علم ایک نور ہے یہ نور جہاں صحرائے ظلمات کی تاریکیاں کافور کرتا ہے وہیں تہذیب و تمدن کا جوہر بھی عطا
کرتا ہے۔ علم ادب
سکھاتا ہے باہمی روابط کے گر سے آشنا کرتا
ہے ،خالق کی معرفت و مخلوق کی خدمت کے جذبہ ٔ جاویداں سے فکر انسانی کو سرشار رکھتا ہے ۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حصول علم کے ذرائع کیا کیا
ہوسکتے ہیں ?
گذشتہ ادوار
ہوں یا عہدِ رواں ذرائع مختلف ہوتے رہتے ہیں، طلبہ کے مزاج تنوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسا عظیم المرتبت ذریعہ آج بھی جوں کا توں باقی ہے جیسا زمانہ ماضی میں تھا ۔
وہ ذریعہ ہے
"کتاب" بے شک مقتضائے حالات کے
ساتھ ساتھ دیگر ذرائع بدلے اور بدلنے بھی چاہیے لیکن ایک کتاب ہی وہ واحد و یگانہ
ذریعہ ہے جو گردش ایام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس کی مقدار میں مزید اضافہ ہوا ۔
یہاں سے اس کی
اہمیت و افادیت اجاگر ہوتی ہے کہ دیگر
وسائل تغیر پذیر ہوئے لیکن یہ نہیں بدلا تو یقینا یہ ایک اہم ذریعہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ادب کریں اس کی قدر کو پہچانیں ،اس کا بھی ایک حق ہے اس حق کی ادائیگی میں بالکل کوتاہی نہ برتیں ۔ہمارے اسلاف نے اس گوشہ کو بہت ہی حساسیت سے لیا اتنی احتیاط برتی کہ پڑھ سن کر ہی قوت فکر تاباں
ہوجائے ۔
مکمل کتاب کا ادب تو ایک امر عظیم ہے ہمارا دین
تو ہمیں حروف تہجی کے آداب سے بھی آشنا کرتا ہے کہ جہاں الف ، با وغیرہ مرقوم ہوں
اس جگہ کی قدر کرو راہ چلتے کہیں بوسیدہ ورق مل جائے معطر کرکے پلکوں پہ رکھ لو پھر اگر یہ وسوسہ لاحق ہو کہ اس طرح کے ادب
کا صلہ کیا ملے گا تو حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا مطالعہ کرلو آپ کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے آپ کی ولایت
کا سبب ادب ِ تسمیہ شریف ہے ۔
آپ کی توبہ
کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بالکل عنفوان شباب پر ہیں میخانے کا رخ کیے ہوئے تشریف لیے جارہے ہیں راستے میں ایک بوسیدہ کاغذ پر ”بسم اللہ
الرحمن الرحیم “ مسطور پایا جذباتی ہوگئے کہ میرے رب کا نام اس حالت میں! بلا
تاخیر اس پرچہ کو وہاں سے اٹھایا میخانے
کا عزم منسوخ کیا گھر تشریف لائے عطرسے معطر کیا گھر کی محفوظ و بلند جگہ پر رکھا ، دوسرے ہی دن حضرت ذو النون مصری رضی اللہ تعالی
عنہ
پیغام ولایت لے کر پہنچ گئے اور گویا یوں ہوئے کہ اے مرد قلندر ! تمہارے ادب نے اپنا رنگ دکھا دیا آج تم ایک عام انسان
نہیں رہے محبوبان خدا کی صف میں شامل ہوچکے ہو ۔
مدعا یہ کہ
آپ نے تسمیہ شریف کا احترام کیا تو ولایت نصیب ہوگئی ہم بھی اگر اپنے تٔیں ان کی روش پہ چلیں توبادشاہت نہیں کم از کم ان کی رقیت تو نصیب ہوہی جائے گی ۔ ان شا اللہ تعالٰی
عزوجل
اسی طرح بیان
کیا جاتا ہے کہ جب امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ دوسری بار حج کے لیے بیت اللہ شریف و مدینہ المنورہ تشریف لے گئے تو آپ کے شہزادے حضرت علامہ
مولانا حامد رضا رحمۃُ اللہِ
علیہ بھی آپ کے ساتھ تھے آپ کو وہاں کتابوں کی
ضرورت پڑ تی تھی اس لیے کبھی کبھار حرم کی لائبریری میں تشریف لے جاتے لائبریری میں ایک دن بعد عصر مفتی حرم تصنیفی کام انجام دے
رہے ہیں اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اور آپ کے شہزادے چند حوالہ جات کی تصحیح کے لیے وہاں تشریف لے جاتے
ہیں مجدد اعظم تو سیدھا لائبریری میں داخل
ہوجاتے ہیں مگر آپ انہیں مفتی صاحب کے پاس تشریف لے گئے جو مفتی حرم تھے قریب گئے تو دیکھا کہ مفتی حرم اپنے کام میں مشغول
ہیں اور نسیان سے سیاہی کی دوات کتاب پر
رکھی ہوئی ہے آپ نے دھیرے سے اس دوات کو
وہاں سے ہٹایا اور اپنی انگلی مبارک کو
وہاں رکھ دیا تاکہ ہوا کی وجہ سے کتاب کے اوراق منتشر نہ ہونے پائیں جب مفتی صاحب قبلہ نے اس چیز کو محسوس کیا
تو آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ آپ
نے ایسا کیوں کیا آپ نے فرمایا : فقہ کی
کتابوں میں اس کو خلاف اولی لکھا ہے انہوں نے کہا میں مفتی ہوں میں نے کبھی نہیں
پڑھا تم جوان بچے ہو کہاں سے پڑھ لیا آپ نے فرمایا اسی کتاب سے جس کی مدد سے آپ
کچھ تحریر فرمارہے ہیں وہ کتاب فتح القدیر تھی مفتی صاحب نے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا کہ
دکھاو کہاں ہے آپ نے فوراً کتاب کو لیا اور ایک جزٔیہ کی روشنی میں یہ ثابت
کردیا کہ یہ امر خلاف اولی ہے تب مفتی صاحب کو یہ سمجھ آگیا کہ واقعی یہ امر خلاف
اولی ہے حالانکہ وہ بھی اس نوعیت کے ادب کے قائل تھے ۔
اب ہمیں خوب
اچھے طور سے پتہ چل گیا کہ دینی کتابوں کا نیز دیگر دینی ذخائر کا
کس قدر ادب ہونا چاہیے ، کتاب کا ادب یقینا علم کا فیضان نصیب کرتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ کتابوں کا خاص طور سے ادب
کریں اور علمی فیضان سے اپنے آپ کو منور کریں ۔