حضرت عبد اللہبن
عمر رضی اللہُ عنہ فرماتے
ہیں : جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت
کرنا، اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے
پہلے۔ (بخاری )
ہم اپنی روز
مرّہ زندگی کے بہت سے کام کل پر ڈال دیتے ہیں اور وقتی طور پر سکون حاصل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اپنے آپ ہی کو آزمائش میں ڈالنا ہے کہ اگلے دن وقت
کی کمی کی وجہ سے کام پورا نہیں ہو پاتا یا سخت تھکاوٹ و پریشانی کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ لحاظہ ہمیں اس بری عادت سے بچنا چاہیے کہ آج نہیں تو کل اس مشکل مرحلے سے
ضرور گزرنا ہوگا اور چاہے کیسا ہی مشکل کام ہو اسے وقت پر کرنا چاہیے ، تاکہ زندگی
کی مشکلات سے بھی لڑنا آئے ۔ آج کا کام کل پر ڈالنا وقت کے ضائع کرنے کا بھی سبب
ہے کہ سستی و کاہلی کی وجہ سے مشکل کام کو کرنے سے جی چرانے اور ٹال مٹول کرتے
رہنےسے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ نیکی کے کاموں میں سستی کی وجہ سے ثواب سے
محرومی بھی ہے۔ اسی لیے وقت کی قدر و اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔
زندگی کی ہر سانس ”انمول ہیرا“ ہے، کاش! ایک ایک
سانس کی قدر نصیب ہو جائے کہ کہیں کوئی سانس بے فائدہ نہ گزر جائے ۔ (انمول ہیرے ،
ص ١٥)
وقت کی قدروقیمت کی اہمیت اسوقت حاصل ہوتی ہے جب
وہ ہاتھ سے نکل جائے اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ رہے۔ کیونکہ وقت ایک ایسا پرندہ ہے
جو ایک مرتبہ اُڑھ جائے تو لوٹتا نہیں ۔
اللہ تعالٰی کی تمام نعمتوں میں سے ایک
نعمت وقت ہے اورنعمت کی قدر اس کے زوال (یعنی ختم ہونے ) کے بعد ہوتی ہے لہٰذا اس
وقت کو قیمتی بناتے ہوئے نیکیوں میں گزاریئے ۔ (امیر اہل سنت )
وقت کی اصلی قدر جاننے کے لیے بزرگانِ دین کی سیرت
کا مطالعہ کیا جائے تو انکی کثرتِ عبادت وریاضت ، دینی خدمات اور قربِ خداوندی
پانے میں وقت کی پابندی کرنا بھی ایک سبب تھا ۔
اعلٰی حضرت رحمۃُ اللہِ
علیہ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ وقت بالکل ضائع نہیں
فرماتے تھے ، بلکہ اکثر علمی کاموں میں ہی مصروف رہتے ۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ، ٢٠٦/١ بتغیر
قلیل )
اللہپاک ہمیں بھی
وقت کی قدر کرنے اور اپنے کاموں کو اپنے وقت پرکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم