" الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔" (جامع الترمذی، کتاب الزھد، باب الرجل علی دین خلیلہ، الحدیث:۲۳۷۸،ص۱۸۹۰)

حدیث پاک کے اِن عمدہ ترین جملوں پر غور کرتے ہوئے اشخاص کی صحبت ودوستی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زیر مطالعہ کتب کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کتاب بھی ایک دوست کی حیثیت رکھتی ہے اور جیسے اچھے اور برے اشخاص ہوتے ہیں ایسے ہی اچھی اور بری کتب بھی ہوتی ہیں۔لہٰذا انسان کے لئے جاننا ضروری ہےکہ مطالعہ کے لیے کونسی کُتب کا انتخاب کرے جو اس کے لیے بہترین دوست ثابت ہوں۔

صحبت کس کی اپنائی جائے؟

چونکہ کتاب بھی ہماری مصاحب ہوتی ہے اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی قابل مطالعہ کتاب "احیاء العلوم"میں صحبت اختیارکرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: "ایسے شخص کی صحبت اختیار کی جائے جس میں درج ذیل پانچ خصلتیں ہوں: (۱) عقل مند ہو (۲) اچھے اَخلاق کا مالک ہو،(۳) فاسق نہ ہو (۴) گمراہ نہ ہواور (۵) دنیا کا حَرِیص بھی نہ ہو۔(احیاء العلوم مترجم،ج2،ص617،مکتبۃ المدینہ)

مذکورہ خصلتوں کی وجوہات:

(1)عقل مند: کیونکہ بےوقوف کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا،اوریہی حال بے فائدہ کتب کا بھی ہے جنہیں پڑھنے سے وقت تو صَرف(یعنی استعمال) ہوجاتا ہے لیکن فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔

(۲)اچھے اَخلاق کا مالک ہو: کیونکہ بہت سے عقلمندوں پرجب غصہ، خواہش، بخل یا بزدلی غالب آجائے تو وہ اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔اسی طرح مطالعہ کے لیے بھی اسی کتاب کا انتخاب کیا جائے جو بُرے َاخلاق کے لیے بیج کا کردار ادا نہ کرے۔

(۳)فاسق نہ ہو : کیونکہ فسقیہ کتب اور افراد کی وجہ سے طبیعت فسق وفجور کی طرف مائل ہوتی ہے جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے،بالخصوص عورتوں کو تو ایسی کتب دیکھنی بھی نہیں چاہیے چنانچہ سیدی اعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ خاص بیٹیوں کے حوالے سے لکھتےہیں: زمانہ تعلیم میں ایک وقت کھیلنے کا بھی دے کہ طبیعت نَشاط (چُستی ) پر باقی رہے۔ مگر زِنہار ۔۔۔۔۔! زِنہار ۔۔۔۔۔ ! (ہر گز ہر گز ) بری صحبت میں نہ بیٹھنے دے کہ یارِ بد مار ِبد (بری صحبت زہریلے سانپ) سے بد تر ہے ۔نہ ہر گز ہر گز " بہارِ دانش، "مینا بازار"، " مثنوی غنیمت" وغیرہا کتبِ عشقیہ وغزلیاتِ فسقیہ دیکھنے دے(یعنی عشق مجازی پر مشتمل کتابوں اور فسق وفجور سے بھرپور غزلوں کو نہ پڑھنے دے)

کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے۔صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو'' سورہ یوسف شریف ''کا ترجمہ نہ پڑھایا جائے کہ اس میں مکرِ زناں ( عورتوں کی خفیہ چالوں) کا ذکر فرمایا ہے ، پھر بچوں کو خُرافاتِ شاعرانہ (مبالغہ آمیز بیہودہ باتوں)میں ڈالنا کب بجا ہو سکتا ہے ۔( اولاد کے حقوق؛ص25،مکتبۃ المدینہ)

(۴)گمراہ نہ ہو: کیونکہ گمراہ کی صحبت اپنانے سے خود گمراہ اور بدبخت ہوجانے کاقوی اندیشہ ہے۔اوربعینہ یہی حال گمراہ کُن کتب کا ہے کہ عقائد وافکار بدلنے میں دیر نہیں لگاتیں لہٰذا ان سے بچنابہت ضروری ہے۔

(۵)دنیا کا حَرِیص بھی نہ ہو: کیونکہ دنیا کے حریص کی صحبت دنیا کی حرص پیدا کرے گی اور فکر آخرت سے دور کرے گی اور یہی معاملہ کتب کا بھی ہےکہ جیسی کتاب ہوگی ویسی طبیعت بننے گی۔

مذکورہ معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے جو ہمارے لیے واقعی بہترین دوست ثابت ہو۔چند اچھی کتابوں کے نام پیش خدمت ہیں: تفسیرصراط الجنان،مراٰۃ المناجیح،بہارِشریعت،فتاویٰ رضویہ،احیاء العلوم،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب اور سیرتِ مصطفیٰ۔( مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح اور فتاویٰ رضویہ کے علاوہ باقی کتب مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ ہیں)

اللہ پاک ہمیں کتابوں کی صورت میں بہترین دوست نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم