
حرم زمین کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے
گرداگرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے۔
اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے
اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً
حدودِ حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ جائز نہیں۔ بعض حضرات
فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی وجہ سے چاروں
طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف جہاں جہاں تک پہنچی
وہیں حرم کی حد مقرر ہے۔
اب حرمین شریفین کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
(1) حرم مکہ کی حدود اور اس کی
تعظیم: مکہ
معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں
کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت،
2/1085)
(2) حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔
(مراٰۃ المناجیح،4/202)
(3) حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو
جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)
(4) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس
کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)
(5) درخت کاٹنا: حرم
مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے
جائیں۔ (مراٰة المناجیح،4/201)
اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب
فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی
الامین ﷺ
حرمین طیبین کے حقوق از بنت حاجی شہباز عطاری،فیضان
ام عطار گلبہار سیالکوٹ

جس طرح مدینہ منورہ کا مقام بہت بلند ہے اسی طرح حرمین
شریفین کے بھی بہت فضائل ہیں۔ اس کے حقوق کی پاسداری و نگہبانی کے لئے بہت محتاط رہنا
پڑے گا ورنہ چھوٹی سی غفلت کے سبب بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے اردگرد کئی دور تک
حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا،
وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/1085)
حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔
(مراۃ المناجیح،4/202)
حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو
جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)
حرمِ مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ
رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس
کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)
درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت
کاٹنا ممنوع ہے۔ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
(مراة المناجیح،4/201)
اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب
فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہم شریعت مطہرہ کے احکامات کےمکلف ہیں ہمارے لیے اسکی
حدود میں رہ کرہی زندگی گزارنے میں ہی عافیت ہے حرمین طیبین مقدس حدودیں ہے اسکی عظمت
بھی بلند وبالا ہے لہذا ہمیں اسکے حقوق بھی معلوم ہونا ضروری ہیں تاکہ ہم بے ادبی کا
شکار نا ہوجائے۔
عام بول چال میں لوگ مسجد حرام کو حرم شریف کہتے ہیں،
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف حرم محترم ہی میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ
سمیت اس کے اردگرد میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق
الحرمین، ص 89)
ہمارے نزدیک مدینہ ان معنی میں حرم نہیں کہ اسکے جانوروں
کے شکار کرنے اور گھاس صاف کرنے پر دم واجب ہو جن احادیث مبارکہ میں یہ حکم ہے وہ موول
ہیں بلکہ اس سے مراد مدینہ کی زینت باقی رکھنے کیلیے ہے کہ درخت نہ کاٹے جائیں مدینہ
کے حرم ہونے کا مطلب وہ نہیں جو مکہ کا ہے آئمہ ثلاثہ کے نزدیک حرم ہے۔
قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ
رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس
کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے
او جانے والےحدائق بخشش
1۔ عیب جوئی نہ کی جائے: مدینہ
منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ واعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض
طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا
وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ
پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے تیس کوڑےلگانے اور قید میں ڈالے جانے کا
فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)
2۔ گھاس نہ اکھیڑی جائے: حرم
کی حد کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا
حرام ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 311)
3۔ ہتھیار نہ اٹھائے جائیں:
حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی
کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح، 2/236)
4۔ حرمین کی آزمائش پر صبر: جو
شخص دن کے کچھ وقت مکّے کی گرمی پر صبر کرے جہنّم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار
مکۃ، 2/311، حدیث: 156)
امتحاں درپیش ہو راہِ مدینہ میں اگر صبر کر تو صبر کر
ہاں صبر کر بس صبر کر
میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے
گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم، ص716، حدیث: 1378)
5۔ راستوں کا ادب: مکے
مدینے کی گلیوں میں جہاں کوڑے دان رکھے ہیں انہیں استعمال کیجئے۔ اس کے علاوہ عام راستوں
اور گلیوں میں تھوکنے یا کچرا وغیرہ پھینکنے سے بچیں کہ ان گلیوں کو ہمارے پیارے آقا
ﷺ سے نسبت ہے۔
مذکورہ بالا حقوق کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے حقوق
ہیں جیسے یہاں شکار نہ کیا جائے،یہاں کے کھانے وغیرہ کے متعلق عیب نہ نکالا جائے وغیرہ۔
اللہ پاک ہمیں حرمین شریفین کی باادب حاضری سے خیرو
عافیت سے جلدی نوازے۔ آمین
ہمارے بزرگان دین کی حرمین شریفین کی حاضریوں کے انداز
نرالے ہوتے ہیں اگر آپ انکی محبت کے انداز کا مطالعہ کرنا چاہتی ہیں تو عاشقان رسول
ﷺ کی 130 حکایات و روایات مع مکہ مدینے کی زیارتیں کا مطالعہ فرمائیے۔

انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس سے نسبت رکھنے والی
چیزوں سے بھی محبت ہوتی چونکہ مکہ مکرمہ حضور جان جاناں ﷺ کی جائے سکونت تھی وہاں آپ
ﷺ نے پرورش پائی اور مکہ مکرمہ ایسا مقدس شہر ہے جس کی حرمت کے متعلق خود آقا ﷺ نے
بیان فرمایا اسی طرح مدینہ منورہ بھی آقا ﷺ کی رہائش گاہ ہے جس سے محبت کرنا ان کا
ادب و احترام کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
آئیے احادیث مبارکہ سے اس کے ادب و احترام کے بارے میں
جانتی ہیں:
مکہ مکرمہ قیامت تک حرم ہے نبی رحمت، شفیع امت، قاسم
نعمت ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! اس شہر کو اللہ نے اسی دن سے
حرم بنا دیا ہے جس دن آسماں و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک اللہ کے حرم فرمانے سے
حرام (یعنی حرمت والا) ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3109)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث
پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اس شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں ہی نہیں ہے
بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے ہر دین میں یہ جگہ محترم تھی طوفان نوح میں جب بیت المعمور
آسمان پر اٹھالیا تو لوگ یہاں کی حرمت وغیرہ بھول گئے حضرت خلیل علیہ السلام نے پھر
اسکا اعلان فرمایا (حدیث پاک میں) الی یوم القیامۃ فرما کر بتایا کہ یہ حرمت کبھی منسوخ
نہ ہوگی۔ (مراۃ المناجیح، 4/200)
مکہ مکرمہ میں رہائش اختیار کرنا: مکہ
مکرمہ میں وہی رہے جسے ظن غالب ہو کہ یہاں کا احترام بجا لاسکے گا، خود کو گناہوں سے
بچا سکے گا کروڑوں حنفیوں کے پیشوا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ جنہوں نے صحابہ
کرام علیہم الرضوان کا سنہری دور پایا اور تابعیت کے شرف سے مشرف ہوئے اس صلاح و فلاح
(نیکی و بھلائی) کے دور میں لوگوں کو وہاں بے احتیاطیوں میں ملوث دیکھا تو حرم کی رہائش
مکروہ قرار دی۔
مکہ مکرمہ کا ادب: مکہ
مکرمہ کا ادب کرنے کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: حضرت علامہ شیخ عبدری نے بعض اکابر اولیاء کے بارے میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ
چالیس سال مکے میں رہے مگر حرم مکہ میں پیشاب نہ کرتے اور نہ ہی وہاں لیٹتےتھے پھر
فرمایا ایسے لوگوں کے لیے مجاورت (مستقل رہائش) مستحب ہے یا انہیں اجازت دی جاسکتی
ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/289)
خشوع و خضوع سے داخل ہونا: جب
مکہ مکرمہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم و گناہ سے نیچی کیے خشوع وخضوع سے داخل
ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں
نہا کر داخل ہو حیض و نفاس والی کے لیے نہانا مستحب ہے۔ (مسلم، ص 678، حدیث: 3153)
درخت کاٹنا: حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں
اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔ (مراۃ المناجیح، 2/235)

حرم سے کیا مراد ہے؟حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد
کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا
گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما اس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ
وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدود حرم سے
باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ
رہے گی جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے ہلاک
ہو جائیں گے۔
اللہ کا مقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ تعظیم
و توقیر کی جاتی ہے اور ہرشخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اسکے حقوق ادا کرنا لازم ہے
حرم مکہ کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دین اسلام میں ان کے حقوق ادا کرنے کو کہا گیا ہے
اور دینا سلام میں ان افعال سے بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سے حرم مکہ کے حقوق پامال
ہوتے ہیں اور حرم مکہ کے چند حقوق درج ذیل ہیں۔
(1) قتل نہ کرنا: خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن
والا بنا دیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و جرم کرکے حدود حرم میں داخل ہوجائے تو
وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے فرمایا کہاگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں
تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ (تفسیر مدارک، ص 714)
(2) گھاس نہ اکھیڑنا: حرم کی حد کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا،
وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 311)
(3) ادب کرنا: مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں، خبردار
ہرگز ہرگز نہ اڑائے، نہ ڈرائے، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں
بسے کبوتروں کا ادب نہیں کرتے، ان کی ریس نہ کرے مگر برا انہیں بھی نہ کہے کہ جب وہاں
کے جانور کا ادب ہے۔ (بہار شریعت، 1/1086)
(4) خشوع و خضوع سے داخل ہونا: جب حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں
شرم گناہ سے نیچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک
و دعا کی کثرت رکھنا اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو
بھی نہانا مستحب ہے۔ (مسلم، ص 706، حدیث: 3153)
(5) مکہ میں داخل ہونا: جب مکہ معظمہ میں پہنچ جائے تو سب سے پہلے مسجد الحرام
میں جائے۔ کھانے پینے، کپڑے بدلنے، مکان کرایہ لینے وغیرہ دوسرے کاموں میں مشغول نہ
ہو، ہاں اگر عذر ہو مثلاً سامان کو چھوڑتا ہے تو ضائع ہونے کا اندیشہ ہے تو محفوظ جگہ
رکھوانے یا اور کسی ضروری کام میں مشغول ہوا تو حرج نہیں اور اگر چند شخص ہوں تو بعض
اسباب اتر وانے میں مشغول ہوں اور بعض مسجدالحرام شریف کو چلے جائیں۔
حرمین طیبین کے حقوق از ہمشیرہ محمد جواد، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

مکہ وہ مقدس شہر ہے جسے رحمۃ للعالمین ﷺ کا وطن اور
آپ کی ولادت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے، یہیں سے اسلام کی آواز بلند ہوئی اور یہی اسلامی
تعلیمات کا پہلا مرکز ہے اور مدینہ جہاں خود حضور ﷺکی تربت اطہر اور روضۂ انور ہے جس
پر کروڑوں مسلمانوں کی جانیں قربان ہیں۔ جس کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں اس میں
نہ دجال آئے نہ طاعون ان مقدس مقامات کی زیارت و طواف کعبہ اور روضۂ رسول پر حاضر
ہو کر دست بستہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت پانا بہت خوش نصیبی کی بات ہے لہٰذا
جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت نصیب ہوتو اسے چاہئے کہ وہ ہر قسم کی خرافات و فضولیات
سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے ذیل میں دئیے گئے آداب کو مدنظر رکھے۔
حرم مکہ کےآداب:
(1)جب حرم مکہ کے پاس پہنچیں تو شرم عصیاں سے نگاہیں
اورسر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے
سے پہلے غسل بھی کرلیں۔ (3)حرم پاک میں لبّیک و دعا کی کثرت رکھیں۔ (4)مکۃ المکرّمہ
میں ہر دم رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں۔ وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر
یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنگاہی،
داڑھی منڈانا، غیبت، چغلی، جھوٹ، وعدہ خلافی، مسلمان کی دل آزاری، غصّہ و تلخ کلامی
وغیرہا جیسے جرائم کرتے وقت اکثر لوگوں کویہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنّم کا سامان
کر رہے ہیں۔
مسجدالحرام کے آداب:
جب خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کرسچےدل سے اپنے
اور تمام عزیزوں، دوستوں، تمام مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بلا حساب داخلۂ
جنّت کی دعا کرے کہ یہ عظیم اجابت و قبول کا وقت ہے۔ امیراہل سنّت دامت برکاتہم العالیہ
فرماتے ہیں: چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ یااللہ میں جب بھی کوئی جائز دعا مانگا
کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے ۔ علامہ شامی قدس سرّہ السّامی نے فقہائے
کرام رحمہم اللہ السّلام کے حوالے سے لکھا ہے: کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جنت
میں بے حساب داخلے کی دعا مانگی جائے اور درود شریف پڑھاجائے۔ (ردالمحتار، 3 / 575،
رفیق الحرمین، ص91)
وہاں چونکہ بہت لوگ ہوتے ہیں اس لئے استلام کرنے یا
مقام ابراہیم پر یا حطیم پاک میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے سے گریز
کریں اگر بآسانی یہ سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح، ورنہ ان کے حصول کے لئے کسی مسلمان
کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں۔
جب تک مکّہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اورنفلی روزے
رکھ کر فی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب لوٹیے۔
مسجد نبوی شریف کی احتیاطیں:
مدینۂ منوّرہ پہنچ کر اپنی حاجتوں اور کھانے پینے کی
ضرورتوں سے فارغ ہوکر تازہ وضو یا غسل کرکے دھلا ہوا یا نیا لباس زیب تن کیجئے، سرمہ
اور خوشبو لگائیےاور روتے ہوئے مسجد میں داخل ہوکرسنہری جالیوں کے روبرو مواجھہ شریف
میں(یعنی چہرۂ مبارک کے سامنے) حاضر ہوکر دونوں ہاتھ نماز کی طرح باندھ کر چار ہاتھ
(یعنی تقریباً دو گز) دور کھڑے ہوجائیے اور بارگاہ رسالت میں خوب صلوٰۃ و سلام پیش
کیجئے، پھر حضرت ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام پیش کیجئے۔
سنہری جالی مبارک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچئے
کہ یہ خلاف ادب ہے۔
ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھئے۔ دعا بھی مواجہہ شریف ہی کی
طرف رخ کئے مانگئے۔ بعض لوگ وہاں دعا مانگنے کے لئے کعبے کی طرف منہ کرنے کو کہتے ہیں،
ان کی باتوں میں آکر ہرگز ہرگز سنہری جالیوں کی طرف آقا ﷺ کو یعنی کعبے کے کعبے کو
پیٹھ مت کیجئے۔ یہاں آواز اونچی ہرگزنہ کیجئے۔ صلوٰۃ وسلام کے صیغے اور دعائیں زبانی
یاد کر لینا مناسب ہے، کتاب سے دیکھ کر وہاں پڑھنا عجیب سا لگتا ہے۔ مدینۂ منورہ میں
روزہ نصیب ہو خصوصاً گرمی میں تو کیا کہناکہ اس پر وعدۂ شفاعت ہے۔ مدینے میں ہر نیکی
ایک کی پچاس ہزار لکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا نماز و تلاوت اور ذکر و درود میں ہی اپنا وقت
گزارئیے۔ قرآن مجید کا کم سے کم ایک ختم مکّۂ مکرمہ اور ایک مدینۂ طیبہ میں کرلیجیئے۔
زیارات حرمین طیبین کی احتیاطیں:
فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: اپنی مسجدوں کو (ناسمجھ) بچوں اور
پاگلوں سے محفوظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 1 / 415، حدیث: 750ملخصاً) مساجد میں شور کرنا گناہ
ہے اور ایسے بچوں کو لانا بھی گناہ ہے جن کے بارے میں یہ غالب گمان ہو کہ پیشاب وغیرہ
کردیں گے یا شور مچائیں گے، لہٰذا زائرین سے عرض ہے کہ حدیث میں بیان کردہ شرعی حکم
پر عمل کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو ہر گز مسجدین کریمین (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی)
میں نہ لائیں۔
مسجد حرام و مسجد نبوی میں موبائل کے بےجا استعمال،
بے مقصد سیلفیاں لینے یا فضول گوئی میں مگن ہونے کے بجائے وہاں خود کو ہر دنیاوی تعلق
سے علیحدہ کر کے بیت اللہ شریف اور گنبد خضرا کی زیارت، خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت
اور ذکرو دعا وغیرہ میں مشغول رہیں کہ پھر نہ جانے یہ سعادتیں میسر ہوں نہ ہوں۔ وہاں
کئی مقامات مقدّسہ ہیں کہ جن کی زیارت سے روح ایمان کو جلا ملتی ہے، لیکن کچھ محروم
لوگ یہ زیارتیں کرنے کے بجائے شاپنگ سینٹرز یا تفریحی مقامات کی زینت بن جاتے ہیں،
کم از کم وہاں حتّی الامکان ان فضولیات سے بچنے کی کوشش کریں۔ مکے مدینے کی زیارتیں
کرتے وقت کسی سے بحث مباحثہ یا دھکم پیل سے گریز کریں اور جس قدر سہولت کے ساتھ میسر
ہو اسی پر اکتفا کریں۔ مکے مدینے کی گلیوں میں جہاں کوڑے دان رکھے ہیں انہیں استعمال
کیجئے۔ اس کے علاوہ عام راستوں اور گلیوں میں تھوکنے یا کچرا وغیرہ پھینکنے سے بچیں
کہ ان گلیوں کو ہمارے پیارے آقا ﷺ سے نسبت ہے۔ جنّت البقیع و جنّت المعلیٰ کے کئی مزارات
شہید کر دئیے گئے ہیں اور اندر داخل ہونے کی صورت میں کسی عاشق رسول کے مزار پر پاؤں
پڑ سکتا ہے جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمان کی قبرپر بھی پاؤں رکھنا ناجائز ہے۔
(فتاوٰی رضویہ، 5 / 349ملخصاً) لہٰذا ان دونوں متبرک مقامات پر باہر ہی سے سلام عرض
کیجئے۔
حرمین طیبین کے حقوق از ہمشیرہ محمد اسماعیل،فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ تعالی کامقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ تعظیم
و توقیر کی جاتی ہے اور ہرشخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اسکے حقوق ادا کرنا لازم ہے
حرم مکہ کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دین اسلام میں ان کےحقوق ادا کرنے کو کہا گیا ہے اور
دین اسلام میں ان افعال سے بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سےحرم مکہ کے حقوق پامال ہوتے
ہیں اور حرم مکہ کےچند حقوق درج ذیل ہیں۔
حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔
(مراٰۃ المناجیح،4/202)
درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت
کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراٰة
المناجیح،4/201)
گناہوں سے بچنا: جس
طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری
ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں
کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے
پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)
شکار کی ممانعت: حرم
مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور
اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے جس طرح کے تفسیر احمدیہ میں ہے کہ حرم
کو اس لیے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص
34)
خشوع و خضوع سے داخل ہونا: جب
حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے نیچی کیے خشوع و خضوع سے داخل
ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں
نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔ (مسلم، ص 706، حدیث:
3153)
حرم مکہ کےآداب:
(1)جب حرم مکہ
کے پاس پہنچیں تو شرم عصیاں سے نگاہیں اورسر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔
(2)حرم پاک میں لبّیک و دعا کی کثرت رکھیں۔
(3)مکۃ المکرّمہ
میں ہر دم رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں۔
(4) وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔
(5) وہاں اس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ہمارے
کسی عمل سے کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے،
(6) حرم پاک
کی ہر چیز حتیٰ کہ چیونٹیوں کی بھی تکریم کرنی چاہیئے۔
زیارات حرمین طیبین کی احتیاطیں:
فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: اپنی مسجدوں کو (ناسمجھ) بچوں اور
پاگلوں سے محفوظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 1 / 415، حدیث: 750ملخصاً)
مساجد میں شور کرنا گناہ ہے اور ایسے بچوں کو لانا بھی
گناہ ہے جن کے بارے میں یہ غالب گمان ہو کہ پیشاب وغیرہ کردیں گے یا شور مچائیں گے،
لہٰذا زائرین سے عرض ہے کہ حدیث میں بیان کردہ شرعی حکم پر عمل کرتے ہوئے چھوٹے بچوں
کو ہر گز مسجدین کریمین (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں نہ لائیں۔
جنّت البقیع و جنّت المعلیٰ کے کئی مزارات شہید کر دئیے
گئے ہیں اور اندر داخل ہونے کی صورت میں کسی عاشق رسول کے مزار پر پاؤں پڑ سکتا ہے
جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمان کی قبرپر بھی پاؤں رکھنا ناجائز ہے۔ (فتاوٰی رضویہ،
5 / 349ملخصاً) لہٰذا ان دونوں متبرک مقامات پر باہر ہی سے سلام عرض کیجئے۔
وہاں کئی مقامات مقدّسہ ہیں کہ جن کی زیارت سے روح ایمان
کو جلا ملتی ہے، لیکن کچھ محروم لوگ یہ زیارتیں کرنے کے بجائے شاپنگ سینٹرز یا تفریحی
مقامات کی زینت بن جاتے ہیں، کم از کم وہاں حتّی الامکان ان فضولیات سے بچنے کی کوشش
کریں.
اس کے علاوہ بھی حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں مثلا وہاں
کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا وہاں کے تبر کات کو نقصان نہ پہنچانا بے ادبی سے بچنا وغیرہ
اگر اللہ پاک کے فضل و احسان سے ہمیں وہاں کی حاضری کی سعادت ملے تو ہمیں چاہیے کہ
ہر حالت میں محتاط ہر کام سوچ سمجھ کر کریں کوئی بھی قدم بغیر سوچے سمجھے نہ اٹھائیں
یہ نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے ہم ثواب کے خزانے کے بجائے گناہوں کی گٹھری لے کر آئیں۔
حرمین طیبین کے حقوق ازبنت محمد یوسف، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

خانۂ کعبہ اور نبی مکرم ﷺ کے روضہ مقدسہ کی حاضری نہایت
خوش بختی اور سعادت و نعمت ہے لاکھوں مسلمان خانۂ کعبہ اور خصوصاً روضہ رسولﷺ کی زیارت
کے لیے تڑپتے ہیں ہر آنکھ ذکر مدینہ سن کر اشکبار ہو جاتی ہے اور
مدینہ اس لیے عطار جان و دل سے ہے پیارا
کہ رہتے ہیں میرے آقا
میرے سرور مدینے میں
پیاری اسلامی بہنو! جب ہمیں کعبہ معظمہ اور روضہ رسول
مکرمﷺ کی حاضری کی سعادت نصیب ہو تو قدم قدم پر احتیاط اور ادب کا دامن تھامے رہیں
آپ کی ذرا سی بے احتیاطی بہت بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے
ذیل میں حرمین طیبین کی حاضری کے بارے میں 19 اہم مدنی
پھول پیش کئے جارہے ہیں، جن پرعمل کرنے سے ان شاءاللہ زیارت حرمین کا خوب کیف و سرور
حاصل ہوگا۔
حرم مکہ کے آداب:
جب حرم مکہ کے پاس پہنچیں تو شرم عصیاں سے نگاہیں اورسر
جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔
اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے سے پہلے غسل بھی کرلیں۔
حرم پاک میں لبیک و دعا کی کثرت رکھیں۔
مکۃ المکرمہ میں ہر دم رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں۔
وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ
بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنگاہی، داڑھی منڈانا، غیبت، چغلی، جھوٹ، وعدہ
خلافی، مسلمان کی دل آزاری، غصّہ و تلخ کلامی وغیرہا جیسے جرائم کرتے وقت اکثر لوگوں
کویہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنّم کا سامان کر رہے ہیں۔
جب خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کر صدق دل سے
اپنے اور تمام عزیزوں، دوستوں، مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بلا حساب داخلۂ
جنّت کی دعا کرے کہ یہ عظیم اجابت و قبول کا وقت ہے۔ شیخ طریقت، امیراہل سنّت دامت
برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ یااللہ میں جب بھی کوئی
جائز دعا مانگا کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے ۔ علامہ شامی قدس سرّہ
السّامی نے فقہائے کرام رحمہم اللہ السّلام کے حوالے سے لکھا ہے: کعبۃ اللہ پر پہلی
نظر پڑتے وقت جنت میں بے حساب داخلے کی دعا مانگی جائے اور درود شریف پڑھاجائے۔ (رد
المحتار، 3 / 575، رفیق الحرمین، ص91)
وہاں چونکہ لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے اس لئے استلام
کرنے یا مقام ابراہیم پر یا حطیم پاک میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے
سے گریز کریں اگر بآسانی یہ سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح، ورنہ ان کے حصول کے لئے
کسی مسلمان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں۔
جب تک مکّۂ مکرمہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اورنفلی
روزے رکھ کرفی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب لوٹیے۔
مسجد نبوی شریف کی احتیاطیں:
مدینۂ منوّرہ پہنچ کر اپنی حاجتوں اور کھانے پینے کی
ضرورتوں سے فارغ ہوکر تازہ وضو یا غسل کرکے دھلا ہوا یا نیا لباس زیب تن کیجئے، سرمہ
اور خوشبو لگائیےاور روتے ہوئے مسجد میں داخل ہوکرسنہری جالیوں کے روبرو مواجھہ شریف
میں(یعنی چہرۂ مبارک کے سامنے) حاضر ہوکر دونوں ہاتھ نماز کی طرح باندھ کر چار ہاتھ
(یعنی تقریباً دو گز) دور کھڑے ہوجائیے اور بارگاہ رسالت ﷺ میں خوب صلوٰۃ و سلام پیش
کیجئے، پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق و عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی خدمت سراپا
اقدس میں سلام پیش کیجئے۔
سنہری جالی مبارک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچئے
کہ یہ خلاف ادب ہے۔
ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھئے۔
حاضری میں خالصتاً قبر انور کی زیارت کی نیّت کیجئے۔
ریاکاری اور تجارت وغیرہ کی نیت قطعاً نہ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 5/631، تحت الحدیث:2755)
سفر مدینہ میں درود شریف کی کثرت کیجئے۔
جب حرم مدینہ آئے تو بہتر یہ ہے کہ روتےہوئے سر جھکائے،
درود شریف کی کثرت کرتے چلیئے۔
نہایت خشوع و خضوع سےروضۂ اقدس پر حاضری دیجئے، سلام
پیش کیجئے، روضہ مقدسہ کی پرکیف زیارت کے آداب کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و
ملت الشاہ، الحافظ الامام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و
سر کی ہے
اللہ اکبر! اپنے قدم اور یہ خاک پاک حسرت ملائکہ کو جہاں
وضع سر کی ہے
اس دوران دل سرکار مدینہ ہی کی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش
کیجئے۔ موبائل چلانے، سیلفیاں لینے سے بچئے اور سوچئے کہ کس ہستی کی بارگاہ میں حاضر
ی ہے!
اگر آپ کو کسی نے روضۂ اطہر پر سلام عرض کرنے کا کہا
ہے تو اس کی طرف سے بھی سلام عرض کردیجئے
جب تک مدینۂ طیّبہ کی حاضری نصیب ہو، کوشش کرکے اکثر
وقت مسجد شریف میں باطہارت حاضر رہئے، نماز و تلاوت و درود میں وقت گزارئیے، دنیا کی
بات کسی بھی مسجد میں نہ کرنی چاہئے یہاں تو اور بھی زیادہ احتیاط کیجئے۔
یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار (50,000) لکھی جاتی ہے،
لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشش (Effort) کیجئے، بھوک سے کم کھانے میں
امکان ہے کہ عبادت میں دل زیادہ لگے۔ (9)روضہ رسول مکرمﷺ کو ہر گز پیٹھ نہ کیجئے اور
حتّی الامکان نماز میں بھی ایسی جگہ کھڑے نہ ہوں کہ پیٹھ کرنی پڑے۔
یاد رہے مکہ معظمہ اور روضہ آخری نبیﷺ کی حاضری کے آداب
و دیگر لوازمات سیکھنے کے لیے باقاعدہ کسی عالم دین سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ اس بابرکت
سفر میں ادب کا دامن تھامتے ہوئے سعادتوں، برکتوں اور نعمتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔
حرمین طیبین کے حقوق از بنت عبدالماجد عطاری،
فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

حرمین طیبین میں غافل نہیں ہونا چاہیے بہت زیادہ محتاط
رہنا چاہیے حرمین طیبین کے بہت سے حقوق ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
1) گناہوں سے بچنا:جس
طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری
ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں
کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے
پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)
2) عیب جوئی نہ کرنا: مدینۂ
منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر
بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں
کا دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ
نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور قید میں ڈالے
جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم اس خاک پہ قرباں دل شیدا
ہے ہمارا
3)حرم شریف کی گرمی پر صبر: مکہ
معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن
وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور علیہ السلام نے
فرمایا یعنی جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم ک آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: 1565)
4) تکلیف نہ پہنچانا: حرم
مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار و محبت و حسن اخلاق
سے پیش آیا جائے، ان کو تکلیف پہنچانا تو دور کی بات صرف تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرنے
والے کے لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے
نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث: 3359)
5) طویل قیام کی ممانعت: وہاں
طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی کی غیبت چغلی جھوٹ
وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ بار صادر
ہونے کے برابر ہے گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ معظمہ کی ہیبت کے کم ہونے
کا خدشہ ہے جس طرح کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب حج سے فارغ ہوتے تو لوگوں
میں دورہ کرتے ہوئے فرماتے اے اہل یمن چلے جاؤ اہل عراق عراق چلے جاؤ اہل شام اپنے
وطن شام لوٹ جاؤ تاکہ تمہارے ذہنوں میں تمہارے رب کے گھر کی ہیبت خوب قائم رہے۔ (فتاویٰ
رضویہ، 10 /288)
اس کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے بہت سارے حقوق و آداب
ہیں مثلاً وہاں فضولیات ولغویات سے بچنا،آواز کو پست رکھنا، ہمیشہ زبان کو درود پاک
سے تر رکھنا، وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرح جب حرم مدینہ آئے تو ہو
سکے تو پیدل،روتے ہوئے، سر جھکائے،نیچی نظریں کئے چلئے۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے
او جانے والے
اللہ پاک ہم سب کو بار بار حاضری مدینہ کی سعادت عطا
فرمائے اور حرم مدینہ کے تقدس وحقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حرمین طیبین کے حقوق از بنت طارق نذیر، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی
کو حرمین طیبین کہا جاتا ہے حرمین طیّبین کے مقدس و بابرکت مقامات کے پرکیف نظاروں
کی زیارت سے اپنی روح و جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے، لہٰذا جس خوش
نصیب کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر قسم کی خرافات و فضولیات سے بچتے
ہوئے اس سعادت سے بہرہ ور ہو۔
پہلے مکہ مکرمہ کے حقوق کی بات کرتے ہیں مکہ مکرمہ کی
حرمت مکہ مکرمہ حرمت والا شہر ہے، اس ليے اس کے تقدس کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔ اس کی حرمت
کی بناء پر رسول اکرم ﷺ نے اس کے بعض خاص احکامات فتح مکہ کے موقع پر یوں بیان فرمائے: بے شک اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جب سے اس نے
آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی
رہے گا۔ مجھ سے پہلے کسی شخص کیليے اس میں جنگ کرنا حلال نہیں تھا اور مجھے بھی محض
دن کی ایک گھڑی اس میں جنگ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد وہ قیامت تک اللہ کی حرمت
کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔ لہٰذا اس کا کانٹا (تک) نہ کاٹا جائے، اس کا شکار نہ
بھگایا جائے، اس میں گری ہوئی چیز کو صرف وہ شخص اٹھائے جو اس کا لوگوں میں اعلان کرے
اور اس کا گھاس بھی نہ کاٹا جائے۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے
رسول! صرف اذخر گھاس کی اجازت دے دیجئے کیونکہ اس سے سنار اور لوہار فائدہ اٹھاتے ہیں
اور مکہ والے اسے اپنے گھروں کی چھتوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک
ہے، اذخر کو کاٹنے کی اجازت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
1۔ مکہ مکرمہ میں جنگ وجدال حرام ہے حتی کہ بلا ضرورت
کوئی ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے۔
2۔ مکہ مکرمہ میں کسی درخت، پودے اور گھاس کا
کاٹنا بھی حرام ہے۔ ہاں بعض ضروریات کے پیش نظر صرف اذخر گھاس کو کاٹنے کی اجازت ہے۔
3۔ مکہ مکرمہ میں کسی جانور / پرندے کو شکار کرنا
بلکہ اسے ہانکنا بھی حرام ہے۔
4۔ اور مکہ مکرمہ میں گری ہوئی چیز کو اٹھانا
بھی جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اٹھانے والا اس کا اعلان کرے۔
مدینہ منورہ کی حرمت: رسول
اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کو حرمت والا اور قابل احترام شہر قرار دیا۔ آپ ﷺ کا ارشاد
ہے: بے شک ابراہیم علیہ السلام
نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور مکہ والوں کے حق میں دعا کی اور میں مدینہ کو حرمت
والا قرار دیتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور
میں نے اہل مدینہ کے ناپ تول کے پیمانوں (صاع اور مد) میں اس برکت سے دوگنا زیادہ برکت
کی دعا کی ہے جس کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کیليے کی تھی۔ اس حدیث سے مدینہ
منورہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
موبائل فون کا استعمال: مسجد
نبوی میں موبائل کے بےجا استعمال، بے مقصد سیلفیاں لینے یا فضول گوئی میں مگن ہونے
کے بجائے وہاں خود کو ہر دنیاوی تعلق سے علیحدہ کر کے گنبد خضرا کی زیارت، خشوع و خضوع
کے ساتھ عبادت اور ذکرو دعا وغیرہ میں مشغول رہیں کہ پھر نہ جانے یہ سعادتیں میسر ہوں
نہ ہوں۔
صفائی ستھرائی کا خیال: مدینے کی گلیوں میں جہاں کوڑے
دان رکھے ہیں انہیں استعمال کیجئے۔ اس کے علاوہ عام راستوں اور گلیوں میں تھوکنے یا
کچرا وغیرہ پھینکنے سے بچیں کہ ان گلیوں کو ہمارے پیارے آقا ﷺ سے نسبت ہے۔
آوازیں بلند نہ کریں: درودوسلام
بھی اتنی بلند آواز میں پیش نہ کیا جائے، جو روضۂ رسولﷺ کی حاضری کے آداب کے منافی
ہو۔چہ جائیکہ وہاں شوروغل کیا جائے۔بےمقصد آوازیں بلند کی جائیں۔ دیکھنے میں یہ آتا
ہے کہ زائرین میں سے بعض قبر نبوی کے نزدیک آواز بلند کرتے اور احتراماً دیر تک قیام
کرتے ہیں، یہ شریعت کے خلاف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو منع کیا ہے کہ
وہ نبی اکرم ﷺکی آواز سے اپنی آواز کو بلند، اونچا نہ کریں یا آپﷺ کو بے ادبی سے
آوازنہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز
العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور
زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات
کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
یاد رکھئے! وہاں قدم قدم پر علمائے کرام کی رہنمائی
کی حاجت ہوتی ہے لہٰذا مفتیان کرام و علمائے اہل سنّت کی صحبت کو لازم رکھیں یا ان
سے رابطے میں رہیں تاکہ مسائل شرعیہ سیکھنے اوروہاں کے ادب و تعظیم کے تقاضے بھی پورے
کرنے میں مدد حاصل ہو فون کے ذریعے بھی مفتیان کرام یا دارالافتا ءاہل سنّت سے ہاتھوں
ہاتھ مسائل پوچھے جا سکتے ہیں۔
حرمین طیبین کے حقوق از بنت طارق محمود،فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ تعالیٰ کا مقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ
تعظیم و توقیر کی جاتی ہے اور ہر شخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اسکے حقوق ادا کر نالازم
ہے اور دین اسلام میں ان کے حقوق ادا کرنے کو کہا گیا ہے اور سلام میں ان افعال سے
بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سے حرم مکہ کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور حرم مکہ کے چند
حقوق درج ذیل ہیں:
مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے جس میں
ہر دم رحمتوں کی چھما چھم بارشیں برستی لطف و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا مانگنے
والا کبھی محروم نہیں لوٹتا یہ وہ شہر ہے جس کی قسم کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں یاد
فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا
الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے
پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔اس آیت اور اس کے
بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس
شہر میں تشریف فرما ہو۔
اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں ان کے
ساتھ ساتھ یہاں پر غافل نہیں ہونا چاہیے۔
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17،
الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے
اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔اس آیت میں اللہ تعالی کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرنے
پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالی نے عزت
و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم اس کے لئے بہتر ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں
ثواب عطا فرمائے گا۔ (البحر المحيط، 6/ 339)
(1) حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ
معظمہ کے ارد گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں
کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت،
2/1085)
حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔
(مراۃ المناجیح، 4/202)
(3) حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو
جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)
(4) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ
رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس
کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام:
حضرت
عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری
امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں
گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پاک
کی شرح میں فرماتے ہیں: تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف
کی بے حرمتی کی، ہلاک و بر باد ہو گیا، یزید پلید کے زمانہ میں جب حرم شریف کی بے حرمتی
ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم ہو گئی۔ (مراۃ المناجیح، 4/242)
عام بول چال میں لوگ مسجد حرام کو حرم شریف کہتے ہیں،
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف حرم محترم ہی میں داخل ہے مگر حرم شریف مکہ
مکرمہ سمیت اس کے ارد گرد میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔
(رفیق الحرمین، ص 89)
حرمین طیبین کے حقوق از بنت شہباز احمد، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ہر انسان کی فطرت میں ایک ایسی کشش اور طلب موجود ہے
جو اسے روحانی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے، جہاں دلوں کو سکون ملتا ہے اور روح کو غذا
فراہم ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسے مقامات موجود ہیں جو اپنی تاریخ، تقدس اور عظمت کی
وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اگر کوئی جگہیں واقعی آسمانی برکتوں کا نزول اور
امن کا گہوارہ ہیں، تو وہ حرمین شریفین ہیں۔ مکہ مکرمہ، جہاں خانہ کعبہ اللہ کا گھر
ہے، اور مدینہ منورہ، جہاں رسول اللہ ﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ یہ دونوں شہر پوری انسانیت
کے لیے خاص طور پر مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد اور محبت کا مرکز ہیں۔
یہ مقدس مقامات محض جغرافیائی حدود نہیں، بلکہ وہ زمینیں
ہیں جہاں زمین و آسمان کا ربط محسوس ہوتا ہے۔ جہاں قدم رکھتے ہی دل و دماغ میں ایک
روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، اور جہاں عبادات کے ذریعے بندہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا
ہے۔ حرمین شریفین وہ جگہیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بھرپور احساس ہوتا ہے اور
جہاں دل گناہوں سے توبہ کرکے پاکیزگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔
حرمین شریفین کے حقوق کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جاننا
اور ان کی عظمت و حرمت کا خیال رکھنا ایک مسلمان کا دینی فرض ہے، اور یہی وہ راستہ
ہے جو ہمیں قرب الٰہی اور حقیقی امن کی طرف لے جاتا ہے۔
حرمت اور تقدس: قرآن کریم میں
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو خاص طور پر حرم قرار دیا ہے، یعنی یہ
ایسی جگہیں ہیں جہاں ظلم و زیادتی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ومن دخله كان آمنًا
(سورة آل عمران: 97) یعنی جو کوئی اس حرم میں داخل ہو، وہ امن میں ہوگا۔ یہ آیت مکہ
مکرمہ کی حرمت اور امن و امان کی ضمانت دیتی ہے، اور مدینہ منورہ بھی اسی تقدیس کا
حامل ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد امت کے لیے روحانی اور اجتماعی مرکز قرار دیا۔
حرمین شریفین میں امن کی حفاظت: حرمین شریفین میں امن و امان کو
برقرار رکھنا اور ان مقدس مقامات کی حرمت کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ قرآن
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِذْ جَعَلْنَا
الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-(البقرہ: 125)
اور ہم نے اس شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنایا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کو ہمیشہ امن و
سلامتی کا مرکز رہنا چاہیے، اور ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان مقامات کی حرمت کی پاسداری
کرے۔
حرمین شریفین میں فساد یا بے ادبی کا کوئی عمل کرنے
کی سخت ممانعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا: وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ
عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠(۲۵) (پ 17، الحج: 25) ترجمہ: اور جو اس
میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔ یعنی جو شخص یہاں
ظلم یا کسی برے ارادے کے ساتھ کچھ کرنے کا ارادہ بھی کرے، اسے سخت عذاب دیا جائے گا۔
اس آیت میں حرمین شریفین کی حرمت اور اس کے امن کو برقرار
رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
حرمین شریفین کی صفائی کا اہتمام رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صفائی ایمان کا نصف ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ
کے مقدس مقامات کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان شہروں میں جگہ
جگہ کوڑے دان رکھے گئے ہیں تاکہ زائرین وہاں کچرا نہ پھیلائیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ
ہے کہ کچھ لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھتے، کوڑے دان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں، اور
عام راستوں یا گلیوں میں تھوکنے اور کچرا پھینکنے سے نہیں بچتے۔ یہ عمل ان مقدس مقامات
کی حرمت کے خلاف ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی گلیاں ہیں جہاں ہمارے پیارے نبی
ﷺ نے قدم رکھے تھے، اور ان کی نسبت کی وجہ سے ہمیں ہر ممکن طریقے سے ان کا احترام کرنا
چاہیے۔
حرمین شریفین آنے والے زائرین اور حجاج کا احترام اور
ان کی خدمت کو قرآن و حدیث میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حج
اور عمر ہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں اگر دعا کریں تو انکی دعا قبول فرمائے اور
اگر مغفر ت طلب کریں تو اللہ انکی مغفرت فرمائے۔ (ابن ماجہ، 2/410، حدیث: 2892) یہ
حدیث اس بات کی غماز ہے کہ جو لوگ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے آتے ہیں، وہ اللہ کے
خاص مہمان ہوتے ہیں، اور ان کی خدمت میں دلجمعی سے حصہ لینا عظیم نیکی ہے۔
حرمین شریفین میں کی جانے والی عبادات کا مقام عام عبادات
سے کہیں بلند ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے
اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں کا ثواب اور جو مسجد
اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور
جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/176،
حدیث: 1413)
اسی طرح مسجد نبوی کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: میری
مسجد میں ایک نماز پڑھنا ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، سوائے مسجد الحرام کے۔ یہ فضیلت
اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان مقامات پر عبادت کرنے کا حق ادا کرنا اور نیک اعمال میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، بندے کے لیے قرب الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے۔
کچھ علماء کے مطابق بہت چھوٹے بچوں کو حرمین شریفین میں لانا مناسب نہیں
ہوتا کیونکہ ان کی دیکھ بھال میں والدین خود عبادات سے غافل ہو سکتے ہیں اور بچے شور
شرابہ کر کے دیگر عبادت گزاروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری،
4/105، حدیث: 6019) اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری
موجودگی دوسروں کے لیے باعث زحمت نہ ہو، چاہے وہ ہمارے اعمال سے ہو یا بچوں کے شور
شرابے سے۔
آج کل سوشل میڈیا اور موبائل فونز کا زیادہ استعمال
حرمین شریفین میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ لوگ وہاں جا کر روحانی تجربات کی بجائے سلفیاں
بنانے اور موبائل فونز کے استعمال میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ جگہیں ہیں
جہاں اللہ کی یاد میں محو ہونا چاہیے اور موبائل کے استعمال کو کم سے کم کرنا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بہترین ذکر لا الہ الا اللہ اور
بہترین دعا الحمد للہ ہے۔ (ترمذی، 5/248، حدیث: 3394) اس حدیث کی روشنی میں ہمیں حرمین
شریفین میں ذکر و دعا میں وقت گزارنا چاہیے اور موبائل کے استعمال سے بچنا چاہیے۔