عفو درگزر ایک ایسا وصف ہے جس کی وجہ سے دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے باہمی تعلقات کی خوبی یہ ہے کہ بات کو لچک نرمی اور درگزر سے سنا جاتا ہے اور پروان چڑھتے ہیں دوسروں کی غلطیاں اور ان کے قصور معاف کر دینا۔ یہ خدا کی صفت ہے یہ ہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر دینے پر ابھارا ہے اور اس کے لیے یہ بات ارشاد فرمائی کہ معاف کر دینے والے کو اللہ بھی معاف فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کے اسماء الحسنی میں سے ایک نام العفو ہے اس کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

احادیث مبارکہ میں بھی عفو درگزر کرنے والوں کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ خود لوگوں کو معاف فرمانے والے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس معاف کرنے والے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع یعنی عاجزی کرے الله پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جھک جائے یعنی معافی مانگ لے اپنی غلطی تسلیم کر لےتو اس کی عزت ہر گز کم نہیں ہوگی بلکہ بارگاہ الہی میں بڑھے گی۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے رب سے پوچھا: آپ کے بندوں میں سے تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: رسول الله ﷺ نہ تو عادتا بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفا نہ بازاروں میں شور کرتے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دہتے تھے بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ پر ظالموں نے طرح طرح کے ظلم کئے لیکن آپ نے بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں معاف فرمایا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا مانگی۔

جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر مکہ میں

عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان کیا

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول الله وہ کونسی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق توڑےتم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

نہیں سرکار ذاتی دشمنی میری کسی سے بھی

مری ہے نفس و شیطان سے لڑائی یا رسول اللہ

قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر الله پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کس لئے اجر ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

سبحان اللہ دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے کے تو کیا کہنے اللہ رب العزت ہم سب کو دوسروں کی غلطیاں اور قصور جرم اپنی رضا کے لیے معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسطے اٹھیں

بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یارب