اے عاشقاں نماز اللہ پاک کے فضل وکرم سے ہمیں جو بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں الحمد لله ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے۔ اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں اللہ پاک کی رحمت سے یہ بھی ہمارے لیے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یاد رکھئے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہر عاقل، بالغ آزاد اور قادر مسلمان پر واجب ہے بغیر کسی شرعی مجبوری کے ایک بار بھی جماعت کو ترک کرنے والا سخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہے اور کئی بار ترک کرنے والا فاسق ہے اور وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا۔ خود ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا بہت ہی زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے اور بغیر مجبوری کے جماعت کو ترک نہ فرماتے تھے۔ میرے پیارے بھائیو ! آج وہ دور آگیا ہے کہ بے شمار نمازی بھی جماعت کو ترک کر دیتے ہیں اور اب عشق رسول کے دعوے بلند دعوے رہ گئے ہیں افسوس صحت کے باوجود لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کی وجہ سے جماعت تو جماعت فرض نمازیں تک چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ احادیثِ کریمہ میں جگہ جگہ اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وہ وعید فرمائی ہے۔ باجماعت نماز پڑھنے کا جذبہ پانے کیلئے چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہے کہ مسلمان اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات سنیں اور اس کی توفیق سے ان پر عمل کریں۔

(1) غیب داں نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے با جماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا پوری رات قیام کیا۔(مشکوٰۃ:ص 62 )

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ عشاء کی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے اور فجر کی باجماعت نماز کا ثواب باقی آدھی رات کی عبادت کے برابر ،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اسے ساری رات عبادت کا ثواب۔ دوسرے یہ کہ عشاء کی جماعت کا ثواب آدھی رات کے برابر ہے اور فجر کی جماعت کا ثواب ساری رات عبادت کے برابر، کیونکہ یہ ( فجر کی جماعت عشاء کی جماعت سے) نفس پر زیادہ بھاری ہے پہلے معنی زیادہ قوی ہے۔ جماعت سے مراد تکبیر اولیٰ پانا ہے جیسا کہ بعض علما نے فرمایا۔(مرآۃ المناجیح ،2/386)

(2) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب نماز کی تکبیر ہو تو سوائے فرائض کے اور کوئی نماز نہیں۔ (مشکوة ،ص 196)یعنی تکبیر نماز کے بعد جماعت سے متصل دوسری نماز پڑھنا حرام ہے۔ لہٰذا فجر کی سنتیں اس حالت میں جماعت سے دور ہٹ کر پڑھ سکتا ہے جبکہ جماعت مل جانے کی امید ہو کیونکہ یہ سنتیں بہت اہم ہیں۔( مرآۃ المناجیح ،2/154)

(3) دونوں عالم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو مسجد جماعت میں چالیس راتیں نماز عشاء پڑھے کہ رکعت اولیٰ فوت نہ ہو اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے ۔( بہار شریعت، 1/441)

(4) ساقی کوثر مالک جنت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز کی جماعت نہ کی جائے تو ان پر شیطان غالب آ جاتا ہے۔ تم پر جماعت لازم ہے بھیڑیا دور والے جانور ہی کو کھاتا ہے ۔( مشکوٰۃ:ص 96 )

(5) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز (با جماعت) سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلا دوں ۔( احیاء العلوم ،1/ 462 )

اس سے چھوٹے بچے، عورتیں، معذور، بیمار علیحدہ ہیں۔ یہاں روئے سخن منافقین کی طرف ہے کیونکہ کوئی صحابی بلا وجہ جماعت اور مسجد کی حاضری نہیں چھوڑتے تھے لہذا روافض کا یہ کہنا کہ صحابہ فاسق یا تارک جماعت تھے غلط ہے۔ رب نے ان کے تقوی اور جنتی ہونے کی گواہی دی اگر یہاں صحابہ مراد ہوں تو حدیث قراٰن کے خلاف ہوگی ۔( مرآۃ المناجیح ،2/152)