1۔اُخوت سے مراد
آپس میں محبت و ہمدردی کرنا،غمگساری کرنا،ایک دوسرے کا غم بانٹنا،مشکل وقت میں کام
آنا اور اس کی امداد کرنا وغیرہ۔دینِ اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کو بڑی اہمیت حاصل
ہے،چنانچہ اللہ پاک اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ
اِخْوَۃٌ۔ ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان
مسلمان بھائی ہیں ۔ (پ26،الحجرات:10 )یعنی
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اور اسلامی محبت کے ساتھ
مربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دنیاوی رشتوں سے مضبوط ہے، لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں
میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ پاک سے ڈرو، تاکہ تم پر
رحمت ہو، کیونکہ خوفِ خدا ایمان والوں کی آپس میں محبت و الفت کا سبب ہے۔(تفسیرصراط الجنان،9/159)2۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی مثل : فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے
عمارت کی طرح ہے،جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔(مسلم،ص 1396،حدیث: 2585)یعنی مومنوں کے دینی و دنیوی کام ایک دوسرے سے مل جل کر مکمل ہوتے ہیں،جیسے مکان
کی دیوار ایک دوسرے مل کر مکان مکمل کرتی ہے۔(مراۃ المناجیح،6/549)اس کے علاوہ بھی دیگر
احادیث میں مسلمانوں کی اس صفتِ محبت کو اُجاگر کیا گیا ہے،چنانچہ فرمانِ مصطفے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :مومن محبت کرتا ہے اور اس سے
محبت کی جاتی ہے اور جو شخص نہ خود محبت کرے، نہ اس سے محبت کی جائے تو اس میں کوئی
بھلائی نہیں۔(احیاء العلوم،2/5713)مواخاۃِ مدینہ:ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا انصار و مہاجرین کے درمیان
اُخوت کا رشتہ قائم کردینا اور انصار صحابہ کا مہاجرین صحابہ کے لئے ایثار و فیاضی
کا ثبوت دینا اسلامی و عالمی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے، چنانچہ مسجدِ
نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے انس بن مالک رَضِیَ
اللہُ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا، اس وقت مہاجرین
کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی،حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے انصار کو مخاطب
کرکے فرمایا:یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں،پھر مہاجرین و انصار میں سے دو شخص کو بلا
کر فرمانے لگے یہ اور تم بھائی ہو۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اُخوت
بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا،یہاں تک کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری رَضِیَ
اللہُ عنہ جو حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ
اللہُ عنہماکے بھائی قرار پائے تھے،ان کی دو بیویاں تھیں،حضرت سعد بن ربیع
رَضِیَ اللہُ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ
عنہ سے کہا:میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں،میں اسے طلاق دے دوں
اور آپ اس سے نکاح کرلیں۔ (بخاری،2/555،سیرت
مصطفٰی،ص1864)۔بھائی چارہ کس سے کیا جائے؟حضرت علی رَضِیَ
اللہُ عنہ نے فرمایا:فاجر سے بھائی بندی نہ کرو کہ وہ اپنے فعل کو تیرے
لئے مزین کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہو جائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا
اور بے وقوف سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ خود کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے نفع
نہ پہنچائے گا،اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے،اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت
زندگی سے بہتر ہے۔(تاریخ مشق، ص516، رسالہ وہ ہم میں سے نہیں،ص21)کامل مومن نہیں ہوسکتے:فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک آپس میں ایک
دوسرے سے محبت نہ کرو۔ (شرح مسلم للنووی،2/36،
فیضانِ ریاض الصالحین،4/91)5۔بھائی بھائی
ہوجاؤ:فرمانِ مصطفےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے اللہ پاک کے بندو! بھائی بھائی ہوجاؤ یعنی بدگمانی،
حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں، جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت
چاہتا ہے، لہٰذا یہ عیوب چھوڑو ، تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔(مراۃ المناجیح،ج6،ص608)6۔مسلمان کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت:حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:انسان کا محبت و مہربانی
کے ساتھ اپنے مسلمان کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔(احیاء العلوم،2/582) اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا
ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتم النبیین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم