لوگوں سے درگزر کرنے کی فضیلت:

(1) پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں اللہ کریم (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا:(1)جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو،(2)جو تم سے تعلّق توڑےتم اس سے تعلّق جوڑو اور(3)جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط،4/18،حدیث: 5064)

(2)فرمایا:قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا اجر اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کے لیے اجر ہے؟اعلان کرنے والا کہے گا:ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث:1998)

(3)فرمایا:جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

(4) فرمایا:ہر دور میں میرے بہترین امّتیوں کی تعداد پانچ سو(500)ہے اور ابدال چالیس(40) ہیں، نہ پانچ سو(500) سے کوئی کم ہوتاہے اور نہ ہی چالیس(40) سے، جب چالیس(40) ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توربّ کریم پانچ سو(500) میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرّر فرماتا اور یوں40کی کمی پوری فرمادیتا ہے،عرض کی گئی:ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے۔فرمایا: ظلم کرنے والے کو معاف کرتے،برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور اللہ پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،1/ 39، حدیث: 15)

(5)ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی:یارسول اللہ ﷺ !ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال دہرایا، پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ المناجیح،5/170)

لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شآء اللہ اس کی برکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے، یا ذرا سی بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوڑدیتے، اس کے دشمن بن جاتے اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر ہم رحمت کونین، نانائے حسنین ﷺ کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے، چنانچہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اکرم ﷺ نہ تو عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلّفاً،نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اورنہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ ﷺ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

معاف کرنے میں بڑی رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ غرور و تکبّر بھی ہے۔ تکبّرکی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات للرّاغب، ص697) تکبّر میں مبتلا انسان لوگوں کو معاف کرنے کو اپنی بے عزّتی تصوّر کرتا ہے،وہ سمجھتا ہے کہ معاف کرنا میرے وقار کے خلاف ہے،اس طرح تو میری شان گھٹ جائے گی،لوگ کیا کہیں گے وغیرہ۔یاد رکھئے! معاف کرنے سے ہرگز عزّت میں کمی نہیں آتی بلکہ پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے،چنانچہ نبیّ کریم ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے:صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقصور معاف کرے تو اللہ پاک اس(معاف کرنے والے کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع(یعنی عاجزی)کرے،اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھارہے تھے، غلام گرما گرم شوربے کا پیالہ لا رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا جس کی وجہ سے شوربے کی چھینٹیں آپ پر بھی آئیں۔یہ دیکھ کر غلام گھبرایا اور شرمندگی بھرے لہجے میں اس نے سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر134 کی تلاوت کی جس کی ترجمہ یہ ہے: اور غصّہ پینے والے او ر لوگو ں سے درگزرکرنے والے۔ آپ نے فرمایا: میں نے معاف کیا۔ غلام نے پھر اسی آیت کا آخری حصّہ پڑھا: اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تجھے اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ (تفسیر روح البیان، 2/ 95 ملخصاً)

سبحٰن اللہ! اللہ کریم کے نیک بندوں میں معاف کرنے کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی نفس کی خاطر غصّہ کرنے کے بجائے لوگوں کو معاف کرکے خوب خوب ثواب کمائیں۔

اللہ پاک اپنے پیارے محبوب ﷺ کے عفو و درگزر کے صدقے ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے والا بنا دے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ