دن کے گیارہ
بجے تھے، گھر کے دروازے کی بیل بجی، رخشندہ بیگم نے دروازہ کھولا، رضیہ اندر داخل ہوئی اور بولی:سلام! بی بی جی
رخشندہ بیگم:وعلیکمُ السلام
رضیہ اپنے
کام میں مصروف ہو گئی، رخشندہ بیگم کچن میں
کام کر رہی تھی، مگر رخشندہ بیگم نے محسوس
کیا کہ آج رضیہ بُجھی بُجھی سی ہے۔
رخشندہ بیگم:کیا
ہوا خیریت تو ہے؟
رضیہ بولی:بی
بی جی! جو میری سہیلی کی شادی ہوئی تھی نا، اُس کے سُسر کا انتقال ہوگیا، اب اُس کو گھر
والے منحوس کہہ رہے ہیں، بات بات پر تنگ
کر رہے ہیں، اتنے میں رخشندہ بی بی کچن سے
کمرے میں آگئیں اور کہا: وہ تو شادی سے پہلے بیمار تھے نا!
رضیہ بولی:
جی بی جی!
رخشندہ بیگم بولی:کسی شخص کو منحوس قرار دینے میں
اس کی سخت دل آزاری ہے، موت کا ایک وقت
مقرر ہے، یہ تو بد شگونی ہے اور بدشگونی
حرام ہے۔
رضیہ: بی
بی جی! بد شگونی کیا ہے؟
رخشندہ بیگم:ہمارے
آخری نبی صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے بد شگونی
لینے والوں سے بیزاری کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ وَلَا تُطُیَّرَ لَہٗ۔یعنی جس نے بدشگونی لی یا جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں(یعنی وہ ہمارے طریقے پر نہیں)۔ (المعجم الکبیر، 18/162، حدیث 355، فیض القدیر، 3/288، تحت الحدیث 3256، ماخوذ از بدشگونی
،ص 19)
رخشندہ بیگم:
بدشگونی عالمی بیماری ہے،عورتوں میں بھی بدشگونی رائج ہے:
1۔نئی نویلی
دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص انتقال کر جائے۔
2۔ یا کسی
عورت کے صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں، تو اس پر
منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔
3۔حاملہ
عورت کو میّت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا۔
4۔جوانی میں
بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں۔
5۔سورج
گرہن کے وقت حاملہ عورت چُھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ
کٹایا چِرا ہوگا۔
رخشندہ بیگم:دیکھو رضیہ!شگون کا معنی ہے فال
لینا یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا شگون یا بُرا
شگون سمجھنا، اس کی بنیادی دو قسمیں ہیں:
برا شگون۔
اچھا شگون۔
علامہ
محمد بن احمد انصاری قرطبی تفسیرِ قرطبی میں
نقل کرتے ہیں کہ اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بد شگونی، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون
لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا سُنے تو اس طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے
کام سے رُکے۔
اچھے شگون
کی مثال یہ ہے کہ ہم کسی کام کو جا رہے ہیں، کسی بزرگ کی زیارت ہوگئی تو اسے اپنے لئے باعثِ
خیر و برکت سمجھنا اور یہ مستحب ہے۔
برے شگون
کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص سفر کے ارادے سے نکلا، لیکن راستے میں کالی بلی راستہ کاٹ کر گزر گئی، اب اس شخص نے یقین کرلیا کہ اس کی نحوست کی وجہ
سے مجھے سفر میں ضرور کوئی نقصان اٹھانا
پڑے گا اور سفر سے رُک گیا، تو سمجھ لیجئے
کہ وہ شخص بدشگونی میں مبتلا ہوگیا ہے۔ عموماً ہمارے معاشرے میں کوؤں کی کائیں کائیں
کرنے سے بد شگو نی (بری فال) لیتے ہیں، کبھی بلی
کے رونے کو منحوس سمجھتے ہیں تو کبھی رات کا وقت کتے کے رونے کو، مُرغی دن کے وقت اذان دے تو بد فالی میں مبتلا
ہوجاتے ہیں۔مغرب کے وقت دروازے میں نہیں بیٹھنا چاہئے، کیونکہ بلائیں گزرتی ہیں، بچہ سویا ہوا ہے، اس کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گزر جائے تو بچے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔امام
ابو الحسن علی بن محمد ماوردی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:
جان لو! بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی
شے نہیں۔(ادب الدنیا والدین،
ص4، ماخوذ از بدشگونی، ص 19)