یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد
شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے
میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ
یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ،
پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)
اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا
اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے
میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی
غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ،
الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)
گمان کی تعریف: ہر وہ خیال جو ظاہری نشانی سے
حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے۔ اس کو "ظن" بھی کہتے ہیں۔ مثلاً دھواں اٹھتا دیکھ کر آگ کی موجودگی کا خیال آنا ۔
(1) بد ُگمانی سے بچو
بے شک بد ُگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ (بخاری ،
3/446 ،حدیث: 5143) (2)فرمان
آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی
(دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے
اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
قرینہ سے اس سے ایسا ہونا
ثابت ہوتا ہو تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ
کر اُسے شراب خور (شراب پینے والو) گمان کیا تو اس بد گمانی کرنے والے کا تصور۔انہیں
(اس یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے موضع تہمت یعنی ( تہمت لگنے کی جگہ) سے
کیوں اجتناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔
امیرالمؤمنین خلیفۂ دوم
حضور سیدنا فاروقِ اعظم فرماتے ہیں: جو اپنے آپ کو خود تہمت کے لئے پیش کردے تو وہ
اپنے بارے میں بدگُمانی کرنے والے کو مَلَامت نہ کرے ۔(الدرالمنثور، الحجرات )
بد گمانی ممنوع ہے۔ جیسے اللہ پاک کے ساتھ بدگمانی
رکھنا اور نیک مؤمن کے ساتھ بدگمانی رکھنا۔(تفسیر خزائن العرفان) اللہ پاک سے بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ یہ گمان
رکھنا کہ اللہ مجھے رزق نہیں دے گا یا میری حفاظت نہیں فرمائے گا یا میری مدد نہیں
کرے گا۔ (الحديقۃ الندیۃ، 2/7)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تمہیں بد گمانی پیداہو تو اس پریقین نہ کرو،
جب تم حسد کرو تو حد سے نہ بڑھا کرو، جب تمہیں کسی کام کے بارے میں بدشگونی پیداہو
تو اسے کر گزرو اور اللہ پاک پربھروسہ رکھو اور جب کوئی چیز تولو تو زیادہ تول دیا
کرو۔
(5) لوگوں سے منہ پھیر لو کیا تم نہیں جانتے کہ
اگرتم لوگوں میں شک کو تلاش کرو گے تو انہیں خراب کر دوگے یافسادمیں ڈال دو گے۔
(6) لالچ ایسی پھسلانے والی چٹان ہے جس پرعلما ء بھی
ثابت قدم نہیں رہتے۔
(7) نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک کی تین چیزوں سے پناہ مانگو: (1)ایسی خواہش
سے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو (2)ایسی خواہش سے جو عیب دار کر دے (3)ایسے عیب سے جس کی
خواہش کی جاتی ہو، ایسی خواہش سے اللہ پاک کی پناہ مانگوجوعیب بن جائے اور ایسے عیب
سے جو خواہش بن جائے۔
(8) اللہ پاک کی پناہ مانگو ایسی
خواہش سے جو عیب میں ڈال دے اور ایسی خواہش سے جو دوسری خواہش میں ڈال دے اور بے
فائدہ چیزکی خواہش سے۔
(9) خواہشات سے بچتے
رہوکیونکہ یہ بہت بری تنگدستی ہے اور ایسے کاموں سے بچو جن پر عذر پیش کرنا پڑے۔
کچھ وضاحت : صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ (متوفی 1376 ھ) لکھتے ہیں: بےشک مسلمانوں پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی
کے بارے میں بدگمانی کو دل پر جما لینا ہے تو شیطان اس کو ابھارتا ہے کہ وہ زبان
سے اس کا اظہار کرے۔ اس طرح وہ شخص غیبت کا مرتکب ہو کر ہلاکت کا سامان کر لیتا ہے
یا پھر وہ اس کے حقوق پورے کرنے میں کوتاہی کرتا ہے یا پھر اُسے حقیر اور خود کو
اس سے بہتر سمجھتا ہے۔ یہ تمام تر چیزیں ہلاک
کرنے والی ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ،2/8)