عفو و درگزر ایک عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی
ہے معاف کرنا، گریز کرنا یا مٹانا اصطلاح میں اس کے معنی کسی کے غلط رویے یا ظلم
کرنے کے پاداش میں طاقت اختیاری کے باوجود بھی اسے معاف کر دینا عفو و درگزر
کہلاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں
اکثر جگہ مومن و اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے عفو و درگزر کے بارے میں ارشاد فرمایا
ہے: فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس
تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ
الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔
پیارے نبی ﷺ کا عفو و درگزر سے کام
لینا: عفو
درگزر ایک ایسی صفت ہے جس سے اسلام کے پھلنے میں روانی آئی تھی، آپ ﷺ پر ہونے والے
ظلمات اور آپ کا مقام طائف، صلح حدیبیہ، فتح مکہ و بہت سے جیتے ہوئے غزوات میں
لوگوں کو یوں معاف کرنا یقیناً پورے امت مسلمہ کے لئے بہترین نمونے ہے سمجھنے کے
لئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: آپ ﷺ نہ تو عادتاً بری باتیں
کرتے تھے اور نہ تکلفاً، اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا
بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/
409، حدیث: 2023)
عفو و درگزر کی فضیلت:
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب
العزت! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: جو بدلہ لینے کی قدرت
کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)
خاتم الانبیاء ﷺ کا ارشاد پاک ہے: صدقہ دینے سے مال
کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت
ہی بڑھائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا
اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)
ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: یا
رسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ ارشاد فرمایا: روزانہ ستر بار۔ (ترمذی،
3/ 381، حدیث: 1956) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عربی میں
ستر 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لئے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو۔ (مراۃ
المناجیح، 5/170)