رمضان المبارک کا پیارا پیارا میٹھا میٹھا مہینا اپنی عظمت و برکت،فضیلت و اہمیت اور رحمت و مغفرت کے اعتبار سے دوسرے تمام اسلامی مہینوں سے ممتاز ہے۔اسی مہینے میں اللہ پاک نے قرآنِ کریم کو نازل فرما کر اسے سعادتوں کی معراج عطا فرمائی۔اسی بابرکت مہینے میں اللہ پاک نے جنت کے دروازوں کو کھول دیا اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا۔رمضان المبارک کی فضیلت،اہمیت، برکت اور رحمت کی بنا پر ہی ہمارے پیارے آقا ﷺ بھی رمضان المبارک کی تشریف آوری سے قبل ہی اس کی تیاری میں مصروفِ عمل ہو جایا کرتے تھے۔جب رمضان المبارک کی تشریف آوری ہو جاتی تو پیارے آقا کریم ﷺ عام دنوں کی بنسبت عبادات و  ریاضات،تلاوتِ قرآنِ کریم اور ذکر و اذکار میں زیادہ مصروف ہو جایا کرتے تھے۔اب ہم بھی اپنے آقا کریم ﷺ کے رمضان المبارک میں کیے جانے والے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دلوں کو تقویت بخشیں گی۔اے کاش!رسول اللہ ﷺ کی ہر ہر سنت کو ہر مسلمان اپنانے میں کامیاب ہو جائے ۔امین بجاہِ خاتِم النبی الامین ﷺ

رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت حدیثِ مبارک کی روشنی میں:

عَنْ اَبِی هُرَيْرَةَرَضِیَ اﷲ عَنْہُ عَنِ النَّبيِّ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِیعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسولُ اﷲ ﷺ نے ارشادفرمایا:جس نے ایمان اور ثواب کی اُمِّید پر ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔(مسند احمد،3/333،حدیث:9011)

معلوم ہواکہ جس نےرمضان کے روزہ رکھےاﷲپاک اس کےتمام صغیرہ گناہ معاف فرما دیتا ہے مگر اس فضیلت کا حق دار وہی مسلمان ہو گا جو ایمان والا ہو اورحصولِ ثواب کے لئے روزہ رکھے،کیونکہ عمل کی قبولیت کے لئے ایمان و اخلاص شرط ہے۔چنانچہ اشعۃ اللمعات جلد 2 صفحہ77 پر ہے:جوشخص اﷲ پاک پرایمان رکھتے ہوئے،اس کے احکام وفرامین کی بجا آوری کے لئے اور اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے اجر و ثواب کی امید پرایک دن کاروزہ رکھے تو اﷲ پاک اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔(اشعۃ اللمعات،2/77 ملخصاً)

مراۃ المناجیح میں ہے:جس روزہ کے ساتھ ایمان اور اخلاص جمع ہوجائیں اس کا نفع تو بے شمار ہے،دفعِ ضرریہ ہے کہ اس کے سارے صغیرہ گناہ اورحقوقُ اﷲمعاف ہوجاتے ہیں۔جوشخص بیماری کے علاج کے لیے روزہ رکھے نہ کہ طلبِ ثواب کے لیے تو کوئی ثواب نہیں۔(مراۃ المناجیح،3/134ملتقطاً)

گناہوں کی معافی: احادیثِ مبارکہ میں جہاں مختلف اعمال کی بجا آوری پر گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہوتی ہے وہاں صغیرہ گناہوں کی معافی مراد ہوتی ہے۔چنانچہ دلیل الفالحین میں ہے :اعمالِ صالحہ کی برکت سے وہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں جوحقوقُ اﷲسے متعلق ہوں۔(دلیل الفالحین،4/30،تحت حدیث::1217) مرآۃ المناجیح میں ہے:اس طرح کے نیک اعمال سے صغیرہ گناہ معاف ہو تے ہیں اور کبیرہ گناہ صغیرہ بن جاتے ہیں ۔ اور جن بندوں کے گناہ ہی نہ ہوں ان کے درجات بلند کردئیے جاتےہیں۔رمضان میں روزوں کی برکت سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تراویح کی برکت سے کبیرہ گناہ خفیف ہوجاتے ہیں اور شبِ قدر کی برکت سے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔(مراۃ المناجیح،3/134ملخصاً)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رمضان المبارک کے چاند کی مبارک باد:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم،رحمتِ عالم،نورِ مجسم ﷺ اپنے صحابہ کرام کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کا مہینا آگیا ہے جو کہ بہت ہی بابرکت ہے۔ اللہ پاک نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں۔اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔نیز سرکش شیطانوں کو قید کر لیا جاتا ہے۔اس میں ایک رات شبِ قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ جو اس کی بھلائی سے محروم ہوا وہی محروم ہے ۔ (نسائی،ص355،حدیث:2103)

رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں اندازِ سخاوت اور دورۂ قرآنِ کریم:وَعَنِ ابنِ عباس قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ،وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُوْنُ فِيْ رَمَضَانَ، كَانَ جِبْرِيْلُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِيْ رَمَضَانَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهٗ جِبْرِيْلُ كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِحضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ تمام سے بڑھ کر ہر بھلائی کے سخی داتا تھے1۔آپ رمضان میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے2 ۔ہر رات جبریلِ امین آپ سے ملتے تھے۔نبیِ کریم ﷺ حضرت جبریل پر قرآن پیش فرماتے تھے3۔تو جب آپ سے جبریل ملتے تب آپ بھیجی ہوئی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی بالخیر ہوتے تھے( بُخاری،1/ حدیث:6)

1-ہمیشہ ہی مال کی،اعمال کی ،علم کی،ہر رحمتِ الٰہیہ کی سخاوت کرتے تھے۔حضور انور ﷺ کی سی سخاوت آج تک نہ کسی نے کی نہ کوئی کرسکتا ہے۔حضور انور ﷺ اللہ کی صفتِ جواد کے مظہر ِاتم ہیں۔قرآنِ کریم نے حضور انور ﷺ کو کریم یعنی سخی داتا فرمایا۔

2- ماہِ رمضان میں تو کسی کو کسی طرح رد فرماتے ہی نہ تھے،جنت مانگنے والوں کوجنت، رحمت کے سائلوں کو رحمت،خودحضور انورﷺ سے حضور کو مانگنے والوں کو اپنی توجہ کرم،مال مانگنے والوں کو مال،اعمال،کمال، لقائے ذوالجلال غرضیکہ جو سائل جو مانگتا تھا منہ مانگی پاتا تھا۔بعض عشاق اب بھی رمضان میں حضور انور ﷺ سے ہر چیز مانگتے ہیں۔مسلمانوں کو بھی رمضان میں بہت سخاوت کرنی چاہیے کہ یہ سنتِ رسول ہے۔

3-یہاں مرقات نے فرمایا کہ ہر رمضان میں حضور انور ﷺ حضرت جبریل کے ساتھ اول سے آخر تک سارا قرآن مع تجوید و مخارجِ حروف کے دور فرماتے تھے ۔اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ رمضان میں دورِ قرآن کرنا یا قرآن کا دورہ کرنا سنتِ رسول بھی ہے اور سنتِ جبریل بھی۔ دوسرے یہ کہ حضور انور ﷺ اول ہی سے سارا قرآن جانتے ہیں۔نزولِ قرآن تو امت پر احکام جاری کرنے کیلیے ہوا،کیونکہ ہر رمضان میں حضور انور ﷺ پورا قرآن سن بھی رہے ہیں اور حضرت جبریل کو سنا بھی رہے ہیں،حالانکہ ابھی سارا قرآن نازل نہیں ہوا تھا،نزول کی تکمیل تو وفات سے کچھ پہلے ہوئی۔

4-یعنی جیسے ہوا کی سخاوت پر عالم قائم ہے کہ ہر شخص ہوا سے ہی سانس لیتا ہے اور ہوا ہی سے بارش آتی ہے،ہوا سے ہی کھیت و باغ پھلتے پھولتے ہیں، پھر ہر جگہ ہوا موجود ہے، ہر جاندار وغیر جاندار کو ہر طرح فیض پہنچاتی ہے، ایسے ہی حضور انور ﷺ ملاقاتِ جبریل کے موقعہ پر ہر ایک کو ہر طرح ہرچیز دیتے تھے۔ خیال رہے کہ رب کریم رمضان میں بہت جودو کرم فرماتا ہے،اس سنتِ الہٰیہ کے مطابق حضور انور ﷺ بھی رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے،ہوئے جو رب کریم کے مظہر اتم ﷺ۔(مراۃ المناجیح،/213)

رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں خصوصیت کے ساتھ اہتمام:وَعَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهٗ، وَأَحْيَا لَيْلَهٗ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهٗ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے ،فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ ﷺ کمر بستہ ہوجاتے1۔راتوں کو خود جاگتے اور گھر والوں کو جگاتے

(مسلم،ص462، حدیث: 2787)

1-میزر ازار سے بنا،بمعنی تہبند یا پائجامہ،لفظی معنے ہوئے اپنا تہبند باندھ لیتے۔ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد ہے شاق کاموں کے لیے تیار ہوجاتے جیسے کہا جاتا ہے اٹھ باندھ کمر کیا بیٹھا ہے۔ ہوسکتاہے کہ مقصد یہ ہو کہ حضور انور ﷺ اس زمانہ میں ازواج ِپاک سے قطعًا علیحدہ رہتے، اعتکاف کی وجہ سے بھی اور زیادہ عبادتوں میں مشغولیت کے سبب سے بھی۔

2-یعنی اس عشرہ کی راتوں میں قریباًتمام رات جاگتے تھے تلاوتِ قرآن ،نوافل،ذکر اللہ میں راتیں گزارتے تھے اور ازواجِ پاک کو بھی اس کا حکم دیتے تھے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حضور انور ﷺ نے تمام رات بیداری و عبادت کبھی نہ کیں۔خیال رہے کہ یہاں احیاءٌ سے مراد ہے عبادت کے لیے جاگنا اورلیلہ اس کا ظرف ہے یعنی رات بھر عبادت کے لیے جاگتے،ہوسکتا ہے کہ لیلہ مفعول بہ ہو یعنی رات کے اوقات کو اپنی عبادت سے زندہ کردیتے یا زندہ رکھتے۔ جو وقت اللہ کی یاد میں گزرے وہ زندہ ہے جو غفلت میں گزرے وہ مردہ۔(مراۃ المناجیح،3 ، /207)

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ آخری عشرہ میں اس قدر مشقت فرماتے تھے جو دیگر ایام میں نہ کرتے تھے1۔(مسلم،ص462،حدیث:2788)

1- حضور انورﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بھی کرتے تھے اور عمومًا شب بیداری بھی یا تو اس لیے کہ اس عشرہ میں شبِ قدر ہے یا ا س لیے کہ مہمان جارہا ہے الوداع سامنے ہے جو اوقات مل جائیں غنیمت ہے یا اس لیے کہ مہینا کا خاتمہ زیادہ عبادتوں پر ہو۔بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے میں دنیا سے کنارہ کرکے عبادت زیادہ کرتے ہیں کہ اب چلتا وقت ہے جو ہوسکے کرلیں۔

اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے

(مراۃ المناجیح،3 /207)

رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں قیام:عَنْ اَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وسَلَّم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ اَنْ يَاْمُرَهُمْ فِيْهِ بِعَزِيْمَةٍ فَيَقُوْلُ:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًاوَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اﷲ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اﷲ ﷺ قیامِ رمضان(یعنی تراویح) کی ترغیب دیتے تھے،تاکیداً اس کا حکم نہ دیتے اور فرماتے:جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیااس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئےجاتے ہیں۔

(مسلم،ص 298،حدیث:1780)

صغیرہ گناہوں کی معافی:مذکورہ اَحادیث میں قیامِ رمضان یعنی نمازِ تراویح کی فضیلت بیان کی گئی ہے، احادیثِ مبارکہ میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیامِ رمضان کرنے والے کے لئے فرمایا گیا کہ اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یعنی تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں گے کیونکہ گناہِ کبیرہ توبہ سے اور حقوقُ العباد حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں۔دوسری حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ رسولُ اﷲ ﷺ قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے تاکیداً اس کا حکم ارشاد نہ فرماتے۔یعنی آپ نے) تراویح کوفرض یا واجب نہ قرار دیالہٰذا اس سے یہ لازم نہیں کہ یہ سُنَّتِ مُؤکَّدہ بھی نہ ہوں۔

(مراۃ المناجیح،2/288)

اللہ کریم ہم سب کو رسول اللہ ﷺ کا صدقہ عطا فرمائے اور جس طرح پیارے آقا ﷺ رمضان المبارک کے ایام گزارا کرتے تھے ہم کو بھی اسی طرح رمضان گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین