عفو کے لغوی معنیٰ: معاف کرنا، درگزر کرنا، بدلہ نہ
لینا کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عفو سے مراد دوسروں کی برائی اور زیادتی کے بدلے
میں طاقت ہونے کے باوجود بدلہ نہ لینا اور درگزر کرنا ہے۔
الله خود اپنے بندے کی خطائیں معاف کرتا ہے اور
قصوروار سے درگزر فرماتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے بندوں کو بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ
وہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دیا کریں۔ ارشاد ربانی ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں
تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
2۔ جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے۔ تو اس وقت ایک
منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل
ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے؟ جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے
گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف
کرنے والے ہیں۔ (معجم الاوسط، 1/542،
حدیث: 1998)
3۔ معاف کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،
حديث: 7062)
ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ
کی
کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود
4۔ قیامت کے دن عرش کے درمیانی حصے سے ایک منادی
اعلان کرے گا: اے لوگو! سنو، جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے اسے چاہئے کہ وہ کھڑ
اہو جائے،تو اس شخص کے علاوہ اور کوئی کھڑا نہ ہو گا جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا
جرم معاف کیا تھا۔ (معجم الاوسط، 1/542،
حدیث: 1998)
5۔ میں نے معراج کی رات اونچے محلات دیکھے۔ تو
پوچھا: اے جبرائیل! یہ کس کے لیے ہیں؟ عرض کی ان کے لیے جو لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔
(مسند الفردوس، 1/405، حدیث:3011)