احمد رضا عطاری (درجہ ثانیہ ،جامعۃ المدینہ فیضان صدیق
اکبر، کورنگی، کراچی،پاکستان)
اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ
کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)یہاں رکوع سے مراد نماز ہے یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ
باجماعت نماز پڑھو!(تفسیر روح المعانی،البقرہ،تحت الآیۃ:43، 1/334،
بتقدم وتاخر دار احیاء التراث العربی بیروت)
اس آیت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے اور
احادیثِ مبارکہ میں با جماعت نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں، 5
فضائل پیش کئے جاتے ہیں:
(1)
صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ
باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)
(2) امیرالمؤمنین
حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے
سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت
نماز پڑھنے والوں کو محبوب (یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309
،حدیث:5112)
(3) حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ
مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ
میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی
نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی
الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز
ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)
(4)حضرت
سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار، نبیوں کے سردارصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِخوشبودار ہے: جس نے
کامل وضو کیا، پھر نمازِ فرض کے لیے چلا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے گناہ
بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی
الجماعۃ متوضیاً۔۔۔ الخ،2/373، حدیث: 1489)
(5)حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،سرکارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے:جس
نےباجماعت عِشاکی نمازپڑھی گویا آدھی رات قِیام کیا،اورجس نے فجر کی نمازِ باجماعت
پڑھی گویا پوری رات قِیام کیا۔ (مسلم،ص258، حدیث: 1491)حضرتِ مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ
پاک کے تحت لکھتے ہیں:اِس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ عِشاکی باجماعت نماز
کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابرہے اور فجر کی باجماعت نماز کا ثَواب باقی آدھی
رات کی عبادت کے برابر،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اُسے ساری رات
عِبَادت کا ثواب۔دوسرے یہ کہ عِشا کی جماعت کا ثَواب آدھی رات کے برابر ہے اور فجر
کی جماعَت کا ثواب ساری رات کی عبادت کے برابر،کیونکہ یہ (یعنی فجر کی )جماعَت
عِشا کی جماعت سے (نفس پر)زیادہ بھاری ہے،پہلے معنیٰ زیادہ قوی(یعنی مضبوط)ہیں۔
جماعَت سے مرادتکبیرِاُولیٰ پاناہے جیسا کہ بَعض علمانے فرمایا۔ (مراٰۃ
المناجیح،1/396)