خالقِ دنیا نے کائنات کو عالَمِ اسباب بنایا، اس دھرتی پر رہنے والے انسان کی فطرت میں اُنسیت کا عنصر رکھا اسی لیے اسے ”انسان“ کہا جاتا ہے، کیونکہ انسان بہت کمزور ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کی طرف محتاج ہے!”ورنہ اگر صرف ایک روٹی جو انسان کھاتا ہے اگر کہہ دیا جائے کہ اس کے لیے خود زمین میں دانہ ڈالے، پھر ہل چلائے کھیت لگائے پورا سال کھیتی باڑی کرے محنت کرے پھر جب دانا اُ گ جائے تو خود کٹائی کرے پھر اسے پسوائے اور پھر جا کر اس پسے ہوئے آٹے کو گوند کر اس کی روٹی بنائے تو انسان کا نظامِ زندگی مشکل تر ہو جائے۔لہذا انسان اپنی زندگی کئی رشتوں کے درمیان گزارتا ہے انہیں میں ایک بہت خوبصورت و اہم رشتہ دوستی کا رشتہ ہے۔

دوستی کی اہمیت: کسی بھی چیز کو جاننے سے پہلے اس کی اہمیت کو بیان کرنا ضروری ہے، دوستی انسان کی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی مقدس رشتہ ہے کہ اس رشتہ کو اللہ عزوجل کے نیک صالحین، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابہ کاملین بلکہ خود رب العالمین نے اختیار فرمایا! چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔(پ5، النسآء:125)اور حدیث میں ہے: وَقَدِ اتَّخَذَ اللّٰهُ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا اور اللہ نے تمہارے صاحب کو دوست بنایا۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صاحبکم سے مراد خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات گرامی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8 حدیث نمبر:6020)

دوست کون ہو: آج ہمارا معاشرہ علمِ دین سے بہت دور ہوگیا! جس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ بعض نام نہاد روشن خیالی کی زد میں آنے والے مسلمان غیر مسلموں سے دوستی کرنے لگے، جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو سختی سے منع فرمایا ہے کہ وہ کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں، ان سے محبت نہ کریں، بلکہ اللہ و رسول اور مسلمانوں ہی کو اپنا دوست بنائیں، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں توان کی جانوں نے ان کے لئے کتنی بری چیز آگے بھیجی کہ ان پراللہ نے غضب کیا اور یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں ہی رہیں گے۔ اور اگر یہ اللہ اور نبی پر اور اُس پر جو نبی کی طرف نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔ (پارہ6، المآئدۃ، آیت:80، 81)

دوست صحیح العقیدہ ہو: دوست کا عقیدہ اگر درست نہ ہو تو دین برباد ہونے کا سبب بن سکتا ہے اسی لیے دوست وہ ہو جس کا عقیدہ سو فیصد درست ہو، چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:بندہ دوست کے دین پر ہوتا ہے! چاہئے کہ وہ دیکھ لے کسے دوست بنا رہا ہے۔( مشکاۃ،حدیث5019)

ایک دوست دوسرے دوست کی نجات کا ذریعہ ہو: دوستی فقط ساتھ کھانے پینے، ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے نہ ہو، بلکہ دوست وہ ہو جو گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے رغبت دلائے، حدیث پاک میں ہے:دوست ایسا ہو جسے دیکھ کر خدا یاد آ جائے،جس کی باتیں سن کر دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو جائے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزھد،باب ای جلساء خیر، حدیث 17686 ملخصاً)

دوستی اللہ کریم کی رضا کے لیے ہو: ہر کام کا کوئی نا کوئی مقصد ہونا چاہیے، کیونکہ جس کام کا کوئی مقصد نہ ہو وہ لغو و بیکار کے زمرہ میں آ جاتا ہے اسی لیے دوست بناتے وقت یہ نیت ہو کہ میں اس سے اللہ عزوجل کی رضا کے لیے دوستی کر رہا ہوں اور مقصد یہی ہو کہ مل جھل کر نیکی کے کام کریں، امت مسلمہ کی خدمت کریں، ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں کام آئیں، ایک دوسرے کو برائی سے روکیں اور بھلائی کے کاموں میں مدد کریں، اور فرمانِ الٰہی عزوجل”اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو“ کے مصداق بن جائیں۔(پارہ،6،المائدۃ،آیت:2)

سچا دوست: جب انسان خود غرض و مفاد پرست ہو جائے اور صرف اپنے بارے میں سوچے، تب لوگ اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے شخص سے پھر کوئی دوستی کرنا بھی پسند نہیں کرتا، ایک دوست کو کس طرح ہونا چاہیے! چنانچہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ، شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: تمہارا سچا دوست وہ ہے جو تمہارا ساتھ دے اور تمہارے فائدے کے لیے خود کو نقصان پہنچائے،جب تمہیں گردشِ زمانہ پہنچے تو تمہارا سہارا بنے اور تمہاری حفاظت کے لیے اپنی چادر پھیلا دے۔ (احیاء العلوم (مترجم) ج،2ص،622)

اے اللہ کریم!ہمیں مسلمان نیک متقی صحیح العقیدہ سے خالصتاً اپنی رضا کے لیے دوستی کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں دوستی کے تمام حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما، فاسق و فاجر، بد مذہب و کفار سے موالات و دوستی رکھنے سے محفوظ فرما اٰمین! بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم