قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- (پ 4، اٰل عمران: 159) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشوره ان سے کیا کریں۔

عفو ودرگزر کی اہمیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تمام مسلمانوں پر لازم ہے، اسلام رواداری، اخلاقیات اور دوسروں کو معافی کا درس دیتا ہے۔ اس لیے معاف کرنے والا بہترین مسلمان ہوتا ہے۔

1۔ کھلے دل سے معاف کریں: اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کی درمیانی چیزوں کو بغیر حکمت کے پیدا نہیں کیا، اور قیامت ضرور آنے والی ہے پر تو ان سے خوش خلقی کے ساتھ کنارہ کر۔

2۔ مفاہمت کا انعام: قرآن کریم میں ارشاد باری تعٰالٰی ہےاور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پس جس نے معاف کر دیا اور صلح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

3۔ صبر اور معافی لائق تحسین ہیں: اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔

4 معاف کرنا اللہ پر ایمان لانا ہے: پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔

عفودر گزر احادیث کی روشنی میں:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آزمائش جتنی سخت ہوتی ہے اس کا بدلہ بھی اتناہی بڑا ملتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو اس کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے، پھر جو اس آزمائش پر راضی رہا (یعنی صبر سے کام لیا) تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اس پر ناراض ہوا (یعنی بےصبری کا مظاہرہ کیا) تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/374، حدیث: 4031)

2۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے کسی بھائی پر اس کی عزت و آبرو یا کسی اور حوالے سے ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اس ظلم کو معاف کروالے، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ دینار کام آئے اور نہ در ہم۔ اگر اس شخص کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی ہوئی تو ظلم کے بقدر وہ نیکی چھین لی جائے گی (اور مظلوم کو دے دی جائی گی) ، اور اگر اس کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہو تو پھر مظلوم کی برائیاں اس (ظالم) کے نامہ اعمال میں ڈال دی جائیں گی۔ (بخاری، 2/128، حدیث: 2449)

3۔ جو شخص غصے کو پی جائے، جبکہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے کہے گا کہ وہ جس حور عین کو چاہے، اپنے لیے پسند کرلے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاف کرنے اور عفو درگزر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔