عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا، بخش
دینا، درگزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔ الله پاک ارشاد
فرماتا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز
الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ
پھیر لو۔
عفو و درگزر پر مشتمل فرامین مصطفیٰ:
1۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے
دن الله پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف
کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے
گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حديث: 7062)
3۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی
یارسول الله ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ ﷺ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال
دہرایا آپﷺ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی،
3/381،
حدیث:1956)
4۔ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا
قصور معاف کرے تو الله تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو الله پاک کے لئے
عاجزی اختیار کرے الله اسے بلند فرمائے گا۔
(مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
5۔ تین باتیں جس شخص میں ہوگی الله کریم قیامت کے
دن اس کا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔
صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی: یا رسول الله ﷺ وہ کونسی تین باتیں ہیں؟ فرمایا:
جو تمہیں محروم کرے اس کو عطا کرو اورجو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو جو تم پر
ظلم کرے تم اسکو معاف کر دو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
ہم نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل
ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاءالله اس کی برکت سے جنت کے خوشخبری سے نوازہ جائے گا
کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی
نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کر کے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں مگر افسوس
آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچا دے یا ذرا سی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے
تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ دیتے ہیں اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور
مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمارے پیارے پیارے آقا
ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے بلکہ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے