زنا ایک سنگین
اور قبیح ترین گناہ ہے۔ دینِ اسلام جہاں زنا سے منع کرتا ہے وہیں اسبابِ زنا کے
قریب جانے سے بھی روکتا ہے۔شرک کے بعد زنا کی نجاست و خباثت تمام معصیات سے بڑھ کر
ہے۔ کیونکہ یہ گناہ ایسے ہیں جو دل کی قوت و وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور جب
یہ نجاست دل کو فساد سے بھر دیتی ہے تو یقیناً اللہ طیب و پاک ذات سے انسان دور ہی
ہوگا۔ دینِ اسلام اس بدکاری کی ہر شکل سے روکتا اور اس کی مذمت کرتا ہے۔ سراً ہو
یا جہراً، ہمیشہ کا ہو یا ایک لحظہ کا، آزادی سے ہو یا غلامی کے ساتھ، اپنوں سے ہو
یا بیگانوں سے، حتی کہ اس کی طرف لے جانے والے اسباب المخادنہ والمصادقہ کی بھی
نہیں اور نفی کر دی گئی ہے۔ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ اور قرب
قیامت اسی بدکاری کے ارتکاب کی شدت و کثرت کی وجہ سے سماوی عذاب اور لا علاج امراض
مسلط کر دیئے جائیں گے۔ حتی کہ اس جرم اور دیگر اس کے ہم جنس جرائم کی وجہ سے لوگ
خنزیر اور بندر کی شکل والے بنا دیئے جائیں گے۔
یہاں زنا کی
مذمت پر 5 اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
(1)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا
ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا
ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ ( ابو داود، 4 / 293،
حدیث: 4690)
(2)حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ نہ
کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظرِ ِرحمت فرمائے گا
اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا: 1) بوڑھا زانی2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ 3)تکبر کرنے
والا فقیر۔(مسلم، ص68، حدیث: 107)
(3)حضرت مقداد
بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، نبیِ اکرم ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام سے ارشاد
فرمایا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللہ اور
اس کے رسول نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے
(کے گناہ) سے ہلکا ہے۔ ( مسند امام احمد، 9 / 226،
حدیث: 23915)
(4)حضرت
میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت اس وقت
تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے
اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا
فرما دے گا۔ ( مسند امام احمد، 10 / 246،
حدیث: 26894)
(5)صحیح بخاری
میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے
ارشاد فرمایا میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر
زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی
ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ،
اُس میں آگ جَل رہی ہے اور اُس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں۔ جب آگ کا
شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے
کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ تھےان کے متعلق بیان فرمایا) یہ
زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ ( بخاری، 1/ 467،
حدیث: 1386)
ان احادیث
مبارکہ کو پڑھ کر ہر مسلمان کو اللہ پاک کے ڈر سے لرز جانا چاہیے اور اس گناہ سے
بچنا چاہیے کہ یہ بدترین گناہ ہے۔
اس گناہ میں
مبتلا ہونے کی ایک وجہ والدین کا اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرنا بھی ہے۔ کچھ
والدین اپنی اولاد کے نکاح میں اچھےمال و دولت والے خاندان کی تلاش میں بھی تاخیر
کر دیتے ہیں کہ مال و دولت والا خاندان ملے لیکن حقیقت میں جو دین دیکھ کر نکاح
کرتے ہیں انہیں مال میں برکت دی جاتی ہے۔ فقط مال دیکھ کر نکاح کرنے والے کے متعلق
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جو صِرف مال دیکھ کر نکاح کرے گا، وہ فقیر رہے گا، جو صِرف
خاندان دیکھ کر نکاح کرے گا وہ ذلیل ہو گا اور جو دِین دیکھ کر نکاح کرے گا اسے
برکت دی جائے گی، مال ایک جهٹکے میں، جمال ایک بیماری میں جاتا رہتا ہے۔ (مراٰۃ
المناجیح، 5/3-4)
اس گناہ میں
مبتلا ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح تو کر دیا جاتا ہے لیکن بیٹی کی رُخصتی
میں تاخیر کر دی جاتی ہے۔
یاد رہے نکاح
کے بعد رُخصتی میں تاخیر شرعاً جائز ہے۔ اگرچہ تاخیر سے رُخصتی کرنا جائز ہے مگر
فی زمانہ ایسا نہ چاہیے موجودہ حالات کسی سے ڈھکے چهپے نہیں، لڑکی ہو یا لڑکا ان
کے نکاح میں تاخیر کرنا یا نکاح کے بعد بیٹی کی رُخصتی میں تاخیر کرنا خطرے سے
خالی نہیں ہے لہٰذا والدین کو چاہئے کہ اس فرض سے جتنی جلدی ممکن ہو سبکدوش ہوں
ورنہ لڑکی یا لڑکا اگر بہک گئے تو ان کے گناہ کا وبال والدین پر بهی آئے گا،
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کے گناہ اپنے سَر نہ لو، جیسا کہ اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: اگر نکاح کی حاجت شدید ہے کہ بے نکاح
کے معاذ اﷲ گُناہ میں مبتلا ہونے کا ظنِ غالب ہے تو نکاح کرنا واجب ہے، بلکہ بے
نکاح وقوعِ حرام کا یقینِ کلی ہو تو نکاح فرضِ قطعی یعنی جبکہ اُس کے سِوا کثرتِ
روزہ وغیرہ معالجات سے تسکین متوقع نہ ہو، (ایسی صورت میں) اگر خود نکاح نہ کریں
گنہگار ہوں گے اور اگر اُن کے اولیاء (یعنی والدین یا سرپرست) اپنے حد مقدور تک
کوشش میں پہلوتہی کریں گے تو وہ بهی گنہگار ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 12/291)
نبی کریمﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر بچہ بالغ ہو اور اُس کا نکاح نہ کِیا پهر اگر وہ گُناہ میں پڑا
تو اُس کا گُناہ اُس کے باپ پر (بهی) ہو گا۔ (شعب الایمان، 6/401،
حدیث: 8666)
زنا جیسی بری
عادت سے بچنے کا آسان نسخہ بھی اس حدیث پاک میں موجود ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو! تم میں
جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے
سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی
استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری، 3 / 422، حدیث: 5066)
اللہ پاک تمام
مسلمانوں کو بدکاری سے بچائے اور اللہ پاک ہمیں اپنے احکام پر چلتے ہوئے پاکیزہ
زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریمﷺ