محمد طلحہ عطّاری (درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار کراچی، پاکستان)
انسانی زندگی میں بعض لوگوں سے تعلقات اس حد تک بڑھ جاتے
ہیں جنہیں کسی رشتے کا نام تو نہیں دیا جاتا لیکن انہیں نبھانا ضروری سمجھا
جاتاہے، ان میں ایک اہم تعلق دوستی (Friendship) کا بھی ہے۔ دوستی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے معاشرے میں
تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔
روزمرّہ کے مشاہدات اور تاریخ (History) کے مطالعہ سے بخوبی آشکار ہوتاہے
کہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت کی بھلائی
والے کاموں میں بھی لگے رہے، جبکہ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو برے دوستوں کی وجہ سے
دنیا و آخرت کی بربادی والے راستے پر چل نکلے۔ ایک مسلمان کو کسے دوست بنانا چاہئے
اور اسلامی معاشرے میں دوستی کے تقاضے کیا ہیں؟ آئیے اس بارے میں چند مدنی پھول
ملاحظہ کرتے ہیں:
تاجدارِ لاہور، شیخ المشائخ، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری
رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف الْمَحْجُوب میں لکھتے ہیں: ایک شخص
کعبہ شریف کا طواف کر رہا تھا، اس دوران اس کی زبان پر صرف ایک ہی دُعا تھی: اے
اللہ پاک! میرے دوستوں کو نیک بنا دے۔ کسی نے پوچھا: اس مقام پر تم اپنے لئے دعا
کیوں نہیں مانگتے ؟ صرف دوستوں کے لئے ہی کیوں دُعا کر رہے ہو ؟ اُس شخص نے بہت
کمال (Excellent ) جواب دیا،
کہا: میں (یہاں مکہ مکرمہ میں تو نیک کاموں میں مصروف ہوں مگر جلد ہی میں) نے واپس
اپنے دوستوں کے پاس جانا ہے ، اگر وہ نیک ہوئے تو میں نیک بن جاؤں گا اور اگر وہ
خراب ہوئے تو ان کی خرابی مجھے بھی پہنچ کر رہے گی ، لہذا میں اپنے دوستوں کے لئے
دُعا کر رہا ہوں۔( كشف المحجوب، مترجم، صفحہ: 499 بتغیرٍ)
انسان کی طبیعت اور
فطرت (Nature) ہی ایسی ہے کہ
بالکل تنہا زندگی نہیں گزار سکتا، اللہ پاک نے ہم انسانوں کی ضروریات کو ایک دوسرے
کے ساتھ یوں جوڑ دیا ہے کہ ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر
ہی زندگی گزارتے ہیں، ہمیں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی لحاظ سے دوسروں کی ضرورت رہتی
ہے۔ منقول ہے: ایک شخص یوں دُعا کر رہا تھا: اللهُمَّ
اغنِي عَنِ النَّاسِ اے اللہ پاک! مجھے لوگوں سے
بے نیاز کر دے۔ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سنا تو
فرمایا: اے شخص! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اللہ پاک سے موت کی دعا مانگ رہے ہو ! بے
شک انسان جب تک زندہ ہیں، ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اس کی بجائے یوں
دُعا کرو: اللَّهُمَّ اغْنِنِي عَنْ شِرَارِ النَّاسِ اے اللہ پاک! مجھے بُرے لوگوں سے محفوظ فرما(ادب الاختلاط
بالناس، صفحہ : 56)
دوستی کے آداب سیکھنا ضروری ہے: ہم لوگوں کے ساتھ میل جول ، تعلقات وغیرہ سے بے نیاز نہیں
ہو سکتے، جب تک زندہ ہیں، ہمیں دوسروں کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، دوستی،
تعلق رکھنا ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں دوستی اور نیک صحبت کے آداب
پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نفس کی عادت ہے کہ اپنے ساتھیوں سے راحت پاتا ہے، جس قسم کے لوگوں کی صحبت میں
بیٹھتا ہے، انہی کی عادات اختیار کر لیتا ہے، اسی لئے مشائخ (یعنی اولیائے کرام)
سب سے پہلے دوستی کے حقوق پر توجہ دیتے اور مریدوں کو اسی کی ترغیب (Motivation) دلاتے ہیں،
یہاں تک کہ مشائخ کے ہاں دوستی کے آداب سیکھنا اور ان پر عمل کرنا فرض کا درجہ
رکھتا ہے۔ ( كشف المحجوب مترجم ، صفحہ: 499 بتغیرٍ)
انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ترمذی شریف کی حدیث پاک
ہے، اللہ پاک کے آخری نبی، رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا: الرَّجُلُ
عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہذا تم میں سے ہر ایک
کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔
(2) یعنی عموماً انسان اپنے دوست کی سیرت و اخلاق اختیار کر
لیتا ہے، کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیتا ہے، لہذا اچھوں سے دوستی رکھو تا کہ
تم بھی اچھے بن جاؤ! اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اسے جانچ لو کہ اللہ ورسول کا
فرمانبر دار ہے یا نہیں۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں: انسان کی طبیعت میں اخذ کرنے کی
خاصیت (Quality) ہے ، حریص کی
صحبت سے حرص اور زاہد کی صحبت سے زہد و تقویٰ ملے گا (لہذا ہر ایک کو چاہئے کہ کسی
کو دوست بنانے سے پہلے خوب غور و فکر کر لے، جانچ لے کہ میں کسے دوست بنارہا ہوں )۔
( ترمذی، کتاب الزہد، صفحہ :566، حدیث: 2378)
دوستوں کے چند حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیکر اُنس و محبت بنایا ہے ۔دنیا میں
اس کیلئے کچھ خونی رشتے ہیں اور کچھ قلبی، قلبی رشتوں میں ایک عظیم رشتہ دوستی کا
ہے ۔انسان فطرۃً دوست سے تمام معاملات میں تبادلہ خیال کر کے فرحت محسوس کرتے ہوئے
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے ۔ہم نے مسلمانوں کی باہمی ، دوستی ،بھائی چارگی اور
محبت و مؤدت کے بارے میں فوائد عظیمہ جمع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اﷲ تعالیٰ اسے
شرف قبولیت بخشے اور ذریعہ ہدایت بنائے ۔آمین
باہمی دوستی کے اسباب:ایک مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان کی محبت اور دوستی پیدا ہونے کے چند اسباب
ہیں ۔ پہلا سبب حسن و جمال ہے کہ حسین انسان سے محبت اور دوستی کا خواہاں ہر حسن
پسند شخص ہوتا ہےاور اس کا دوسرا سبب مالداری ہے کہ مالدار شخص سے ہر دولت پسند
شخص کو فطر ی طور پر محبت ہو جاتی ہے اور اس کا تیسرا سبب ہم وطنی ہے کہ ہم وطن دو
اشخاص پر دیس میں فطری طور پر ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں اور ان میں محبت و
اخوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا چوتھا سبب ہم قوم ہونا ہے کہ ایک قوم کے اشخاص
خونی تعلق کی بنا پر فطرتی طور پر ایک دوسرے کے ہمدرد بن جاتے ہیں اور اس کا
پانچواں سبب پارسائی اور پاکبازی ہے کہ پار سا اور پاکباز انسان سے مسلمانوں کو
قلبی کشش ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا سب قسم کی دوستیاں اور بھائی چارگیاں شرعاً
محمود ہیں جبکہ وہ شرعی حدود وضوابط کے اندر ہوں لیکن آخری قسم کی دوستی شرع شریف
کی نظر میں بہت عزیز اور پسندیدہ ہے ۔ نیک انسان سے دوستی دنیا و آخرت کے فوائد کے
حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔ اور جب اس دوستی کی بنیاد محض رضائے الہٰی پر
ہو تو پھر اس کے فوائد و ثمرات کا سلسلہ لا متناہی طوالت اختیار کر لیتا ہے ۔ ہم
نے اس مختصر مضمون میں اسی جانب مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
دوستی شریعت کی نظر میں:اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالعرفان:نہ اندھے پر تنگی اور نہ لنگڑے
پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھریا
اپنے باپ کے گھریا اپنی ماں کے گھریا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھریا
اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھپیوں کے گھریا اپنے ماموؤں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے
گھریا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں یا اپنے دوست کے یہاں۔ (پ18، النور: 61)
شان نزول :اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام حضور
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے ساتھ جہاد کو جاتے تو معذور صحابہ کو جو بوجہ عذ ر جہاد میں شرکت نہیں کر سکتے
تھے اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے تھے کہ وہ ان کے گھروں کی دیکھ بھال رکھیں اور
انہیں اجازت دے جاتے تھے کہ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر کھائیں پئیں ۔ لیکن یہ
حضرات اس خرچ کرنے میں بہت حرج محسوس کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل
ہوئی ۔(نور العرفان، صفحہ571)
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں رشتہ داروں کو تفصیل سے
ذکر فرمایا وہاں دوستوں کو بھی ذکر فرمایا اور دوستوں کو رشتہ داروں کے حکم میں
رکھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرع شریف دوستی کے رشتہ کا بھی لحاظ کرتی ہے ۔
نیکوں کی دوستی کا آخرت میں فائدہ:اﷲ تعالیٰ دوزخیوں کے احوال کے بارے میں فرماتا ہے : ترجمۂ
کنزالعرفان:وہ گمراہ کہیں گے اس حال میں کہ وہ اس میں باہم جھگڑرہے ہوں گے۔ خدا کی
قسم، بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمہیں تمام جہانوں کے پروردگار کے برابر
قرار دیتے تھے۔ اور ہمیں مجرموں نے ہی گمراہ کیا۔ تو اب ہمارے لئے کوئی سفارشی
نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔(پ19، الشعرآء: 96تا 100)
مفسر علاؤ الدین فرماتے ہیں:’’یہ بات کافر اس وقت کہیں گے
جب فرشتے انبیاء او رمومنین گناہ گار دوزخی مسلمانوں کی شفاعت کریں گے اور اﷲ
تعالیٰ ان کی شفاعت کی وجہ سے انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا۔ حضرت
جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے
سنا :’’بلا شبہ کوئی شخص جنت میں ہو گا تو وہ کہے گا میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے
؟ حالانکہ اس کا وہ دوست جہنم میں ہو گا تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا اس کیلئے اس کے
دوست کو جنت کی طرف نکال لاؤ ۔ سو جو باقی جہنمی ہوں گے وہ یہ کہیں گے کہ اب ہمارا
کوئی سفارشی نہیں اور نہ کوئی غمخوار دوست ہے ۔ ‘‘(تفسیر خازن، جلد 5)
اور مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں :حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اﷲ
کی قسم جہنمی کفار یہ جانتے ہوں گے کہ دوست جب نیکو کار ہو تو وہ نفع دیتا ہے اور
غمخوار دوست جب نیکو کار ہو تو وہ سفارش کرتا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر، جلد 3) نیکو
کار سچے دوستوں کے حالات کے متعلق چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:’’بلا شبہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری بزرگی کے سبب سے جو لوگ
ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں وہ کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سایہ میں بساؤں گا ۔
آج میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔ (رواہ مسلم)
انہی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ایک شخص اپنے دوست
بھائی کی زیارت کیلئے دوسری بستی کی طرف نکلاتو اﷲ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک
فرشتہ بٹھادیا ۔فرشتے نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا: میں اس بستی میں
رہنے والے ایک دوست بھائی کی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں ،فرشتے نے پوچھا :کیا اس
شخص نے تجھ پر کوئی احسان کیا ہے جس کو تم پالنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں بلکہ
میں اس سے صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتا ہوں ، فرشتے نے کہا:تو میں اﷲ
کا بھیجا ہوا (فرشتہ ) ہوں اور سن لے کہ جس طرح تو نے اس شخص سے اﷲ تعالیٰ کیلئے
محبت کی ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا تو محبوب بن گیا ہے ۔(رواہ مالک ، مشکوٰۃ)
اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
:میری عظمت کے سبب ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے لوگ نورانی منبروں پر ہوں گے ۔ ان
پر نبی اور شہید رشک کریں گے ۔ (مشکوٰۃ، جلد2)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے
رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ تو دوستی اور سنگت صرف مؤمن سے کر اور تو کھانا کھلا
پرہیز گار شخص کو ۔(ترمذی، مشکوٰۃ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:مرد اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ دوست کسے بنا
رہا ہے ۔(مشکوٰۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اگر دو شخص ایک دوسرے سے اﷲ کی رضا کیلئے محبت رکھتے تھے ان میں سے ایک مشرق میں
تھا اور دوسرا مغرب میں تو قیامت کے روز اﷲ ان دونوں کو جمع فرمائے گا اور کہے گا
یہ وہ شخص ہے جس سے تو میری رضا کیلئے محبت رکھتا تھا ۔ (مشکوٰۃ)
مسلمان ان احادیث مبارکہ کو پڑھیں اور نیکو کار مسلمانوں سے
اﷲ کی رضا کیلئے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والوں کے فضائل جانیں اور عمل کی کوشش
کریں ۔اﷲ تعالیٰ توفیق عمل بخشے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
بُروں کی دوستی نقصان دہ ہے:شرع شریف نے جہاں نیکوں کی دوستی کے فوائد بیان کئے وہاں یہ
بھی بتایا کہ بروں کی دوستی نقصان دہ ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اچھے دوست اور برے دوست کی مثالیں کستوری اٹھانے
والے اور بھٹی پھونکنے والے کی مثالوں جیسی ہیں ۔ کستوری اٹھانے والاتجھے مفت
کستوری دے دے گا یا اس سے کستوری خرید لے گا یا تو اس سے خوشبو پائے گا اور بھٹی
جلانے والا یا تو تیرے کپڑے جلائے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔(بخاری و مسلم)
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے
دشمن ہو ں گے مگر پرہیز گار۔(پ25، الزخرف: 67)یعنی دنیا کی دوستیاں قرابتیں قیامت
میں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی مؤمن باپ کا فر بیٹے کا دشمن ہو جائے گا بلکہ
کافر کے اعضاء بھی اس کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ دنیا فانی
ہے تو دنیا کی دوستی بھی فانی ہے ۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مؤمنوں کی قرابت
داریاں اور دوستیاں قیامت میں کام آئیں گی ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں کہ جب دو مؤمن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے تو وہ بارگاہ الہٰی میں عرض کرتا
ہے ۔ مولا میرا فلاں دوست مجھے اچھے کام کا مشورہ دیتا تھا اور برے کام سے روکتا
تھا۔ مولامیرے بعد اسے گمراہ نہ کرنا ۔اس کا ایسا ہی اکرام فرمانا جیسا تو نے میرا
اکرام فرمایا اور دو کافر دوستوں سے جب ایک مرجاتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے یا رب
فلاں شخص مجھے اچھے کاموں سے روکتا اور بری باتوں کا مشورہ دیتا تھا تو اسے ہلاک
فرما ۔ غرضیکہ قیامت سے پہلے ہی یہ محبتیں یہ عداوتیں شروع ہو جاتی ہے ۔ (خزائن
العرفان و روح البیان)
لہٰذا دوستی پاک صاف اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے رکھی جائے
تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سر بلندی کی علامت ہے ۔ الحمد ﷲ یہاں تک جو کچھ
عرض کیا گیا ہے اس سے دوستوں کے حقوق و فرائض پر بقدر کفایت روشنی پڑ گئی ہے۔اﷲ
تعالیٰ توفیق بخشے۔