عفو کے معنی ہیں معافی دینا سزا نہ دینا درگزر کو
عربی زبان میں صفح کہتے ہیں اس کے معنی ہیں دیکھی کو ان دیکھی بنا دینا، مجرم کی
طرف سے منہ پھیر لینا جیسے دیکھا ہی نہیں۔
عفو و درگزر حقیقت میں یہ ہے کہ بندہ بدلہ لینے کی
قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (اے ایمان والو، ص81) ہمارا پیارا رب اللہ بڑا غفورو رحیم اور عفو و درگزر فرمانے والا ہے انبیائے
کرام علیہم السلام نے بھی عفو و درگزر کا کمال مظاہرہ کیا ہے اور قرآن مجید میں
بھی کئی جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نےعفو و درگزر کا ذکر فرمایا اور اس کی ترغیب بھی
ارشاد فرمائی اور اس عظیم الشان عمل کو
اختیار فرمانے کا حکم خود رب نے قرآن مجید
میں آپ ﷺ کو بھی ارشاد فرمایا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ
بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز
الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ
پھیر لو۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت میں
نبی کریم ﷺ کو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے: جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے
پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔ اچھے اور مفید کام
کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے۔ جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے
الجھئے نہیں بلکہ حلم کامظاہرہ فرمائیں۔
ہمیں بھی چاہیےکہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں بھی
عفوو درگزر سے کام لیں گھر والوں رشتہ داروں ہمسائیوں دوستوں اور اپنے ماتحت لوگوں
سے بھی انکی غلطیوں یا جو کچھ بھی ان سے سرزد ہو تو ہم اللہ کے حکم اور اس کے پیارے بندوں کے طور طریقوں کو
اپناتے ہوئے ان پر صبر کریں اور بدلہ لیے بغیر انہیں معاف کریں اس کے متعلق بھی کئی احادیث کریمہ ملتی ہیں کہ
آپ ﷺ عفو و درگزر کا مظاہرہ فرمایا کرتے جیسا کہ آپ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو بھی
معاف فرما دیا کرتے، آئیے ترغیب کے لیے ذیل میں بیان کردہ عفو و درگزر کے بارے میں
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی
کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اورآپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے
موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی (عرب شریف کے دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادرمبارک
کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ سلطان مدینہ ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی
کنار سے خراش آگئی، وہ کہنے لگا: اللہ کا
جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے، آپ ﷺ حکم دیجیئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائےرحمت عالم ﷺ
اس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرادیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری،
2/359، حدیث: 3149) اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی ہم سے بری طرح پیش آئے
تو اس سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔
2۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو
عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفًا نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اور
برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معافی دیتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (ترمذی،
3/ 409، حدیث: 2023)کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر گالی دیتے، برا
بھلا کہتے ہیں اور بعض کبھی جب غصہ میں ہی اس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن آپ
ﷺ اس سے پاک تھے پس جن کی ایسی عادت ہو تو آئیے نیت کرتے ہیں کہ اس عادت کو بدل کو
کر عفوو درگزر سے کام لیا کریں گے ان شاء اللہ الکریم اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح سے دوسروں تک
نیکی کی دعوت پہنچانا بھی آسان ہو گا۔
3۔ جنگ احد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ ﷺ کے دندان
مبارک کو شہید کر دیا اور عبداللہ بن قمیئہ نے چہرہ انور کو زخمی اور خون آلود کر
دیا مگر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ اے اللہ! میری
قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔ (شفاء، 1/105)
آئیے ہم بھی نیت کریں کہ کسی کا برا کرنے پر اس کے
لیے بددعا کی بجائے ہدایت کی دعا کیا کریں گے، ان شاء اللہ الکریم۔
4۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے عفوو
درگزر کو واقعہ ملاحظہ فرمائیے ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کی لونڈی آپ رضی اللہ
عنہ کو وضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے پانی کا برتن آپ رضی اللہ عنہ کے
چہرے پر گر گیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا آپ رضی اللہ عنہ
نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی: اللہ ارشاد فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے
فرمایا: میں نے غصہ پی لیا اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے پھر عرض گزار ہوئی: اور اللہ احسان کرنے
والوں کو پسند فرماتا ہے ارشاد فرمایا: جا! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔
(تاریخ مدینہ دمشق، 41/ 387) لوگ عموما اپنے ماتحت لوگوں پر غصہ نکالتے ہیں لیکن
ہمارے اکابرین ان سے بھی بے انتہا نرمی کیا کرتے۔
آئیے! معاف کرنے کی فضیلت بھی پڑھ لیتے ہیں، چنانچہ
5۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے، خاتم النبیین ﷺ کا
فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتااور بندہ کسی کا قصور معاف کرے
تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی
بڑھائے گااور جو اللہ کے لیے تواضع(عاجزی)
کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071،
حدیث: 2588)
ان احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم
اپنے آقا ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپ ﷺ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے
سے برا کرنے والوں سے بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود بدلہ لینے کی بجائے معاف
کیا کریں۔
برا سلوک کرنے والوں سے اچھے سلوک سے پیش آئیں اور اپنی حق تلفی کرنے والوں کو معاف کر دیں۔