گزشتہ کئی دہائیوں سے ماہرین کا دلچسپ موضوع”بچوں کی تربیت“ رہا
ہے،ہر ایک نے اپنی ریسرچ ،تجربات اور مشاہدے بیان کئے،طویل ریسرچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ غلطیاں والدین میں تھی ناکہ بچوں
میں، اس لئے انہوں نے ”والدین کی تربیت“ شروع کی۔ کیونکہ والدین
”معمار “،بچے ”عمارت“اور ان کا بچپن ان کی
”بنیاد“ ہوتا ہے۔ اگر عمارت کی بنیاد ہی خراب ہوجائے تو پوری عمارت بیکار ہوجاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ”والدین کی تربیت“پر بہت
تحقیقات ہورہی ہیں،آئے دن ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے ، ہر شخص اپنی تحقیق ، مطالعے اور تجربات کی روشنی میں والدین کی تربیت کر رہا ہے۔ جس کا جتنا مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ ہوگا اس کا انداز ِتربیت اتنا ہی بہترین ہو گا ۔
امیرِ اہلِ سنّت مولانا الیاس قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی
شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،آپ ایک ہمہ
گیر شخصیت ہیں، آپ کے تجربات کوہ ہمالہ سے اونچے، مشاہدات سمندر سے زیادہ
گہرے ہیں۔آپ کی ذات ہر طبقے کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ نے ہر طبقے کی رہنمائی کی ہے چاہے وہ علماء ،ہوں یا طلبا،مبلغین یا
مقررین ،اولاد ہو یا والدین ۔
والدین کی تربیت سے متعلق آپ کے ملفوظات کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ
ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف دینِ اسلام کے عظیم مبلغ ہیں بلکہ آپ والدین کی تربیت کرنے والے ایک اچھے ،ماہر اورتجربہ کار راہنما بھی ہیں ۔
والدین کی تربیت کے متعلق آپ کے چند باتیں
سنیئے:
ماہرین کہتے ہیں اگر آپ بچے کی عادت پختہ کرنا چاہتے
ہیں تو پہلے وہ کام کئی بار بچے کے سامنے سرانجام دینا ہوگا،تب بچے کی عادت پختہ
ہوگی۔
(1) آپ فرماتے ہیں:
بچہ بڑوں کے نقشِ قدم پر چلتا ہے
یہی وجہ ہے کہ جب گھر میں کوئی بڑا نمازپڑھتا ہے تو بچہ برابر مىں جا کر کھڑا ہو
جاتا ہے اور اپنے اَنداز میں رُکوع اور سجدے کرتا ہے پھراُٹھ کر بھاگ جاتا ہے۔بچوں کو
نماز کا عادی بنانے سے پہلے والدین کو نمازی بننا پڑے گا تاکہ وہ اپنے بچوں کو بھی
نماز کا عادی بنا سکیں ۔
(2) مار پیٹ سے بچوں کی شخصیت متاثر ہو تی ہے، ان میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں ، لیکن کئی والدین کو یہ بات سمجھانی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حوالے امیر اہل سنت کا انداز سب سے زیادہ منفرد ہے :
مار پٹائی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
جو والدین بھی بچوں کو مارتے ہیں ان کے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔
(3)جس طرح والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد
کےبھی حقوق ہوتے ہیں، اگر والدین کی کسی
بات سے اولاد کی دل آزاری ہو تو والدین کو
معافی مانگنی پڑے گی۔ لیکن اس پہلو کی طرف
شاید ہی کسی کی توجہ جاتی ہو ، امیر اہل سنت نے اس پہلو کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
اَولادٹوٹاہوا بَرتن نہیں ہے کہ
اس کے ساتھ ہرطرح کا سلوک کیاجا سکے،اگر اَولاد کی دِل آزاری کی تواس سے بھی
مُعافی مانگنا ہوگی۔
(4)والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اکثر بچوں کو بات بات پر روکتے ٹوکتے ہیں ، جھاڑتے ہیں اور بعض اوقات تو مار پیٹ بھی کر دیتے ہیں
ایسے والدین کو امیرِ اہلِ سنّت نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بار بار روک ٹوک کرنا بھی بچے کو باغی بنا دیتا ہے۔موجودہ
دور میں اَولاد کے باغی ہونے کے پیچھے خود والدین کا اپنا بھی کِردار ہوتا ہے۔والدین
بات بات پر جھاڑتےاور مارتے ہىں جس کے سبب بچے ضِدى اور باغی ہوجاتے ہیں، پھر نہ
مار اَثر کرتی ہے اور نہ دَھاڑ لہٰذا اَدب سکھانے کے لئے ضَرورت سے زیادہ اور سب کے
سامنے روک ٹوک نہ کی جائے۔والدین کو چاہیے کہ اَولاد کی تَربیت کا ہُنر سیکھیں۔
(5)بچوں سے بعض اوقات گھر کی چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں، کبھی برتن تو کبھی اور
کچھ، ایسے میں والدین خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بچوں کوبہت ڈانٹا
جاتاہے،اوربچے یہی سمجھتے ہیں شاید اس برتن کی مجھ سے زیادہ اہمیت تھی۔اس طرح بچوں
کا دل میں عجیب سا خوف بیٹھ جاتا ہے، اگر کبھی ایسا ہو جائے تو کس طرح کا برتاؤ
کرنا چاہئے؟ امیر ِاہلِ سنّت فرماتے ہیں:
بعض اَوقات گھر میں
کسی بچّے سے برتن ٹُوٹ جائے تو اُسے جھاڑا یا مارا جاتا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
میں نے کسی سے سُنا تھا کہ ’’اگر بچّے سے برتن ٹُوٹ جائے تو اُسے ڈانٹ ڈَپَٹ نہ کی
جائے، کیونکہ برتن کی عُمر پُوری ہوگئی تھی، اِس لئے وہ ٹُوٹ گیا۔‘‘ یہ بات واقعی
سمجھ میں آنے والی ہے۔ اگر ہم مار دھاڑ کریں گے تو برتن کونسا دوبارہ جُڑجائے گا!
ٹُوٹنا تھا، ٹُوٹ گیا۔ اب زِیادہ سے زِیادہ یہ کرلیں کہ بچّے ہی کے ہاتھ اُسے ڈسٹ
بن میں ڈالوا دیں
۔
(6)بچہ
ہنسنا جانتا ہے یا رونا ،اس کے علاوہ ڈر خوف
نام کی کوئی چیز اس میں نہیں ہو تی،خوف
اور ڈر اس میں ڈالا جاتا ہے نتیجہ کیا نکلتا ہے بچہ ڈرپوک بن جانتا اورڈرپوک کون
بناتا ہے؟”ہم“
آپ
فرماتے ہیں: بھوت پَری کی کہانیاں بچوں
کوبُزدل (ڈرپوک) بناتی ہیں۔بچوں کو صحابہ کرام کے بہادری کے قصے سنانے چاہئے ،ہمارے
بچے شیرکی طرح بہادر ہونے بنیں۔
(7)کہتے ہیں تلوار کا زخم تو بھر جاتاہے لیکن
زبان کا زخم نہیں بھرتا ۔کیا کبھی آپ نے
سوچا ہے کہ آپ کو ڈانٹتے ہوئے کیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔والدین کی اس طرف توجہ
دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
اپنی اَولاد کو سمجھاتے ہوئے
ایسے جملے نہ بولیں،جس سے ان کے دِل میں آپ کی نفرت جڑ پکڑ جائے۔
(8)آئے دن خبروں اورسوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا ہوجانے کے بہت سے واقعات گردش کرتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:
بچوں کو یہ تَربیت دینی چاہئے کہ انہیں جب کوئی پکڑنا چاہے
تو وہ رونا دھونا اور چیخ و پکار شروع کر دیں۔نیز فرماتے ہیں۔ بچوں کا یہ ذہن بھی
بنایا جائے کہ کوئی کتنا ہی لالچ دے، ٹافیاں اور کھلونے دِکھائے مگر وہ اُس کے
ساتھ نہ جائیں۔
(9)بچہ ہو اور ضد نہ کرے ایسا ممکن
ہی نہیں کیوں؟ کیونکہ بچہ اگر ضِد،شرارتیں ،چھیڑ خانیاں
اور مىٹھى مىٹھی باتىں نہ کریں اور نہ بڑوں سے اُلجھیں اور نہ ہی بات بات پر رُوٹھیں تو پھر اُن کے بچے ہونے کا لُطف نہىں آئے گا ۔والدین کی پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بچہ
ضد پر اڑ جائے ۔بچوں کی ضد سے متعلق آپ فرماتے ہیں:
بچوں کی بعض ضِدیں
بے ضَرر(یعنی کسی نقصان کے بغیر) ہوتی ہیں انہیں پورا کر دیا جائے مگر ان کی ہر ضِد کو پورا نہ کیا جائے
کیونکہ اگر والدین ان کی ہر ضِد پوری کریں گے تو وہ اس کے عادى ہو جائیں گے اور ان کا یہ ذِہن بن جائے گا کہ اگر ہم شرافت سے بولتے ہیں
تو ہمارا کام نہیں ہوتا اور اگر ہم یُوں
یُوں کرتے ہیں تو ہمارا کام ہو جاتا ہے۔
(10)بچوں سے غلطی ہوجاتی ہے اورجب ان سے پوچھا جاتا ہے تو سچ سچ بول دیتے
ہیں ۔اب والدین غصے میں آکر بچوں کو مارتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:
جب بچہ سچ بیان کردے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
مگر بعض اوقات بچہ ایسی حرکت کردیتا ہے کہ اس کو سبق سکھانا پڑتا ہے تو موقع کی
مناسبت سے معاملہ نمٹایاجائے۔ پھر بھی اکثر باتیں ایسی ہوتی ہوں گی کہ والد اگر
انہیں نظر اندازکردے تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔یاد رکھئے! ہر بات پر ڈانٹنا جھاڑنا یاٹوکنا بھی مناسب نہیں ہوتا اس سے اولاد متنفر
ہوسکتی ہے۔
(11)عام طور پر والدین بچوں سے
مشورہ نہیں کرتے ،انہیں پاس نہیں بٹھاتے اوران سے صلح مشورہ نہیں کرتے۔والدین کو
ایسا نہیں کرنا چاہئے،بلکہ یہ ان کی تربیت کے مراحل ہوتے ہیں تاکہ وہ فیصلہ سازی کرسکیں۔
آپ فرماتے ہیں: بچہ مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوتا مگر میرے
مشورہ کرنے سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ باپا نے مجھ سے مشورہ کیا ہے۔بعض
اوقات بچہ ایسی بات کر دیتا ہے کہ اپنی ساری کی ساری حکمتِ عملی دَھری کی دَھری رہ
جاتی ہے کہ یار اس بچے نے واقعی کام کی بات کی ہے۔بچوں کی دِل جوئی کی نیت سے میں
نے بارہا ان کے مشوروں پر عمل بھی کیا ہے۔ میرے ذہن میں ایک حدیث پاک بیٹھ گئی ہے
کہ جَنَّت میں ایک مکان ہے جس کو دَارُ
الفرح کہا جاتا ہے یہ اس کے لیے ہے جو بچوں کا دِل خوش کرتا ہے۔(الکامل لابن عدی،1/328،رقم:45)