مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اخوت وبھائی چارہ اور آپس میں میل جول کے ساتھ زندگی گزارنے کا   احسن انداز میں تعلیم دی ہے، مہاجرین صحابہ بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ منورہ پہنچے تھے، ان کے پاس کھانے کے لئے سامان، رہنے کے لئے مکان اور کمانے کے لئے کوئی انتظام نہیں تھا، اس موقع پر انصار صحابہ نے ان کی جس طرح سے نصرت و اعانت کی ہے اور بھائی چارے کا جو ثبوت دیا ہے تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے ۔

اللہ پاک نے دنیا میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، پھر ان کے بائیں پسلی سے حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو پیدا فرمایا۔پھر ان کے ذریعے اللہ پاک نے پوری دنیا کے لوگوں کو پیدا فرمایا ۔پھر ان میں سے جو ایمان والے ہوئے وہ سب آپس میں بھائی ہیں۔

قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ترجمہ:’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘

(پ 26،الحجرات:10 )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ۔‘‘ (صحیح مسلم ،حدیث: 2564،صحیح بخاری،حدیث 6064)

ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔اس وجہ سے اپنے مومن بھائی کے مال و دولت پر نگاہیں نہیں گاڑنی چاہئے، بلکہ ہمیں اس کے عزت و آبرو کا خیال رکھنا چاہئے اور اگر اس کو برائی کی طرف مائل دیکھو تو اس کو نیکی کا حکم دیا کرو تاکہ وہ راہ راست پر آ جائے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ 10،التوبہ : 71)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دوست اور غم خوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن ایک مومن کے لئے دیوار کی طرح ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے پیوستہ ہے یعنی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔

(صحیح مسلم: 2585،صحیح بخاری:6026)

اس حدیث سے گویا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں درس دے رہے ہیں کہ مومن کا اپنے مومن بھائی سے محبت کرنا اور اس کے لئے بھلائی کا سوچنا کتنا ضروری ہے اس سے ایمان کی مضبوطی کا بھی پتا چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے مومنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت پیدا کردی، چاہے ان کا تعلق مشرق و مغرب یا شمال و جنوب سے ہو، الله پاک ارشاد فرماتاہے:وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ  اِذْ  كُنْتُمْ  اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ  بَیْنَ  قُلُوْبِكُمْ  فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًاۚ (پ 4،آل عمران ، 103)

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی)اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک ہی وہ ذات ہے جس نے ہمارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کی ۔ایک جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْؕ-لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۶۳)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور ان کے دلوں میں میل کردیا (اُلفت پیدا کر دی ) اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادئیے بےشک وہی ہے غالب حکمت والا(پ 10، الانفال : 63)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ آپس میں بھائی چارہ کے ساتھ رہیں، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔ اللہ کریم ہم سب کو توفیق خیر عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔