دین ِاسلام وہ عظیم دین ہے جس میں  انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے ۔ جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ،چنانچہ قراٰنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل:36)

اور احادیث میں بھی بدگمانی کی مذمت کی گئی ہے چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں :

(1) کسی مسلمان کے رزق میں بدگمانی نہ کرے۔ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں۔ فرمایا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور پوچھ گچھ نہ کرے اور اس کا پانی پئے اور پوچھ گچھ نہ کرے ۔

یعنی خواہ مخواہ اس سے یہ نہ پوچھو کہ یہ کھانا دودھ پانی کہاں سے آیا ہے تیری کمائی کیسی ہے، حرام ہے یا حلال ؟ کہ اس میں بلاوجہ بھائی مسلمان پر بدگمانی ہے اور صاحبِ خانہ کو ایذا رسانی۔ خیال رہے کہ مخلوط آمدنی والے کے ہاں دعوت کھانا درست ہے۔(مسند احمد ،مسند ابی ہریرہ ،حدیث : 9184)

(2) بدگمانی فتنہ و فساد کی جڑ ہے ۔روایت ہے حضرت جابر ابن عتیک سے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بعض شرم وہ ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے اور بعض شرم وہ ہیں جنہیں اللہ ناپسند کرتا ہے لیکن وہ شرم جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ مشکوک چیزوں میں شرم ہے اور لیکن وہ شرم جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ غیر مشکوک چیز میں شرم ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی الخیلاء فی الجہاد، حدیث: 2659)

اس حصہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی بلاوجہ کسی پر بدگمانی کرنا غیرت نہیں بلکہ فتنہ و فساد کی جڑ ہے بعض خاوندوں کو اپنی بیویوں پر بلاوجہ بدگمانی رہتی ہے جس سے ان کے گھروں میں دن رات جھگڑے رہتے ہیں، یہ غیرت رب کو ناپسند ہے، رب فرماتا ہے: اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (مرآۃ المناجیح، 5/157)

(3)بادشاہ کا بدگمانی کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ روایت ہے حضرت ابو امامہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرماتے ہیں کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو انہیں بگاڑ دے گا(یعنی ان کے دین و دنیا تباہ کردے گا اور ملک میں فساد برپا ہوجائے گا کیونکہ عیوب سے بالکل خالی کوئی کوئی ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کے عیوب کی تلاش نہ کرو بلا وجہ ان پر بدگمانی نہ کرو) ریبہ ر کے کسرہ سے بمعنی شک و تہمت،قرآن کریم میں ہے"لَا رَیۡبَ فِیۡہِ"یعنی اگر سلطان یا حکام اپنی رعایا پر بدگمانی کرنے لگیں اور ان کے معمولی کاموں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور ان کی بلاوجہ پکڑ دھکڑ کرنے لگیں۔ (سنن ابی داؤد اول کتاب الادب باب فی النھی عن التجسس حدیث : 4889)

(4) بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجائو۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس..الخ، حدیث: 2563)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(سنن ترمذی/كتاب البر والصلۃ عن رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،حدیث: 1988)

خلاصہ: بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے لہذا ان عیوب سے ہمیں سخت بچنے کی حاجت ہے۔ اللہ پاک ہمیں ان برائیوں سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔