ہمارا ہر روز بہت سے لوگوں سے واسطہ ہوتا ہے جن میں کچھ سے ہمارا خون کا رشتہ ہوتا ہے اور کچھ سے خون کا رشتہ نہیں ہوتا۔ انسانی معاشرے کے قیام کیلئے آپس میں بہترین تعلق ہونا بہت ضروری ہے جن لوگوں سے ہمارا روزانہ کا تعلق ہوتا ہے انہی میں سے دوستی کا تعلق و رشتہ بھی ہے جو کہ بہت اہمیت کا حامل کا ہے۔ کہ اگر اچھا دوست مل جائے تو زندگی سنور جاتی ہے اور صحبت بری ہو تو دوستی دین و دنیا کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔

دوستی کی اہمیت: اگر بغور دیکھا جائے تو گھر سے باہر ہمارا اکثر وقت دوستوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے خواہ وہ کسی ادارے سے منسلک ہوں یا علاقے میں خواہ ان کا تعلق مسجد سے تعلق کی وجہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ دوستی کی اس اہمیت کو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :تم صرف مومن کو دوست بناؤ اور تمہارا کھا نا صرف متقی ہی کھائے ۔( سنن ترمذی ،17 /4،حدیث 2403، مکتبہ دارالفکر بیروت) دوستی کا ہماری زندگی پر کتنا بڑا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ ہم اس حدیثِ مبارکہ سے لگا سکتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ایضا، 4/167،حدیث:2385 )

جہاں اس دوستی کی اتنی اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو سریعتِ اسلامیہ ہم پر لازم کرتی ہے آئیے ان میں سے چند جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)بدنی اور مالی معاونت کرنا : دوستوں کا ایک دوسرے پر حق ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اپنے دوست کی بدنی اور مالی معاونت کریں تا کہ اس کو کسی غیر کی طرف جانے کی حاجت نہ پڑے۔ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان دوست کا حق یہ بھی ہے کہ خود اپنے ہاتھ پاؤں کے ذریعے اس کے سوال کرنے سے پہلے اس کی حاجت پوری کی جائے اور اس کی حاجات کو اپنی حاجات پر مقدم کیا جائے۔ (احیاء العلوم ، 2/634، مکتبۃ المدینہ )

(2)خوبیاں بیان کرنا اور عیب چھپانا : دوست کے حقوق میں سے یہ ایک اہم حق ہے کہ اس کی خوبیوں کو بیان کیا جائے اور عیوب کو صرفِ نظر کر کے دوست کا دفاع کیا جائے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: دوست کی محبت بڑھانے میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں جب کوئی اس کی برائی بیان کرے یا صراحتًا یا اشارتًا اس کی عزت کے درپے ہوتو اس کا دفاع کیا جائے، اپنے دوست کی مدد و حمایت کے لئے کمر بستہ ہوجائے، اس بد گو کو خاموش کروایا جائے اور اس سے سخت کلام کیا جائے۔ ( ایضاً، 2/656، مکتبۃ المدینہ )

(3)وفاداری و خلوص :- دوستی در اصل نام ہی وفا داری اور خلوص کا ہے کہ جس دوستی میں وفاداری اور اخلاص نہیں وہ در حقیقت دوستی ہی نہیں۔ اس اخلاص کا فائدہ نہ صرف دنیا میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی۔ اس کا صلہ سایۂ عرس کی صورت میں ملے گا۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایک طویل حدیث مبارکہ جس سے سایۂ عرس ملنے والوں کا ذکر ہے اس میں دو ایسے اشخاص کا بھی ذکر ہے جو آپس میں اللہ پاک کی رضا کیلئے محبت رکھیں۔ ( صحیح مسلم ، ص 399 ، حدیث:1081،مکتبہ دار الکتب العربي )

(4)عفو و درگزر کرنا: دوست جب آپس میں مل کر ایک معاشرے میں رہتے ہیں تو عموماً ان کے درمان لغزشیں ہو جاتی ہیں لہٰذا یہ دوستوں کے حقوق میں سے ہے کہ ان لغزشوں کو درگزر کیا جائے اور معاف کر دیا جائے ۔ اس حق کو امام غزالی ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: حضرت ابو در دام فرماتے ہیں: جب تمہارے بھائی کی حالت بدل جائے اور وہ سابقہ حالت پر نہ رہے تو اس وجہ سے اسے نہ چھوڑو کیونکہ آج اگر تیرا بھائی ٹیڑھا ہے تو کل سیدھا بھی ہو سکتا ہے۔ (احیاء العلوم مترجم ، 2/665 ، مکتبۃ المدینہ )

(5) دعا کرنا : دوستی کے حقوق میں سے یہ کہ دوست اپنے دوست کیلئے دعا کرتا رہے۔ زندگی میں اپنے دوست کی ترقی کیلئے اور مرنے کے بعد اس کی مغفرت کیلئے دعا کرتا رہے ۔ چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی اپنے بھائی کیلئے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے توفرشتہ کہتا ہے تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔ ( صحیح مسلم)

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں نیک و مخلص دوست عطا فرمائے اور ہمیں ان کے حقوق جاننے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم