قرآنِ حکیم
اللہ رب العزت کی وہ لاریب، مقدس اور کامل و اکمل کتاب ہے کہ اس میں ہرشے کا
تفصیلا ًبیان ہے ۔اللہ کریم نے سورۃ النحل آیت نمبر89 میں تبیانا لکل شئ کہ اس میں ہر چیز کے روشن بیان کا ذکر فرمایا ۔سورۂ
یوسف آیت نمبر111 میں وتفصیلالکل شئ یعنی اس میں ہرشے کی تفصیل کا ذکر کیا، اور سورۂ
انعام آیت نمبر38 میں ما فرطنا فی الکتاب من شئ کہ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں اٹھا
رکھی یعنی جس کا صراحۃیا کنایۃ بیان نہ فرمایا ہے، ان آیت کی روشنی میں یہ کہا
جاسکتا ہے کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کا استخراج یا استنباط قرآن ِکریم
سے نہ کیا جاسکتا ہو۔قرآنِ حکیم میں ولارطب ولا یابس کہہ کرہرچیز کی طرف اشارہ کردیا گیاچاہے وہ
نباتات ہوں یا جمادات،انسان ہو یا حیوان، جنات ہوں یا فرشتے، مشروبات یا ماکولات ، زمینی ہوں یا آسمانی تخلیقات ،اس
جہاں سے تعلق ہو یا اس جہاں سے الغرض سب
کا بیان ہے، انہی اشیاء میں سے دھاتیں بھی ہیں ۔کلام ِالٰہی میں
ان کا ذکر بھی ملتا ہے۔ متعدد کے نام اور ان کے کام بھی بیان ہوئے ہیں ۔قرآنِ حکیم
میں جن دھاتوں کا ذکر ہے اس میں سونا چاندی لوہا، ، تانبا،شامل ہیں۔سوناایک ایسی نعمت ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہوا۔یہ
ایک قیمتی دھات ہے جس کے کئی مصارف ہیں، ایک تو زیورات وغیرہ بنانا ہے، دوم :
گذشتہ ادوار میں کاروبار سونے اور چاندی کے سکوں سے ہوا کرتا تھا ۔ دنیا میں اس کا
حصول مومن و کافر سب کے لیے ممکن ہے لیکن آخرت میں فقط مومنین کے لیے ہوگا۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :اہلِ جنت
کے لیے جنت میں یحلون
فیھا من اساور من ذھب کہ انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں
گے۔ دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت داخل کر دی گئی ہے۔ فرمانِ باری ہے:زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ
الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ
مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ لوگوں کے لیے آراستہ کی گئی ان
خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر۔اگرچہ اسے زینت
اور متاع ِ دنیا کہا گیا ہے مگردنیا میں امت کے مردوں کے لیے سونا اور ریشم کا
پہننا حرام ہے، جب کہ عورتوں کے لیے حلال ہے آخرت میں ہردو کو یہ نعمتیں عطا کی
جائیں گی۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں ہمیں چاندی کا ذکر ملتا ہے۔اس دھات اور نعمت
کا تعلق بھی دنیا اور آخرت دونوں سے ہے، چاندی سے زیورات اور متعدد اشیاء بنائی
جاتی ہیں ،بادشاہ سونے اور چاندی کے ظروف بھی استعمال کرتے تھے مگر شریعتِ مطہرہ نے اس سے منع فرمایا ہے البتہ جنت میں اہلِ جنت کو چاندی کے برتنوں میں
کھلایا پلایا جائے گا۔اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ
فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ(15)قَؔوَارِیْرَاۡ مِنْ
فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(16)ترجمۂ کنزالایمان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کوزوں
کا دور ہوگا جو شیشے کے مثل ہورہے ہوں گےکیسے شیشے چاندی کے ساقیوں نے انہیں پورے
اندازہ پر رکھا ہوگا۔اس کے علاوہ سورۃ الدھر میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :وحلوا اساور من فضة انہیں
چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔دنیا میں ان دھاتوں کا مالک بننے والے مسلمان کے
لیے اگر وہ صاحبِ نصاب ہو جائے تو زکوٰۃ ہوگی اور اگر راہِ خدا میں خرچ کرنے کے
لیے تیار نہیں ہوگا اور اس کا حق ادا نہیں کرے گا تو قرآنِ کریم کا اعلان ہے:وَالَّـذِيْنَ
يَكْنِزُوْنَ الـذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَـهَا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ
فَبَشِّرْهُـمْ بِعَذَابٍ اَلِيْـمٍ (34)وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ
میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔اس کے علاوہ بھی کچھ مقامات
پر قرآنِ کریم میں سونے اور چاندی کا ذکر ہے جیسا کہ کفار کے متعلق رب کریم کا
فیصلہ ہے:اِنَّ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ
اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ ؕ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(91)ترجمۂ کنز
العرفان:بیشک وہ لوگ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرگئے ان میں سے کوئی اگرچہ اپنی
جان چھڑانے کے بدلے میں پوری زمین کے برابرسونا بھی دے تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا
جائے گا ۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔ اس کے
علاوہ قرآنِ کریم میں جن دھاتوں کا ذکر ہے
ان میں لوہا بھی شامل ہے ۔لوہا میں انتہائی سخت قوت ہے اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و
سامان اور جنگی لباس بھی بنایا جاتا ہے اوردیگر کئی صنعتوں میں بھی کام آتا ہے ۔ قرآنِ
کریم میں اس کا بیان بھی متعدد بار وارد ہوا ہے،چنانچہ سورہ ٔحدید آیت نمبر 25میں
لوہے کا اور اس کی افادیت اور استعمال کا
تذکرہ بھی موجود ہے،چنانچہ فرمایا:وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس اور
ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت لڑائی (کا سامان )ہے اور لوگوں
کے لئے فائدے ہیں ۔اس کے علاوہ سورۂ اسراء آیت نمبر 50میں جہاں کفار کے مرنے کے
بعد دوبارہ اٹھنے پر تعجب کا اظہار ہے وہیں ارشاد رب العالمین ہے کہ پتھر یا لوہا بن جاؤ وہ رب پھر بھی اٹھانے پر
قادر ہے ۔قل
کونوا حجارة أو حدیدا تم
فرماؤ کہ پتھر بن جاؤیا لوہا ۔ ایک مقام پر کلام ِالٰہی میں اہلِ جہنم کی سزا کے
بیان میں وارد ہوا ہے :وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍاور ان
کے لیے لوہے کے گرز (ہتھوڑے) ہیں ۔ الآيۃ 21 من سورة الحج۔اسی
طرح سورۂ کہف آیت نمبر 95 میں لوہے کا ذکر بھی ہے اور تانبے کا بھی ۔ جب یاجوج ماجوج سے قوم تنگ ہوئی تو بادشاہ ذوالقرنین نے قوم اور ان کے
درمیان دیوار بنانے کے لیے کہا۔ ارشاد
ربانی ہے:اٰتُوْنِیْ
زُبَرَ الْحَدِیْدِ ؕ حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا
ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا ۙقَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ
قِطْرًا(96)میرے
پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ یہاں تک کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان
برابر کردی تو ذوالقرنین نے کہا: آگ دھنکاؤ۔ یہاں تک کہ جب اُس لوہے کو آگ کردیا
توکہا : مجھے دو تا کہ میں اس گرم لوہے پر پگھلایا ہوا تانبہ اُنڈیل دوں ۔ اسی طرح
سورہ ٔسبا میں لوہے کا ذکر موجود ہے ۔کلامِ الٰہی میں وارد ہے:اللہ پاک کے نبی
حضرت داؤد علیہ
السلام
کے ہاتھ میں لوہا نرم ہوجاتا تھا ۔وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا
جِبَالُ اَوِّبِىْ مَعَهٝ وَالطَّيْـرَ ۖ وَاَلَنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ (10)اور
بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔ اے پہاڑواورپرندو!اس کے ساتھ (اللہ
کی طرف)
رجوع کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں جن
دھاتوں کا ذکر ہے ان میں ایک تانبا بھی ہےاس کا ذکر ہم سورہ ٔکہف کی آیت نمبر 95
میں لوہے کے ذکر کے ساتھ دیکھ چکےاس کے علاوہ سر زمینِ یمن میں سلیمان علیہ
السلام
کے لیے اللہ پاک نے تانبے کو 3 دن کے لیے پانی کی طرح کر دیا اور ایک قول یہ بھی
ہے کہ جیسے داؤد علیہ السلام کے
ہاتھ میں لوہا نرم ہوجاتا تھا ایسے ہی سلیمان علیہ
السلام
کے ہاتھ میں تانبا نرم ہوجاتا تھا۔سورۂ سبا میں ارشاد ربانی ہے:وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ
الْقِطْرِ:
اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا۔