Under the supervision of Dawat-e-Islami, a religious Halqah was conducted in Bradford Region, UK in previous days. 15 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual Halqah.

The female preacher of Dawat-e-Islami provided the information regarding the essential rulings of Fiqh and gave the Madani pearls on making Du’a. On the other hand, she motivated the attendees [Islamic sisters] to attend the weekly Ijtima’ regularly and take part in the religious activities. 


دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں   مظفر گڑھ میں مدنی مشورے کاانعقادہوا جس میں ملتان ریجن نگران ، مظفرگڑھ زون و کابینہ نگران اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

پاکستان سطح نگران اسلامی بہن نے’’ انفرادی کوشش کا طریقہ ‘‘ کے موضوع پر بیان کرتے ہوئےسالانہ ڈونیشن کارکردگی پر ذمہ داراسلامی بہنوں کی حوصلہ افزائی کی نیز تقرری کے اہداف، نئے دینی کام کے آغاز کا طریقہ اور کارکردگی جدول کی اہمیت پر نکات بتائے۔


Under the supervision of Dawat-e-Islami, weekly Sunnah-inspiring Ijtima’at were conducted from 19th to 23rd May 2021 at different places in London Region, UK. Approximately, 173 Islamic sisters had the privilege of attending these spiritual Ijtima’at.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Bayans on the topic ‘impeccable character of Ala Hazrat’, explained the attendees [Islamic sisters] the qualities of the impeccable character of Ala Hazrat and described his religious efforts. More so, she gave the attendees (Islamic sisters) the information about the religious activities of Dawat-e-Islami and encouraged them to keep associated with the religious environment of Dawat-e-Islami, attend the weekly Ijtima’ and take part in the religious activities.


Under the supervision of ‘Majlis area visit activity (Islamic sisters)’, an activity, namely ‘calling people towards righteousness’ was conducted in Hounslow (London Region, UK) over the phone in previous days. 5 Islamic sisters had the privilege of attending this great activity.

Responsible Islamic sister gave the attendees [Islamic sisters] the mindset of attending the weekly Sunnah-inspiring Ijtima’ and taking part in the religious activities, upon which Islamic sisters also expressed their good intentions.


Under the supervision of Majlis Islah-e-A’maal, an Islah-e-A’maal Ijtima’ was conducted on 24th May 2021 in Manchester (UK). 38 Islamic sisters had the privilege of attending this great Ijtima’.

Kabinah responsible Islamic sister (Majlis shrouding and burial) delivered a Sunnah-inspiring Bayan on the topic ‘importance of religious knowledge’, motivated the attendees (Islamic sisters) to acquire the religious knowledge and explained the religious and worldly benefits of acquiring the religious knowledge. Moreover, she gave them the mindset of becoming the practicing individuals of ‘Nayk A’maal’ and improving their Akhirah.


Under the supervision of Majlis Islah-e-A’maal, an Islah-e-A’maal Ijtima’ was conducted on 24th May 2021 in Coventry and Leicester (UK). Approximately, 43 Islamic sisters had the privilege of attending this great Ijtima’.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Sunnah-inspiring Bayans, gave the attendees (Islamic sisters) the information about the booklet, ‘Nayk A’maal’ and gave them the mindset of making accountability of their deeds and improving their Akhirah.


Under the supervision of Majlis Islah-e-A’maal, an Islah-e-A’maal Ijtima’ was conducted in Aylesbury and Willesden Green (UK) in previous days. Approximately, 27 Islamic sisters had the privilege of attending this great Ijtima’.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Sunnah-inspiring Bayans via Skype, explained the attendees (Islamic sisters) the details about the booklet, ‘Nayk A’maal’ and described the methods of acting upon ‘Nayk A’maal’ with ease. Moreover, she gave them the mindset of becoming the practicing individuals of ‘Nayk A’maal’.


Under the supervision of ‘Majlis shrouding and burial (Islamic sisters)’, a shrouding and burial Ijtima’ was conducted on 24th May 2021 in Chesham (London Region, UK). Approximately, 17 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual gathering.

Responsible Islamic sister (Majlis shrouding and burial) explained the attendees (Islamic sisters) the method of cutting the shroud, shrouding the deceased [Islamic sister] and giving Ghusl to the deceased [Islamic sister]. Moreover, she motivated them to attempt the shrouding and burial test and carry out the religious activities. Upon this, Islamic sisters also expressed their good intentions. 


روحانیت کا درست مفہوم

Tue, 1 Jun , 2021
2 years ago

انسان جب مادیت بھری زندگی،اس کی کثافتوں اور  الجھنوں سے تنگ آجاتا ہے……… اوراس کا دل عیش ونشاط سے بھرجاتا ہے……… توآخر کاروہ روحانیت،ذہنی سکون اوردل کے آرام کی تلاش وجستجومیں نکل کھڑا ہوتا ہے ……… روحانیت کیا ہے ؟………اس کی ضرورت واہمیت کیا ہے؟………اورانسان کو اس کی تلاش کیوں ہے؟………آئیے !ان سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔

لفظ ”روحانیت“روح سے بنا ہے اور روح کے معنی ہیں راحت ، سکون اور قرار لہٰذا روحانیت کا مطلب بنے گا ایسا عمل جس سے سکون حاصل کیا جائے………اللہ تعالیٰ نے جس طرح مادے کے ذریعے انسان کا ظاہری وجودبنایا ہے اسی طرح روح کے ذریعے ایک باطنی وجود بھی تخلیق کیا ہے ……… انسان کا ظاہری وجود ہاتھ، پاؤں، چہرہ، جسم ، دل، گردے پھیپڑے اور دیگر اعضا پر مبنی ہے جبکہ باطنی وجودایمان،نور،عقل،معرفت،غوروفکر، جذبات ، احساسات، خوشی ، غمی، بے چینی اور سکون جیسی کیفیا ت پر مشتمل ہے………دنیا کے مذاہب میں ہمیں روحانیت یعنی سکون حاصل کرنے کے جدا جدا طریقے نظر آتے ہیں جیسے کوئی یوگا کرتا ہے………کوئی مراقبہ کرتا ہے………کوئی جنگلات وویرانوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے ………کوئی غاروں کو اپنی آماجگاہ بناتا ہے……… کوئی پُرفضا مقامات کو مسکن بناتا ہے………اور کوئی دنیا کے شوروغل سے دُور سُنسان جگہوں کا متلاشی ہے الغرض مقصد سب کا ایک ہے کہ اپنی روح کو سکون وچین پہنچایا جائے ………مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسا کرنے سے کامل سکون حاصل نہیں ہوتا ………ان سب کے برعکس ہم جب اسلام کے تصور روحانیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک کامل تسکین دینے والا نظام نظر آتا ہے ۔چنانچہ،

اسلام میں روحانیت کامطلب اپنے خالق ومالک کا قرب ہے ……… پہلے بتایا جاچکا کہ انسان کے دو پہلو ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی ………مادی پہلو کا تعلق دنیا سے اور روحانی پہلو کا تعلق اللہ پاک سے ہے………انسان  کے روحانی اور مادی پہلو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں ہیں……… اگر انسان نے خدا کی قربت حاصل کرنی ہے  تو اسے اپنے مادی پہلو کو کچلنا ہو گا……… پس اگر انسان اپنے مادی پہلو کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ قرب الٰہی کو پا لے گا……… اور اگر وہ ا پنے مادی پہلو کو کچلنے میں ناکام رہا تو راہِ خدا سے بھٹک جائے گا………پھر یہ کہ جوبندہ رب کریم کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت کا مالک بن جاتا ہے ………ہمارے پیارے دین میں قرب الٰہی پانے کا مدار قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کرنے میں ہے ……… کیونکہ اب پوری انسانیت کے پاس دینی وآسمانی علوم کا سرچشمہ صرف قرآن کریم ہے اوران علوم کی کامل تشریح وتوضیح حضور خاتم الانبیاء ﷺ کا قول وعمل ہے………آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

تَرَكْتُ فِيْكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہٖترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑیں ہیں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔“ (موطاامام مالک،حدیث:1594)

ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں قربِِ الہٰی یعنی اسلامی روحانیت پانے کا راز کھول کر بیان کیا گیا ہے اسے یہاں بیان کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے حاصل نہیں کرتا(ایک روایت میں یوں ہے: میرابندہ کسی ایسی شئے سے میراقرب نہیں پاتاجوفرض کواداکرنے سے زیادہ پسندہو) اورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب میں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورمیں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگروہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضروردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:6502)

حضرت امام ابوعبداللہ محمدبن عمر المعروف امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وفات :606ھ) نے اس حدیث پاک کامعنی ومقصدیہ بیان فرمایاہے کہ جب بندہ اپنے آپ کواللہ ربُّ العزت کے عشق ومحبت والی آگ میں جلاکرفناکردیتاہے………نفسانیت وانانیت والازنگ اورمیل کچیل دور ہو جاتا ہے………اورانوارِالہٰیہ سے اس کابدن منورہوجاتاہے تووہ اللہ تعالیٰ کے انوارہی سے دیکھتا ہے………انہی کی بدولت سنتاہے ………اس کابولناانہی انوارکے ذریعے ہے ………اس کا چلنا ،پھرنااورپکڑنا،مارناانہی سے ہوتاہے ………امام رازی کے الفاظ یہ ہیں: ’’اِذَاصَارَ نُوْرُ جَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ سَمْعًا سَمِعَ ال ْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ بَصَرًارَأَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَا صَارَذَالِکَ النُّوْرُیَدًالَہٗ قَدَرَعَلَی التَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّہْلِ وَالْقَرِیْبِ وَالْبَعِیْدِترجمہ:اللہ پاک کانورِجلال جب بندۂ محبوب کے کان بن جاتاہے تووہ ہر آوازکوسن سکتاہے نزدیک ہویادور اور آنکھیں نورِجلال سے منورہوجاتی ہیں تودورونزدیک کا فرق ختم ہوجاتاہے یعنی ہرگوشۂ کائنات پیش نظرہوتاہے اورجب وہی نوربندہ کے ہاتھوں میں جلوہ گر ہوتا ہے توقریب وبعید اور مشکل وآسان میں اسے تصرف کی قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘( تفسیرکبیر، 7/436)

سچی بات ہے کہ اللہ رب العزت پر ایمان رکھنے والا بندہ جتنا زیادہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے………اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے اتنا زیادہ روحانیت وسکون حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکْرِ اللہِ ؕاَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ (پ13،الرعد:28)ترجمہ:وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(کنزالایمان)

اور اللہ تعالیٰ کی یاد یعنی ذکر الٰہی کی اعلی ترین قسم نماز ہے ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ (پ16،طٰہٰ:20)ترجمہ: اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔(کنزالایمان)

روحانیت کوتفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں روحانیت کے درج ذیل تین پہلووں کو سمجھنا ہوگا:

پہلا پہلو :اپنی ذات کی معرفت ۔دوسرا پہلو:اللہ تعالیٰ کی معرفت۔تیسرا پہلو:شخصیت کی تعمیر۔

پہلے اور دوسرے پہلو کا تعلق علم کے ساتھ ہے جبکہ تیسرے پہلو کا تعلق عمل کے ساتھ ہے………معلوم ہوا کہ پہلے دونوں معرفتوں کا حصول ہو اور پھران معرفتوں کے نتائج کو عملی شکل میں ڈھال کرانسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرے ……… لہذا انسان سب سے پہلے خود کوسمجھنے اور پہچاننے کی کوشش کرے تاکہ اُسے اپنے جذبات ، احساسات، خواہشات ، رغبتوں ، رحجانات ، شخصی کمزوریوں اور اچھائیوں کا پتا چل سکے……… پھر وہ جس قدر جانتا چلا جاتا ہے اُسی قدر اپنی ذات اور باطنی وجود کی معرفت وپہچان حاصل کرتا جاتا ہے………حضرت یحیٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ ترجمہ:جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب تعالیٰ کو پہچان لیا۔(صواعق محرقہ،2/379)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں پائی جانے والی ناتوانی وکمزوری اور کمی وکوتاہی کو پہچان لیتا ہے وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کا کوئی رب اور پالنے والا ہے جو کمال سے متصف ہے ،وہ ہر عیب سے پاک ہے اوراس کے سارے کام درست ہیں۔

اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے بعدروحانیت کا دوسرامرحلہ رب تعالیٰ کی معرفت ہے………اسلام اس مرحلے پر سب سے پہلا یہ درس دیتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لائے ………پھراس کی صفات کا اقرار کرے اور صفات کے ذریعے ہی بندے کو رب تعالیٰ کی ایک حد تک معرفت حاصل ہوتی ہے………واضح رہے کہ روحانیت کا یہ دوسرا پہلو ایک لحاظ سے پہلے پہلو سے جُڑا ہوا ہے………ان دونوں علمی پہلوؤں کے بعدبندہ روحانیت کے تیسرے پہلو کی طرف متوجہ ہوجائے ………اور وہ ہے شخصیت کی تعمیرو تہذیب………جب انسان نے اپنی ذات اور باطنی وجود کوپہچان کررب تعالیٰ کی یک گونہ معرفت حاصل کرلی اور زندگی کا مقصد واضح کرلیا تو اب ایک ایسی شخصیت کو تعمیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو ایسی تمام خرابیوں، بُرائیوں اوربداعمالیوں سے پاک ہو جن کی وجہ سے بندہ بارگاہِ الٰہی میں درجہ قبولیت پر فائز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے ۔

اسلام نے اس مرحلے پربندے کے لیے عبادات و اخلاقیات کا ایک سلسلہ رکھا ہے جس مِیں علم و عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں………ایک طرف عبادات جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ و حج کے ذریعے شخصیت کورب تعالیٰ سے جوڑا جاتا ہے تو دوسری جانب اخلاقیات اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے مخلوق سے اچھے تعلق کی بنیاد رکھی جاتی ہے……… الغرض ان تین پہلووں کے لحاظ سے روحانیت کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ پہلے اپنے ظاہروباطن کو پہچانے………پھر رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے ………اورپھراس معرفت کی بنیاد پر اپنی شخصیت کاتزکیہ وتصفیہ کرے ………یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنے ، سنوارنے اور اُس کی تعمیر کرنے کے لیے خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچائے……… رب کریم کی اطاعت کرے ………اور حضوراکرم ﷺ کے اتباع میں لگ جائے۔

اگر ہم صحابہ کرام ،تابعین عظام اور اولیائے امت کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی زندگیاں روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کے گرد گھومتی نظر آئیں گی………یہ حضرات ساری عمرخود شناسی ،خدا شناسی اور تزکیہ نفس میں بسر کردیتے ہیں……… اسلامی تصوف کی بھی یہی تعلیمات ہیں ………کہا جاسکتا ہے کہ تصوف وطریقت روحانیت کے حصول کا ایک مکمل نصاب(Complete Course)ہے ………تصوف کی اصطلاح میں جس شخصیت کو مرشد(شیخ/پیر/رہبر /استاد)کہتے ہیں وہ اپنے مریدوں اورشاگردوں کو سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنے کادرس دیتا……… تاکہ سب سے پہلے باطن میں پائی جانے والی خرابیوں سے آگاہی ہو………دل میں پائی جانی والی خواہشات،رغبتوں،میلانات وجذبات سے واقفیت حاصل ہو………اور بندہ اپنی ذات میں پائی جانے والی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرلے……… اوریوں روحانیت کا پہلا مرحلہ طے ہوجائے ………پھرکامل مرشد رب کریم کی ذات وصفات ، اُس کے کمالات اور اُس ذاتِ وحدہ لاشریک سے تعلق رکھنے والے عقائد ونظریات کی تعلیم دیتا ہے ………اور بتدرج اپنے مرید کو رب تعالیٰ کی شانوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ روحانیت کا دوسرا مرحلہ ذاتِ باری کی معرفت کا حصول طے ہوسکے ……… اور بندہ قربِ الٰہی کی منزلوں پر فائز ہوتا چلا جائے………اس کے بعد پیرومرشد انسان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے……… اور اسے نفس کُشی کے طریقے سکھاتا……… ظاہروباطن کی صفائی وپاکیزگی پر زور دیتا ہے ………اسلامی تعلیمات وشرعی احکامات پر عمل کے لیے ابھارتا ہے………خلق خدا پر شفقت ونرمی کا درس دیتا ہے……… انسانیت کی خدمت اوراُس کی فلاح وصلاح کی ضرورت سمجھاتا ہے………وہ اپنے مرید کے سامنے عاجزی وانکساری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے………الغرض اسلامی روحانیت ( یعنی قرب الٰہی)پانے کے لیے کسی کامل مرشد کا مل جانا خدا تعالیٰ کی بڑی زبردست نعمت ہے۔

قرآن وسنت روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کو جابجا بیان کرتے نظر آتے ہیں………دعوتِ توحید اور اقرار نبوت کے بعد حضرات انبیاء کرام بھی انسانوں کو ان تینوں پہلوؤں سے روشناس کراتے رہے……… اور بندوں کو بتاتے رہے کہ معرفت نفس،معرفت الٰہی اور تزکیہ نفس کرنے والے لوگ ہی دنیا وآخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں ………اور جو اس سے غفلت برتتے ہیں وہ دنیا میں تباہی اور آخرت میں عذابِِ الٰہی کا شکار ہوجاتے ہیں ………محسن انسانیت ، نبی رحمت ﷺ نے بھی اپنی امت کو یہ تعلیم دی ………اور انہیں رب تعالیٰ تک پہنچانے والا سیدھا راستہ بتایا……… پس جولوگ اس شاہراہِ صراط مستقیم پر گامز ن ہوگئے وہ کامیاب کہلائے……… قرآن پاک نے ان کے گُن گائے………زبانِ رسالت نے اُن کی سرخروئی پر مہرتصدیق ثبت فرمائی………خلق خدا نے اُن کی عظمتوں کا اعتراف کیا………دنیاو آخرت میں انہیں بشارتیں دی گئیں ………اورکسی کو صحابی،کسی کو تابعی اور کسی کو ولی اللہ کہا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبْدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴ترجمہ :سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(کنزالایمان)

آگے چل کر بندوں کو روحانیت کے حصول……… اور قرب الٰہی پانے کے طریقوں……… اور راستوں سے آگاہ کرنے کے لیے یہ سلسلہ اُمت کے صوفیااور اولیاکے ہاتھوں میں دیاگیا ………اور آج تک یہ مردانِ خدا اِس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں ……… خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بندہ نفسانیت،انانیت اور خواہشات کے بتوں کو پاش پاش کردے ……… عبادت،ریاضت اورفکرآخرت سے خودکو مزین کرے……… تقوی وپرہیزگاری کی سواری پر سوارہوجائے……… قربِِ الٰہی کی منزلوں تک پہنچانے والے اعمال مسلسل بجالائے اور اولیاء کرام وعلماء عظام کا ہمنشین بن جائے تو ایک وقت آئے گا جب وہ روحانیت سے سرفراز ہوجائے گا………ارشادِ ربانی ہے:

وَالَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹(پ21،العنکبوت:69)ترجمہ :اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔(کنزالایمان)

رب کریم ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے کراپنے قرب سے نوازے اوراپنے نیک بندوں کی صحبت ورفاقت عطا فرماکر روحانیت سے مالا مال کردے ۔ امین بجاہ طٰہٰ ویٰسین

محمد آصف اقبال مدنی

کراچی،پاکستان


پیارے اسلامی بھائیو!دنیا دارُ العمل ہے، اس میں جو اعمال کریں گے قیامت کے دن ان کا بدلہ ملےگا، نیک اعمال پر ثواب اور بُرے اعمال پر عذاب ہوگا، اپنی زندگی نیک اعمال میں گزارنے والے خوش جبکہ غفلت یا کفر و شرک میں گزارنے والے پریشان ہوں گے،وہاں ایک چھوٹی نیکی کی بڑی قدر ہوگی مگر کوئی کسی کو دینے کےلئے تیار نہ ہوگا، بعض لوگ غفلت اور گناہوں میں زندگی گزارنے کی وجہ سے جبکہ بعض لوگ کفر و شرک میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے حسرت کریں گے۔ آہ! آہ! اس وقت سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہ آئےگا، ان حسرت کرنے والوں میں سے بعض یہ تمنا کریں گے کہ کاش فلاں کام یا فلاں نیکی کی ہوتی، یا فلاں کام نہ کیا ہوتا، بعض تو واپس دنیا میں بھیجے جانے کی تمنا کریں گے، لیکن دوبارہ دنیا میں کسی کا آنا نہیں ہوسکے گا، ہماری کامیابی اور ناکامی انہی اعمال پر منحصر ہوں گے جو ہم نے دنیا میں کئے تھے۔ قراٰنِ کریم نے مختلف مقامات پر لوگوں کی حسرتوں کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے، آئیے ذیل میں ان میں سے چند آیات تفسیر کے ساتھ پڑھتے ہیں:

(1)وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اگر آپ دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا پھر یہ کہیں گے اے کاش کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں۔(پ7،الانعام:27)

تفسیر صِراطُ الجنان میں ہے:اس آیت کا خلاصہ ہےکہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافروں کی حالت دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑی خوفناک حالت دیکھیں گے اور اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش کہ کسی طرح ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں تاکہ اس ہولناک عذاب سے بچ سکیں۔(صراط الجنان،3/89)

(2) وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷) ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا: اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (پ19، الفرقان:27)

تفسیر صراط الجنان میں ہے : ارشاد فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں جس دن ظالم حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اورکہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ جنت و نجات کاراستہ اختیار کیا ہوتا، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی ہدایت کو قبول کیا ہوتا۔یہ حال اگرچہ کفار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف کا گہرا دوست تھا، حضورسیّد المرسَلین صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مُرتَد ہوگیا، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے قتل ہوجانے کی خبر دی، چنانچہ وہ بدر میں مارا گیا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹنے لگے گا۔ (صراط الجنان،7/18)

(3) یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے ۔

(پ19، الفرقان:28، 29 )

تفسیرِ صراط الجنان میں ہے: اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہے گا:ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے ۔(صراط الجنان،7/19)

(4)یوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(۶۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: جس دن ان کے چہرے آگ میں باربارالٹے جائیں گے توکہتے ہوں گے: ہائے!اے کاش! ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔ (پ22، الاحزاب:66)

تفسیرِ صراط الجنان میں ہے : اس سے پہلی آیت میں بیان ہو اکہ جہنم کی آگ میں کافروں کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو گا اور ا س آیت میں ان کے عذاب کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ جس دن کافروں کے چہرے جہنم کی آگ میں بار بار الٹ پلٹ کئے جائیں گے اورآگ میں جلنے کے باعث ان کے چہرے کی رنگت تبدیل ہورہی ہو گی تو اس وقت وہ انتہائی حسرت کے ساتھ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے! اے کاش! ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول علیہ السّلام کا حکم مانا ہوتا تو آج ہم عذاب میں گرفتار نہ ہوتے۔ خیال رہے کہ جہنم میں کافروں کے پورے جسم پرعذاب ہوگا اور یہاں آیت میں چہرے کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ انسان کے جسم کاسب سے مکرم اورمُعَظَّم عُضْو ہوتا ہے اورجب ان کاچہرہ آگ میں باربارالٹ رہا ہوگا تو یہ ان کے لیے بہت زیادہ ذلت اوررسوائی کاباعث ہوگا۔ (صراط الجنان،8/99)

(5)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے تو (تُو) کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(پ25،الزخرف:38)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی قرآن سے منہ پھیرنے والے کفار، شیطان کے ساتھی ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی شیطان کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا تووہ شیطان کو مُخاطَب کر کے کہے گا:اے میرے ساتھی! اے کاش! میرے اور تیرے درمیان اتنی دوری ہو جائے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے کہ جس طرح وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اکٹھے نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں اورتو میرا کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(صراط الجنان،9/131، 132)

(6)وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ(۲۵) وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْۚ(۲۶) یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَۚ(۲۷) مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْۚ(۲۸) هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْۚ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور رہا وہ جسے اس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کردینے والی ہوجاتی۔(پ29، الحاقہ:25تا29)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: سعادت مندوں کا حال بیان کرنے کے بعد اب بد بختوں کا حال بیان کیاجا رہا ہے ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ جب اپنے نامۂ اعمال کو دیکھے گا اور اس میں اپنے برے اعمال لکھے ہوئے پائے گا تو شرمندہ و رُسوا ہو کر کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامۂ اعمال نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش کہ دنیا کی موت ہی ہمیشہ کیلئے میری زندگی ختم کردیتی اور مجھے حساب کیلئے نہ اُٹھایا جاتا اور اپنا اعمال نامہ پڑھتے وقت مجھے یہ ذلت و رسوائی پیش نہ آتی۔(صراط الجنان،10/326، 327)

(7)اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَیَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠ (۴۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: بیشک ہم تمہیں ایک قریب آئے ہوئے عذاب سے ڈراچکے جس دن آدمی وہ دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا۔(پ30، النباء:40)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! ہم دنیا میں تمہیں اپنی آیات کے ذریعے قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرا چکے ہیں جو کہ قریب آ گیا ہے اور یہ عذاب اس دن ہو گا جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے برے اعمال اپنے نامۂ اعمال میں لکھے ہوئے دیکھے گا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا تاکہ عذاب سے محفوظ رہتا۔کافر یہ تمنا کب کرے گا اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا یہاں تک کہ اگر سینگ والے نے بے سینگ والے کو مارا ہوگا تو اُسے بھی بدلہ دلایا جائے گا، اس کے بعد وہ سب خاک کردیئے جائیں گے ،یہ دیکھ کر کافر تمناکرے گا کہ کاش! میں بھی ان کی طرح خاک کردیا جاتا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب مومنین پر اللہ تعالیٰ انعام فرمائے گا تو ان نعامات کو دیکھ کر کافر تمنا کرے گا کہ کاش !وہ دنیا میں خاک ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے معاملے میں عاجزی اورتواضع کرنے والاہوتا متکبر اورسرکش نہ ہوتا ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ کافر سے مراد ابلیس ہے جس نے حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام پر یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اور اپنے آگ سے پیدا کئے جانے پر فخر کیا تھا۔ جب وہ قیامت کے دن حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام اور اُن کی ایماندار اولاد کے ثواب کو دیکھے گا اوراپنے آپ کو عذاب کی شدت میں مبتلا پائے گا تو کہے گا: کاش! میں مٹی ہوتا یعنی حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی طرح مٹی سے پیدا کیا ہوا ہوتا۔(صراط الجنان، 10/520)

(8)وَجِایْٓءَ یَوْمَىٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰىؕ(۲۳) یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْۚ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اس دن جہنم لائی جائے گی، اس دن آدمی سوچے گا اور اب اس کے لئے سوچنے کا وقت کہاں؟ وہ کہے گا: اے کاش کہ میں نے اپنی زندگی میں (کوئی نیکی) آگے بھیجی ہوتی۔(پ30، الفجر:23، 24)

تفسیر ِصراط الجنان میں دوسری آیت کے تحت لکھا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کہے گا کہ اے کاش! میں نے اپنی زندگی میں کوئی نیکی آگے بھیجی ہوتی۔یہاں زندگی سے مراد یا دنیوی زندگی ہے یا اُخروی زندگی، پہلی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کاش میں دُنْیَوی زندگی میں کچھ نیکیاں کما کر آگے بھیج دیتا۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ کاش میں نے اس دائمی زندگی کے لئے کچھ بھیج دیا ہو تا، ساری عمر فانی زندگی کے لئے کمائی کی اور خدا کو یاد نہ کیا۔ کفار کے لئے یہ پچھتانا بھی عذاب ہو گا، دنیا میں نیکو کار مومن کا نادم ہونا درجات کی ترقی کا سبب ہے اورگنہگار مومن کا پچھتانا توبہ ہے مگر کافر کا قیامت میں پچھتانا محض عذاب ہے۔(صراط الجنان،10/673)


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یکم جون 2021ء کو رات 9:30 بجے  Comsats University (All Campuses) سے فارغ التحصیل افراد کا آن لائن اجتماع ہونے جارہا ہے۔

اس اجتماع میں موٹیویشنل اسپیکر و نگران شعبہ پروفیشنلزمحمد ثوبان عطاری خصوصی بیان فرمائیں گے۔

اس اجتماع میں شرکت کے لئے لمیٹڈ سیٹ available ہے جس کے لئے رجسٹر ہوناضروری ہے۔

رجسٹرڈ ہونے کے لئے نیچے دیئے لنک پر کلک کیجئے:

bit.ly/comsats-meetup


دعوت اسلامی کے ڈیپارٹمنٹ خدام المساجد و المدارس کے تحت ملک و بیرون ملک ہزاروں مساجد کی تعمیرات مکمل ہوچکی ہیں۔سینکڑوں مساجد کی تعمیرات کا سلسلہ اب جاری ہے۔

ساؤتھ افریقہ کے شہر Wesselsbronمیں جامع مسجد فیضان علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تعمیرات مکمل ہونے کے بعد پہلی نماز جمعہ کی ادائیگی کا سلسلہ ہوا جس میں نگران پریکٹوریا ساؤتھ افریقہ ریجن، نگران کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ ریجن، نگران ویلکم کابینہ سمیت دیگر ذمہ داران اور مقامی عاشقان رسول نے شرکت کی۔ نماز جمعہ سے قبل مبلغ دعوت اسلامی مفتی عبد النبی حمیدی صاحب مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے سنتوں بھرا بیان کیا۔

جامع مسجد فیضان علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پلاٹ کا کُل رقبہ تقریباً دو ہزار اسکوائر فُٹ ہے جبکہ مسجد کے اندرونی حصے میں تقریباً ڈھائی سو نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کے ساتھ مدرسۃ المدینہ بوائز اور گرلز کا بھی قائم ہے۔ ان کی تعمیرات کے حوالے سے اہم بات یہ کہ دو ماہ قبل مفتی عبد النبی حمیدی، نگران پریکٹوریا ساؤتھ افریقہ ریجن اور دیگر ذمہ داران کی موجود گی میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تھااور مسجد کی سنگ بنیاد سے لیکر تعمیرات اور Finishing تک تمام مراحل تقریباً دوماہ کے مختصر دورانیے میں طے کئے گئے۔

اس موقع پر مزید خوشی میں اضافہ کچھ یوں ہوا کہ مسجد افتتاح کے دن دو غیر مسلموں نے انفرادی کوشش کی بدولت اسلام قبول کیاجنہیں نگران پریکٹوریا ساؤتھ افریقہ ریجن نے کلمہ طیبہ پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ ان نئے مسلمان ہونے والوں کا اسلامی نام محمد یونس اور محمد رضا رکھا گیا۔