اللہ تعالیٰ کامقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کی جاتی ہے اور ہرشخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اسکے حقوق ادا کرنا لازم ہے حرم مکہ کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دین اسلام میں ان کےحقوق ادا کرنے کو کہا گیا ہے اور دین اسلام میں۔ ان افعال سے بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سےحرم مکہ کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور حرم مکہ کےچند حقوق درج ذیل ہیں:

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح،4/202)

درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراٰة المناجیح،4/201)

گناہوں سے بچنا:جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)

شکار کی ممانعت: حرم مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے جس طرح کے تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس لیے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)

خشوع و خضوع داخل ہونا: جب حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے نیچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔ (مسلم، ص 706، حدیث: 3153)

حرم مکہ کےآداب:

(1)جب حرم مکہ کے پاس پہنچیں تو شرم عصیاں سے نگاہیں اورسر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔

(2)حرم پاک میں لبیک و دعا کی کثرت رکھیں۔

(3)مکۃ المکرمہ میں ہر دم رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں۔

(4) وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔

(5) وہاں اس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

(6) حرم پاک کی ہر چیز حتیٰ کہ چیونٹیوں کی بھی تکریم کرنی چاہیئے۔

زیارات حرمین طیبین کی احتیاطیں:

فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: اپنی مسجدوں کو (ناسمجھ) بچوں اور پاگلوں سے محفوظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 1 / 415، حدیث: 750ملخصاً)

مساجد میں شور کرنا گناہ ہے اور ایسے بچوں کو لانا بھی گناہ ہے جن کے بارے میں یہ غالب گمان ہو کہ پیشاب وغیرہ کردیں گے یا شور مچائیں گے، لہٰذا زائرین سے عرض ہے کہ حدیث میں بیان کردہ شرعی حکم پر عمل کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو ہر گز مسجدین کریمین (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں نہ لائیں۔

جنّت البقیع و جنّت المعلیٰ کے کئی مزارات شہید کر دئیے گئے ہیں اور اندر داخل ہونے کی صورت میں کسی عاشق رسول کے مزار پر پاؤں پڑ سکتا ہے جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمان کی قبرپر بھی پاؤں رکھنا ناجائز ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، 5 / 349ملخصاً) لہٰذا ان دونوں متبرک مقامات پر باہر ہی سے سلام عرض کیجئے۔

وہاں کئی مقامات مقدّسہ ہیں کہ جن کی زیارت سے روح ایمان کو جلا ملتی ہے، لیکن کچھ محروم لوگ یہ زیارتیں کرنے کے بجائے شاپنگ سینٹرز یا تفریحی مقامات کی زینت بن جاتے ہیں، کم از کم وہاں حتّی الامکان ان فضولیات سے بچنے کی کوشش کریں.

اس کے علاوہ بھی حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں مثلا وہاں کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا وہاں کے تبرکات کو نقصان نہ پہنچانا بے ادبی سے بچنا وغیرہ اگر اللہ پاک کے فضل و احسان سے ہمیں وہاں کی حاضری کی سعادت ملے تو ہمیں چاہیے کہ ہر حالت میں محتاط ہر کام سوچ سمجھ کر کریں کوئی بھی قدم بغیر سوچے سمجھے نہ اٹھائیں یہ نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے ہم ثواب کے خزانے کے بجائے گناہوں کی گٹھری لے کر آئیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حرم مکہ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


یقینا حرمین طیبین کی حاضری ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے اور کئی خوش نصیب اس سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں لیکن جس مسلمان کو یہاں حاضری کی سعادت ملے تو اسے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ کہیں اس کی کوئی غلطی زندگی بھر کے لئے محرومی کا سبب نہ بن جائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ حرمین طیبین کے حقوق کو ملحوظ رکھے۔ حرمین طیبین کے کئی حقوق ہیں۔ ان حقوق میں سے چند درج ذیل ہیں:

صبر کرنا: مکہ معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم ک آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: 1565)

یونہی مدینۂ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا مقدس شہر ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش و پریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لئے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لئے بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو کوئی میرا امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم، ص548، حدیث: 3339)

درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مکہ و مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان میں موجود درخت نہ کاٹے جائیں چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)

حرم مدینہ کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔

گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کہ ملفوظات اعلی حضرت میں ہے مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)

عیب جوئی نہ کرنا: مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور قید میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم اس خاک پہ قرباں دل شیدا ہے ہمارا

حرم میں بے دینی نہ پھیلائی جائے: حضرت ابن عباس سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/140)

شرح حدیث: بدعقیدہ اور گنہگار دونوں ملحد ہیں، یعنی حدود مکہ مکرمہ میں گناہ کرنے والا یا گناہ پھیلانے والا یا بدعقیدگی اختیار کرنے والا یا رائج کرنے والا کہ اگرچہ یہ حرکتیں ہر جگہ ہی بری ہیں مگر حرم شریف میں بہت زیادہ بری کہ اس مقام کی عظمت کے بھی خلاف ہے اور جیسے حرم میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ایسے ہی ایک گناہ کا عذاب بھی ایک لاکھ ہے اسی لیئے حضرت ابن عباس نے مکہ چھوڑکر طائف میں قیام کیا۔ (مراۃ المناجیح، 1/142)

اس کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے کئی حقوق ہیں مثلا وہاں کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا، وہاں کے تبرکات کو نقصان نہ پہنچانا، ہر وقت زبان کو ذکر و درود سے تر رکھنا،خشوع و خضوع قائم رکھنا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حرمین طیبین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ پاک ہم سب کو بار بار مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/1085)

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح،4/202)

حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)

درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حرمین طیبین، یعنی مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ)، اسلامی تاریخ اور ثقافت میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے حقوق میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

زیارت و عبادت: حرمین کی زیارت اور وہاں عبادت کرنا ایک عظیم فضیلت ہے۔ مسلمان وہاں نماز، قرآن کی تلاوت اور دیگر عبادات کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں۔

احترام: حرمین کی عظمت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ وہاں کے مقام و فضیلت کی وجہ سے مسلمان ان مقامات کا خاص احترام کرتے ہیں۔

سکون و سلامتی: حرمین کی سرزمین پر امن و سکون کا ماحول فراہم کرنا اور وہاں کے زائرین کے لیے حفاظت کو یقینی بنانا اہم ہے۔

تعلیم و ترویج: وہاں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا تاکہ لوگ دین کی بنیادیات کو سمجھ سکیں اور صحیح رہنمائی حاصل کر سکیں۔

زائرین کی مدد: حرمین میں آنے والے زائرین کی مدد کرنا، ان کی رہنمائی کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ان مقامات کے حقوق میں شامل ہے۔

دعوت و تبلیغ: حرمین میں دین کی دعوت اور تبلیغ کا اہتمام کرنا تاکہ لوگ صحیح راستے کی طرف رہنمائی حاصل کر سکیں۔

یہ حقوق حرمین طیبین کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی قدر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔حرمین طیبین کے حقوق اور ان کی فضیلت کے بارے میں چند احادیث درج ذیل ہیں:

مسجد الحرام کی فضیلت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک نماز جو میں نے مسجد میں ادا کی ہے وہ دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، سوائے مسجد الحرام کے۔ یہ حدیث مسجد الحرام کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہے۔

مسجد نبوی کی فضیلت: میری اس مسجد کی فضیلت ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، سوائے مسجد الحرام کے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسجد نبوی بھی مسلمانوں کے لیے خاص مقام رکھتی ہے۔

زیارت کی اہمیت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص میری قبر کی زیارت کرے، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔ (دار قطنی، 2/351، حدیث: 2669) یہ حدیث حرمین کی زیارت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔

امن و سکون: قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-(البقرہ: 125) اور ہم نے اس شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنایا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ حرمین میں امن و سکون کا ہونا ضروری ہے۔

دعا اور عبادت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حرمین میں دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کی عبادت اور دعا کا ایک خاص مقام ہے۔

یہ احادیث حرمین طیبین کی عظمت، ان کے حقوق، اور وہاں کی عبادت کی فضیلت کو واضح کرتی ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان مقامات کا احترام کریں اور وہاں کی عبادات کو اہمیت دیں۔

مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ بہت ہی با برکت شہر ہیں یقیناً ہر عاشق ان کی حاضری کی تمنّا رکھتا ہے۔ رب جسے یہ سعادت نصیب فرمائے اسے چاہیے کہ فضولیات سے بچتے ہوئے مؤدبانہ حاضری دے اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔ آئیے کچھ حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ ادب و تعظیم کرنا: حرمین طیبین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے کہ ان کو حضور جان کائنات ﷺ سے نسبت ہے۔ حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: یہ امّت بھلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام کریں جب اسے برباد کریں گے ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)

2۔ گناہوں سے بچنا: جس طرح دیگر مقامات پر گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں بھی گناہوں سے بچنا نہایت ضروری ہے کہ جس طرح مکہ میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر اور مدینہ منورہ میں ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے اس قدر یہاں گناہ کرنے پر سزا بھی بلکہ گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔

3۔ بیماری پر صبر: حرمین طیبین میں تبدیلی ماحول کے سبب طبیعت کچھ ناساز سی ہو جائے تو بیماری پر صبر کر کے اجر حاصل کیا جائے کیونکہ یہاں بیماری کی بھی بہت فضیلت ہے، چنانچہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس سے ان کا اجر ملے گا اگر مسافر ہو تو اسے دگنا اجر ملے گا۔ (اخبار مکہ، 2/311)

4۔ جانوروں کو تکلیف دینے سے بچنا: انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی ایذا دینے سے بچا جائے۔ مکہ معظمہ کے ارد گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 1/1085)

5۔ شکار سے ممانعت: حرم مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔ تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس لیے حرم کہا جاتا ہے اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حرمین طیبین کی با ادب حاضری کی سعادت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کو حرمین شریفین کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں:

ارشاد باری تعالیٰ: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ: وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱) (پ 14، النحل: 41) ترجمہ کنز العرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اسکے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔

احادیث کی روشنی میں:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مکہ معظمہ سے فرمایا: تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے! اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔ (ترمذی، 5/487، حدیث: 3952)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں کا ثواب اور جو مسجد اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/176، حدیث: 1413)

فرمان مصطفیٰ: میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے) والا ہوں گا۔ (مسلم، ص 712، حدیث: 1378)

حرمین شریفین کے حقوق:

(1)گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ پر گناہ سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں بھی گناہ سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح مکہ معظمہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہے۔

(2)حرم شریفین کی گرمی پر صبر: مکہ مکرمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں کی گرمی برکت والی ہے۔اسکے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔

(3)طویل قیام کی ممانعت: وہاں طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے۔ اگر وہاں بدنگاہی،جھوٹ،غیبت،چغلی،وعدہ خلافی،تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ بار صادر ہونے کے برابر ہے۔ گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ مکرمہ کی ہیبت کے کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

(4) مکہ مکرمہ میں بیماری پڑ صبر: مکہ مکرمہ میں جانے سے عموماً ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے طبعیت کچھ ناراض ہو جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں برکتوں والی بیمار کی بھی کیا فضیلت ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (مفہوم) جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے۔ جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اسے ان کا اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو دگنا اجر ملے گا۔

(5) شکار کی ممانعت: مکہ جس طرح انسانوں کے لئے امن والا ہے۔ اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے۔اور اسی وجہ سے مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔

(6)درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مدینہ کے حقوق میں سے ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ حرام ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرام ہے۔ لہذا اسکے درخت وغیرہ نہ کاٹے جائیں۔

(7)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ منورہ کی ہر چیز نفیس وعمدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و عیب نہیں، اگر بالفرض کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا اندھا و عقل کی کمی سمجھے ورنہ اس کے بہت سخت سزا ہے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لیے 30 کوڑے لگانے اور قید میں ڈالنے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء،2/57)

(8) تکلیف نہ پہنچانا: حرم مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار ومحبت سے پیش آئے۔ تکلیف تو دور کی بات صرف اسکا ارادہ کرنے والے کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث: 3359)

(9) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس شہر مقدس کے شایان شان نہیں۔ جس طرح کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ کی مدینہ طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1867)

(10) وہاں فضولیات و لغوات سے بچنا۔

(11)آواز کو پست رکھنا۔

(12) ہمیشہ زبان کو درود شریف سے تر رکھنا۔

(13) وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرنا۔

حرمین طیبین وہ جگہ ہے جہاں جانے کو ہر کوئی ترستا ہے جہاں کے دیدار کو ہر مسلمان اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا ہے اس جگہ کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ حرمین طیبین کی تعظیم: حرمین طیبین شعائر اللہ میں سے ہیں اور ان کی تعظیم کو خود رب تعالیٰ نے تقوی قرار دیا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ان کی دل سے تعظیم کریں اور رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

2۔ ان کی حاضری کی آرزو: یہ بھی ان کے حقوق میں سے ہے کہ ان میں حاضر ہونے کی خواہش رکھی جائے اور جب بھی موقع ملے تو ضرور حاضر ہوں۔

3۔ ان سے محبت: ان کی محبت دراصل اللہ اور رسول کی محبت ہے لہذا ان کی محبت کو دل میں اجاگر کیا جائے

4 ان میں زیادہ تر وقت نیکیوں میں گزارنا: یہاں جا کر اپنا اکثر وقت نیکیوں میں گزارا جائے اور وہا ں کی سب سے بڑی عبادت طواف اور زیارت روضۂ رسول ہے۔

5 ان کی گرمی پر صبر: یہاں پر آنے والی ہر ایک تکلیف اور بیماری کا خوش دلی سے استقبال کیا جائے کہ یہ تو وہ درد ہے جو راہ در جاناں میں نصیب ہوئے ہیں۔

6 طویل قیام کی ممانعت: وہاں طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی کی غیبت چغلی جھوٹ وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر گناہ صادر ہونے سے کئی گنا زیادہ ہے گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی حرمین کی ہیبت کے کم ہونے کا خدشہ ہے۔

7 گناہوں سے بچنا:جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کے یہاں کا ایک گناہ دیگر جگہوں کے گناہ کے مقابلے میں کئی درجے بڑا ہے۔

اللہ کریم ہمیں تمام حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے حرمین طیبین کی جلد حاضری نصیب فرمائے۔ آمین

حرمین طیبین نہایت ہی برکت والے اور عظمت والے مقامات ہیں جس میں ہر دم رحمتوں کی چھما چھم بارش برستی ہے یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ایک طرف مکہ مکرمہ اللہ پاک کا گھر ہے تو دوسری طرف مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کا روضہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو حرمین طیبین یعنی مکہ مدینہ میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروز قیامت امن والے لوگوں میں اٹھائے گا۔

حرمین طیبین کے درج ذیل حقوق ہیں:

حرمین طیبین کا ادب: خانہ کعبہ کی زیارت و طواف روضہ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت حرمین طیبین کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پر کیف نظاروں کی زیارت سے اپنی روح و جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے لہذا جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر قسم کی خرافات و فضولیات سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ ور ہو حرمین طیبین کا خوب ادب و احترام کرے خاص طور پر روضہ رسول پر اونچی آواز سے بولنا سخت ادب کے خلاف ہے۔ آیت مبارکہ میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔

حرمین طیبین میں شکار کی ممانعت: حرمین طیبین میں شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ یہ حرم کی حدود کے خلاف ہےحرمین طیبین ادب والےشہر ہیں جس طرح یہ انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے وہاں کے جانوروں کو ایذا نہ دی جائے خاص طور پر مدینہ کی بلی یا کبوتروں کو ان کے وطن سے جدا نہ کیے جائے تفسیر احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس لیے حرم کہا گیا ہے کہ اس میں قتل اور شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)

حرمین طیبین میں گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں بھی گناہوں سے بچنا ضروری ہے کہ ان مقدس مقامات پر گناہ کا ارادہ کرنا بھی گناہ ہے اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت بیان کی گئی کہ مکہ مکرمہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اور ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236) اور یہی حکم مدینہ پاک کا بھی ہے۔

حرمین طیبین میں درخت کاٹنا اور گھاس اکھیڑنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہاں درخت نہ کاٹے جائیں اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔ (مراۃ المناجیح، 2/235)حرم کی حد کے اندر تک گھاس اکھیڑنا خود رو پیڑ کاٹنا اور وہاں کے وحشی جانوروں کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 1/1085)

حرمین طیبین میں عبادت: حرمین طیبین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جو بہت ہی مقدس مقامات ہیں جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا ہےان مقدس مقامات میں عبادت کا ثواب اور زیادہ بڑھ جاتا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں کا ثواب اور جو مسجد اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/176، حدیث: 1413)ان مقامات پر جب بھی حاضری کا شرف نصیب ہو تو ہمیں چاہیے کہ دل لگا کر عبادت کریں عبادت میں کوئی بھی کوتاہی نہ برتیں کہ ہو سکتا ہےکہ ان عبادات کے سبب ہمارے گناہ بخش دیئے جائیں۔

اللہ پاک ہمیں حرمین طیبین اور اس سے نسبت رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب کرنے اور بار بار کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین

حرم مکہ اور حرم مدینہ کی حدود: مکہ معظمہ کے ارد گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے،ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ حرم مدینہ شہر مدینہ کے اندر ہی ہے۔ بخاری شریف میں ہے: مدینہ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث: 6755)

حرم مکہ کے حقوق:

(1)حرم مکہ کی تعظیم: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس کے حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)

(2) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی تعظیم: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)

(3)درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)

حرم مدینہ کے حقوق:

(1)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ منورہ کی ہر چیز عمدہ و اعلٰی ہے اس میں کسی عیب ونقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کے بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا و عقل کی کمی سمجھے۔

(2) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا جائز نھیں (یثرب کا مطلب بیماریوں کا گھر ہے)کیونکہ یہ لفظ اس شہر مقدس کی شان کے لائق نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیئے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ ہے، طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1867)

(3) آواز پست رکھنا: جس طرح حضور ﷺ کی ظاہری حیات میں ان کے سامنے آواز پست رکھنے کا حکم تھا اسی طرح اب بھی کوئی مدینہ منورہ جائے تو اپنی آواز پست رکھے کیونکہ وہاں آواز اونچی کرنا ساری زندگی کے اعمال اکارت کردیتی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔

اس کے علاوہ حرمین طیبین کے اور بھی حقوق ہیں۔اللہ پاک ہمیں بار بار مکے مدینے کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین