اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ جس
کا معنی یہ ہے کہ خطاکار اور عذاب کے مستحق کو معاف فرمانے والا اور بندوں کی
نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزرکرنے والا، غلطی اور نافرمانی ہونے پر بھی
رحم فرمانے والا اور نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔
مے عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا مگر دل آزردہ تم نے ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر مگر تیری رحمت نے گوارہ
نہ کیا
تمام انبيا بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ
تعالیٰ کی صفت عفو کے مکمل نمونہ اور
آئینہ دار ہیں۔ آپ کی عملی زندگی و سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا کہ ہمارے
پیارے آقا ﷺ سب سے بڑھ کر درگزر فرمانے والے اور رحم فرمانےہیں درگزر فرمانے کی
روشن اور واضح دلیل و اضح ہے۔
قرآن پاک میں ہے: وَ
الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ
النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔ آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ غصے کو پی جانا اور لوگوں سے درگزر کرنا ایسا
بہترین عمل ہے کہ جو خوش نصیب مسلمان یہ عمل بجا لاتا ہے اس کا شمار اللہ پاک کے
نیک بندوں میں ہوتا ہے۔
حضور سید عالم ﷺ نے فتح مکہ کےدن عام معافی کا
اعلان فرمایا مکہ والوں کو معاف کر دیا، طائف والوں کو معاف فرما دیا آپ کی زندگی
ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے آقا ومو لا ﷺ کی احادیث مبارکہ سے ہمیں جو ہدایات عطا
فرمائی گئی ہیں ان میں کچھ یہ ہیں:
عفو درگزر کے فضائل:
1۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص
میں ہونگی اللہ پاک اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور کو اپنی رحمت سے جنت
میں داخل فرماے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ ! وہ کونسی
باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کر ےتم اسے عطا کرو۔ جو تم سے تعلق توڑے تم اس
سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
2۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرما تی ہیں: آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا،
سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا
لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور
اللہ کے لیے اس کاانتقام لیتے۔
3۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کی: تیرے بندوں
میں سے تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو بدلے کی
طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)
4۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے
دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)
ایک دوسرے کو معاف کردینے کا عمل ہی حقیقت میں تمام
افراد معاشرہ کو در پیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ معافی کی
صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں
بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کارجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کےباوجود
لوگوں کی تلخیوں، زیادتیوں اور مظالم کو معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہےجیسےکریم آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ پاک عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث:
2588)
5۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ
پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل جاے پوچھاجائےگا: کس کے لیے اجر ہے
؟ اعلان کرنے والا کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی
کھڑے ہوں گےاور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)
حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے
لیے مشعل راہ اور کامل نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری حیات مقدس عفو و درگزر اور
رواداری سے بھرپور ہے اور اسوہ حسنہ کا اعلی نمونہ بھی ہے۔لوگوں کو معاف کرنا کس
قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان
شاءاللہ اس کی برکت سےجنت کی خوشخبری سے
نوازا جائے گا۔