قرآن ِکریم، فرقانِ مجید میں ہر خشک و تر کا بیان ہے، سارے اوّلین و
آخرین کے علوم کا مجموعہ ہے، اس میں عقائد، اعمال، اخلاق، سیاسیات، عبادات،
معاملات، معاشیات، الغرض ہر شے کا بیان ہے، قرآنِ پاک ایسا معظم کلام ہے کہ اس کے
مثل کسی کا کلام نہیں،کیونکہ یہ خالق کا کلام ہے،اس قرآنِ عظیم میں اللہ جل شانہٗ نے
دھاتوں کا ذکر کس طرح فرمایا، آئیے!اس سے متعلق چند آیات پیش کی جاتی ہیں:وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ
شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ ۙاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ
نَارًا ۙاَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ؕوَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ
كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ ؕبِئْسَ الشَّرَابُ ؕوَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا۔ترجمہ:اور
فرما دو کہ تمہارے ربّ کی طرف سے ہے تو جو
چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بے شک ہم نے ظالموں کے لئے وہ آگ تیار کر
رکھی ہے، جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور پانی کے لئے فریاد رسی ہوگی، اس پانی
سے چراغوں کھولتے ہوئے دھات کی طرح ہے کہ
ان کے منہ بھون دے گا، کیا ہی برا پینا ہے
اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ۔(پ15، سورہ کہف، آیت 29)تفسیر:اللہ پاک کی پناہ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:وہ غلیظ پانی
ہے، روغن زیتون کی تلچھٹ کی طرح۔ترمذی کی حدیث میں ہے:جب وہ منہ کے قریب کیا جائے
گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی، بعض مفسرین کا قول ہے:یہاں دھات سے مراد
پگھلایا ہوا رانگ اور پیتل ہے۔(بحوالہ کنزالایمان) تفسیر بغوی میں ہے: پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہے۔حضرت ابن ِمسعود رضی اللہ عنہما نے اس طرح تفسیر کی کہ یہاں
دھات سے مراد سونے چاندی کو پگھلانا ہے، آپ نے سونا چاندی منگوا کر پگھلایا اور
فرمایا: یہ ہل کی طرح ہے۔آیت:اِنَّ اللّٰهَ
یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ
تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ
لُؤْلُؤًا ؕوَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۔ترجمہ:بے شک اللہ داخل کرے
گا انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے بہشتوں میں، جن کے نیچے نہریں بہیں، اس میں
پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے۔(سورہ حج،پارہ 17، آیت 23)ایسے سونے کے کنگن
ہونگے، جس کی چمک مشرق سے مغرب تک روشن کر ڈالےگی۔آیت:زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ
الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ
الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا ۚوَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۔لوگوں کے لئے ان کی
خواہشات کی محبت کو آراستہ کر دیا گیا، یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے
جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتیوں کو(ان کے لئے آراستہ کردیا گیا) یہ سب دنیوی زندگی
کا ساز و سامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ (پ3،آل
عمران:14)آیت: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا
بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ
النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ
مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ
ؕاِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ترجمہ:بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے
ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اُتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا،
اس میں سخت آنچ اور لوگوں کے فائدے اور اس لئے کہ اللہ دیکھے اس کو جو بے دیکھے،
اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا غالب ہے۔(پارہ 27، سورہ حدید، آیت 25)بعض مفسرین نے فرمایا: یہاں آیت میں”اتارنا“پیدا کرنے کے معنی میں ہے
اور مراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے معادن سے نکالا اور انہیں
اس کی صنعت کا علم دیا اور یہ بھی مروی ہے کہ اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں آسمان
سے زمین کی طرف اتاریں،لوہا،آگ،پانی،نمک۔(بحوالہ
کنزاالایمان،ص973)آیت:
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ؕیٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ
الطَّیْرَ ۚوَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ ۙ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم
نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ اللہ کی طرف
رجوع کرو اور اےپرندو اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کیا۔(پ22،سورہ
سبا، آیت 10)تفسیر:اس آیت میں حضرت داؤد علیہ السلام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ
ہے، جب آپ نے دعا فرمائی کہ اللہ پاک میرے
لئے کوئی ذریعہ معاش بنا تو اللہ پاک نے
لوہے کو ان کے لئے نرم کر دیا اور آپ کو صنعت ذرہ سازی کا علم دیا، سب سے پہلے زرہ
بنانے والے آپ ہی ہیں، آپ روزانہ ایک زرہ بناتے تھے۔(بحوالہ
کنزالایمان)آیت:وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ
غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ۚوَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ؕوَ
مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ؕ وَ مَنْ یَّزِغْ
مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ۔ترجمہ:اورسلیمان کے
بس میں ہوا کر دی، اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے
کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں
سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کےربّ کے
حکم سے اور جوان میں ہمارے حکم سے پھرے اور ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ (پ22،سبا:12)اللہ پاک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پگھلا دیا،
جیسا کہ حضرت داؤد علیہ
السلام کے لئے لوہا نرم کیا تھا۔آیت: اور ہر معمار اور غوطہ خور
جن اور دوسرے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے (جنوں کو سلیمان کے تابع
کر دیا)۔آیت:اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ
الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا۔تو کیا وہ قرآن کو سوچتے
نہیں یا بعضے دلوں پر ان کے قفل لگے ہیں۔ ( پارہ 26، محمد، آیت
24) لوہا انتہائی اہم معدن ہے،جو لوہا فولاد،مشینری اور مختلف قسم کے
اوزار بنانے کے کام آتی ہے، تانبا برقی آلات سازی میں استعمال ہوتا ہے، برقی آلات
سازی میں استعمال ہوتا ہے،برقی تار بھی تانبے سے بنائے جاتے ہیں۔