اللہ پاک قراٰنِ کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشادفرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ : عاقِل، بالغ، حر(آزاد)، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحقِ سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی، اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔ (بہارِ شریعت، 1/582)

نماز با جماعت کے بارے میں پانچ فرامین رسول عربی درج ذیل ہیں:

(1) حضرتِ عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(2) حضرت ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

(3) حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار مدینہ کا فرمان ہے : جس نے باجماعت عِشا کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قِیام کیا، اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا پوری رات قِیام کیا۔(مسلم،ص258،حدیث:1491)

(4) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

(5) حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

تارکین جماعت کی مذمت : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص327، حدیث: 651) اس کی شرح میں ہے۔ چھوٹے بچوں، عورتوں، معذوروں کی وجہ سے حضور علیہ السلام نے گھر جلانے کا قصد نہ فرمایا۔ کسی کو گھر بار جلانے کی سزا نہ دی جائے سوائے تارک جماعت کے سلطان اسلام یہ نافذ کر سکتا ہے۔ (مراۃ المناجیح،1/ 152)

ترک جماعت کے اعذار: (1) مریض (2) اپاہج (3) پاؤں کٹا(4) فالج زدہ (5) بوڑھا ضعیف (6) اندھا (7)سخت بارش (8) شدید کیچڑ (9) سخت سردی (10) سخت اندھیرا (11) آندھی (12) مال یا طعام کے ضیاع ہونے کا خوف (13)قرض خواہ کا خطرہ (14) ظالم کا ڈر (15) پاخانہ (16) پیشاب (17) ریح شدید (18) کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی طرف مائل ہے۔ (19) قافلہ جانے کا خوف (20) مریض کی تیمارداری کہ وہ اکیلا گھبرائے گا ۔ (نماز کے احکام ،ص 269)

جماعت نکل جانے کا افسوس: افسوس !وہ دور آ گیا ہے کہ بے شمار نمازی بھی اب جماعت کی پروا نہیں کرتے بلکہ کبھی نَماز بھی قضا ہوجائے تو انہیں کسی قسم کا رَنج نہیں پہنچتا جبکہ ہمارے اَسلاف (یعنی گزرے ہوئے بزرگوں ) کی حالت یہ تھی کہ اگر اُن میں سے کسی کی تکبیر اُولیٰ فوت ہوجاتی تو تین دن اور جماعت فوت ہوجاتی تو اُس کا سات دن تک غم مناتے۔(مکاشفۃ القلوب ص 268)

پیارے نبی کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے۔

جنت میں لے چلےگی جو بے شک نماز ہے۔

اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم