالوں کو صدقہ کردے جان بوجھ کر حرام مال کو لینا جائز نہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ ہمیشہ
مال حرام سے بچتا رہے کہ حدیث شریف میں ہے: مال حرام جب حلال مال میں مل جاتا ہے
تو مال حرام کو بھی برباد کر دیتا ہے اس زمانے میں لوگ حلال حرام کی پروا نہیں
کرتے یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے لیکن بہرحال ایک مسلمان کے لئے حلال
و حرام میں فرق کرنا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حرام رزق کمانے اور
کھانے سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ حلال رزق کے ذریعے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ