حدیث
کا لغوی معنی :
لفظ حديث حدث سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہيں کسی چيز کا رونما ہونا، بعد میں لفظ حدیث
گفتگو یا کلام کے معنی میں استعمال ہونے
لگا۔
حدیث
کا اصطلاحی معنی :
سرکارِ دوعالم صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول فعل اور
تقریر ،صحابہ کرام علیہم الرضوان کے قول ،فعل، تقریر اور تابعین کے قول فعل اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے۔
حدیث
مبارک کی اہمیت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ:
وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-
اورجو کچھ تمہیں
رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ
(سورہ حشر، آیت ۷)
اس آیتِ مبارکہ سے
معلوم ہوا کہ رب کریم عزوجل نے اپنے محبوب صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر طریقے،
راستے اور ہر وہ چیز جس سے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم منع فرمادیں ہر صورت میں اس سے رکنے اور حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیرو ی کرنے
کا حکم دیا ہے۔
حدیث
شریف کی حیثیت:
احکامِ شریعت کو بھی
حدیث سے ثابت کیا جاتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قران مجید میں
حدیث کی حیثیت کوبیان فرمایا ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا
ہے:
’’آپ کے رب کی قسم
یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں آپ کو اپنا حاکم
تسلیم نہ کرلیں۔
ایک واضح بات:
یہ بات ہر شخص پر
ظاہر اور واضح ہے کہ احکام شریعت کا پہلا سرچشمہ قرآنِ عظیم ہے کہ وہ خدا تعالیٰ
کی نازل کردہ کتاب ہے اور قرآن ہی کی یہ صراحت اور وضاحت رسول خدا کی اطاعت و
ابتاع ہے۔
پیارے آقا صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر حدیث قابل
عمل ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنی زندگی گزارنے کے لئے علمِ حدیث سیکھنا اور اس پر
عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ تقریبا زندگی کے تمام تر معاملات کا صحیح طور پر طریقہ
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کثیر احادیثوں میں ملتا ہے۔
قرآن
کی تشریحات سے باخبر ہونے کا ذریعہ :
بغیر اتباع رسول کے احکامِ الہی کی تفصیلات کا
جاننا اور قرآنی آیات کو سمجھنا ناممکن ہے اس لئے اب لامحالہ حدیث بھی اس لحاظ سے
احکام شرع کا ماخذ قرار پا گئی کہ رسول خدا کے فرامین ان کے اعمال افعال اور آیات ِقرآنیہ
کی تشریحات سے باخبر ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔