اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ جس
کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا
اور اس کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزرکرنے والا جرم، غلطی اور نافرمانی
کےبا وجود سخت برتاؤ کے بجائے نرمی ومحبت سے پیش آنے والا۔تمام انبيا بالخصوص خاتم
الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفت عفو
کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سب سے
بڑی روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم میں سے ایک پیغمبر
آیا جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی اور اچھائی کا خواہاں
ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔
بدلہ لینے کا حکم:
اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا
بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہونا
چاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا
ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کر دینے کو ترسیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے
والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ
اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ- (پ 25، الشوری: 44) ترجمہ: برائی
کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس
کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
پیارے آقا ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کر دیا، طائف
والوں کو معاف کر دیا، حضرت عائشہ صدیقہ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کر
دیا۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
عفو درگزر کے فضائل:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: آپ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی
سبیل اللہ کے اور کبھی آپ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی
حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس
کاانتقام لیتے۔
اللہ کے نزدیک ترین شخص: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہ
خداوندی میں عرض کی: آپ کے بندوں میں سے آپ کےنزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ
تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/
319، حدیث: 8327)
معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث: اگر
کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقینا اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن
دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ
ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ایک دوسرے کو معاف کردینے کا عمل ہی دراصل تمام
افراد معاشرہ کو در پیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ معافی کی
صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں
بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کارجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کےباوجود
لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتے
ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم،
ص 1071، حدیث: 2588)
نبی اکرم ﷺ کی عملی رواداری اور عفو و درگزر کی
امثال حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے لیے مشعل راہ اور کامل
نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری زیست مقدس عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے
اور اسوہ حسنہ کا جزو لاینفک بھی ہے۔