(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے سے نماز باجماعت کو ستائیس دَرَجے فضیلت حاصل ہے۔ (بخاری،کتاب الأذان ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ ،1/232، حدیث 645)

(2)حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض لوگوں کو چند نمازوں میں جماعت میں نہ دیکھ کر فرمایا: میرا یہ اِرادہ ہوا کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور میں ان لوگوں کے یہاں جاؤں جو جماعت سے رہ گئے ہیں اور ان کو اور ان کے گھروں کو جلادوں ۔ (مسند أبی داود الطیالسی، ص42، حدیث 316)

(3)دوسری روایت میں ہے کہ پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو لکڑیوں کے گٹھوں کے ساتھ ان پر جلانے کا حکم دوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوئے، اگر ان میں سے کسی کو علم ہوتا کہ موٹی ہڈی یا جانور کے دوہاتھ (جماعت میں شریک ہونے سے) ملیں گے تو وہ ضرور جماعت میں شامل ہوتے۔(مسلم،کتاب المساجد۔۔الخ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔الخ،ص327، حدیث:651)

(4)حضرتِ عثمان رضی اللہُ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو عشاء کی جماعت میں حاضر ہوا پس گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزاری اور جو صبح کی جماعت میں بھی شامل ہوا گویا اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔ (مسلم،کتاب المساجد۔۔۔الخ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔الخ ،ص 329، حدیث:656)

(5) رسولِ اَکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِرشاد ہے کہ جس نے نماز باجماعت ادا کی پس گویا اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر لیا۔ (حلیۃ الاولیاء ، تکملۃ کعب الاحبار ، 6/30 ، حدیث:7704 )