قرآن وسنت شریعتِ اسلامیہ کی اساس وبنیاد ہیں،البتہ قرآن کو اولیت حاصل  ہے،لیکن علومِ قرآن بغیر سنت نبوی حاصل نہیں ہوسکتے۔ قران کو سمجھنا ہے تو ارشادات رسول اور سنن نبویہ کا سہارا لینا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام و علماء کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) نے جس طرح قرآن کریم کی حفاظت کے لئے شب و روز جدوجہد فرمائی ،اسی طرح حفاظت حدیث کے لئے سعی بلیغ فرمائی۔

بےشک اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کائنات عالم میں معلم کتاب وحکمت بنا کر معبوث فرمایا اور بےشمار مناصب علیاو مراتب قصوی سے عزت و کرامت بخشی ۔

*آپ علیہ الصلوۃ والسلام ہادی اعظم اور مبلغ کائنات ہیں، جیسا کہ فرمان الہی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)ترجمہ كنزالايمان:اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایااور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔(پ6،المائدہ:67)

حفاظت حدیث :

علم حدیث کو دلیلِ شرعی ہونے کی سند قرآن کریم سے ملی ہے ۔خداوندقدوس نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور مسلمان کو اس پر عمل پیرا ہونے کی بدولت سعادت دارین اور فلاح ونجات اخروی کا مثردہ سنایا۔

اہل اسلام کی اولین جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فرمانِ واجب الاذعان براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا تھالہٰذا شب وروز اپنے محسن اعظم اور ھادی برحق کے اشاروں کے منظر رہتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اپنے لئے نمونۂ عمل تلاش کرتے، زیادہ وقت دربار رسالت کی حاضری میں گزارتے اور آپ کی سیرت و کردار کو اپنانا ہر فرض سے اہم سمجھتے تھے۔انکی نشت و برخاست، خلوت و جلوت، سفر وحضر،عبادت و معاملات اور موت و حیات کے مراحل سب سنت رسول کی روشنی ہی میں گزرتے اور انجام پاتے۔احادیث کی حفاظت کا انتظام اسی طرح انہوں نے روز اول ہی سے شروع کر دیا تھا۔ صحابہ کرام نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ تعلیم بھی پائی تھی کہ میری سنت اور اسوہ حسنہ میں اپنے لئے نمونہ عمل تلاش کرو۔

لہذا اس جماعت کےسربراہ حضرت ابو ہریرہر رضی اللہ عنہ ہیں جو ذخیرہ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں۔لوگوں کو ان کی کثرت روایت پر کبھی تعجب ہوتا تو فرماتے:

تم لوگ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے، تو سنو !مہاجرین تو اپنی تجارت میں مصروف رہتے اور انصار کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا،جبکہ میرا حال یہ تھا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، جب انصار و مہاجرین غائب رہتے تو میں اس وقت بھی موجودہوتا ، اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا۔جب لوگ بھولتے تو میں احادیث یاد رکھتا تھا۔

صحابہ کرام نے حصول حدیث کے لئے مصائب برداشت کئے :

اس معیار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بےساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ ان کی تبلیغ و ہدایت محض اللہ و رسول کی رضا کے لئے تھی ۔سنت رسول کی اشاعت اور اس کی تعلیم وتعلم میں انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس کرتے تھے۔

فاروق اعظم نے اشاعت حدیث کے لئے صحابہ کرام کو مامور فرمایا :

دورہ حدیث کے علاوہ انفرادی طور پر بھی حدیثیں یاد کرنے کا بڑا اہتمام تھا۔حفاظت حدیث کا یہ شغل صرف عہد نبوی تک محدود نہیں رہا بلکہ عہد صحابہ میں حصول حدیث اور اشاعت حدیث کا شوق اپنے جو بن پر تھا۔

حضرت فاروق اعظم نے خلافت اسلامی کے گوشے گوشے میں حدیث پاک کی تعلیم کے لئے ایسے صحابہ کرام کو روانا فرمایا جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ کرام میں مسلم تھی ۔ اور پھر آپ مزید اس وقت تک کے امیر/گورنر کو سخت تاکیدی حکم لکھتےکہ یہ حضرات جو احادیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تو امت پر قیامت تک فرض ہے اور اس میں ان کی ترقی، عزت اور ہیبت کا راز پنہا ں ہے۔اس لیے تو آپ نے ملک کے گوشے میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو ان کے رسول کی سنت کی تعلیم دیں اور حکام کو بار بار اتباع سنت کے لئے مکتوب روانہ فرمائے۔

صحابہ کرام نے اپنے عمل وکردار سے سنت رسول کی حفاظت فرمائی:

صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہو گئے کہ ان کو محفوظ کر کے آرام کی نیند سو جاتے، ان کے لئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کے لئے نہیں تھی جن کو یاد کر کے بطور تبرک قلوب و اذہان میں محفوظ کر لیا جاتا، بلکہ قرآنی تعلیمات کی طرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائمی تھا۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا، اور ان کا دستور عام یہ ہی تھاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے، وہ صرف خود اپنی ہی زندگیوں کو حضور کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور ہی کو نمونہ عمل کے طور پر اپنانے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔۔

کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی:

تدوین حدیث کو کتابت حدیث کی صورت ہی میں تسلیم کر نے والے اس بات پر بھی مصر ہیں کہ دوسری اور تیسری صدی میں حدیث کی جمع و تدوین کا اہتمام ہوا ،اس سے پہلے محض زبانی حافظوں پر تکیہ تھا۔ جب اسلام لوگوں کے قلوب واذہان میں راسخ ہو گیا اور قرآن کریم کا کافی حصہ نازل ہوچکا اور اس چیز کا اب خطرہ ہی جاتا رہا کہ قرآن و حدیث میں کسی طرح کا اختلاط روبعمل آئے گا تو کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

علم کو تحریر کے ذریعے مقید کر لو۔

تدوین حدیث کے لئے محدثین نے جانکاہ مصائب برداشت کئے:

تابعین عظام نے بھی ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حفظ و کتابت کا فریضہ انجام دیا۔دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی، جانفشانیاں کیں ،مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔۔

امام حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام تھے ،امام بخاری، امام ابو داؤد ،امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں۔ آپ مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو سفر شروع کر دیتے۔آپ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے: سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔پیدل تین ہزار میل چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا ۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں، امام مالک کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل کے شیخ ہیں، علم حدیث میں شب وروز سرگرداں رہے۔مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔

علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کا شکار ہو ئے۔سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ:

آپ بھی ایک عظیم محدث اور تابعی مدنی ہیں، حضرت انس بن مالک اور سائب بن یزید کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ،امام مالک،امام شعبہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ کے اساتذہ میں سے ہیں، ربیعہ الرائے کے نام سے مشہور ہیں، جب سے ربیعہ کا وصال ہوا فقہ کی حلاوت جاتی رہی۔

اس علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس سے بھی گزرنا پڑا کہ جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّٰی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔۔۔اللہ اللہ!

آئمہ اربعہ کی علمی خدمات :

امام اعظم:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار لکھی جبکہ آپ کے تلامذہ میں امام ابو یوسف ،امام محمد، امام حسن بن زیاد وغیرہ کی شاندار حدیثی خدمات سے اہل علم واقف ہیں۔ان حضرات کی جدوجہد نے روز اول ہی اس سیلاب پر بند باندھ دیا تھا کہ موضوع احادیث شرعی امور میں دخیل نہ ہونے پائیں۔صحیح کو غلط بلکہ ضعیف تک سے جدا کر کے اس بات کی صراحت کر دی گئی تھی کہ جملہ احادیث نہ استدلال میں مساوی ہیں نہ عمل میں۔۔

امام مالک:

علم حدیث کی عظمت اور کمال احتیاط دونوں ہی آپ کو ملحوظ تھیں۔ موطا امام مالک اولاً نو ہزار احادیث پر مشتمل تھی لیکن آپ اس کو بار بار قرآن کریم پر پیش کرتے رہےاور اب تعداد چھ سو سے کچھ اوپر ہے پھر یہ کیوں متصور کہ اس میں جعلی حدیثیں ہوں۔

امام شافعی :

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصحاب تو علم روایت ہی کے خوگر رہے ،پوری زندگی نشر ِحدیث و فقہ میں گزری۔

امام احمد بن حنبل: ۔

آخر میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جنکی علم حدیث میں رفعت مسلم چیز ہے۔کہتے ہیں کہ آپ ساڑھے سات لاکھ احادیث کے حافظ تھے،ان میں سے آپ کی مسند میں ستائیس ہزار ایک سو احادیث موجود ہیں۔ یہ آئمہ اربعہ کی حدیث میں منصف مزاجی اور ان کا محتاط رویہ ہے۔

ہم نے تدوین حدیث، جمع حدیث، حفاظت حدیث، اشاعت حدیث کو یہاں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی ہےکہ اہل اسلام ہرگز دھوکے میں نہ آئیں اور اپنے اسلاف کی ان کوششوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے دینی سرمایہ کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔اس علم کی حفاظت کیلئے ہمارے اسلاف نے پوری زندگی اطراف ِعالم کے خاک چھانی ہےتب کہیں جاکر ہمیں یہ مستند ذخیرہ فراہم ہوسکا ہے

رب العالمین قبول فرمائے۔

ٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!


تمام خوبیاں اس خالق کائنات کے لیے جس نے ہمیں انسان بنایا اور سب سے بہترین امت میں پیدا فرمایا۔ بے شمار درود وسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جنہوں نے عبادات پر ہماری رہنمائی فرمائی، عبادات میں زیادتی کے مختلف طریقے بتائے اورساتھ ہی عبادات میں میانہ روی کا درس عظیم دیا۔

فرمان باری تعالی ہے:طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان:اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ16،طہ:2)

علامہ علاؤ الدین علی بن محمد خازن فرماتے ہیں: جب مشرکین نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت میں بہت زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا؛اے محمد! تم پر قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے کفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ متا سف و متحسر(افسردہ) رہتے تھے اور خاطر مبارک پر اس سبب سے رنج و ملال رہا کرتا تھا۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں، قرآن پاک آپ کی مشقت کے لیے نازل نہیں کیا گیا۔

ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

ترجمۂ كنزالايمان:اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔(پ2،البقرۃ:185)

تفسیر خازن میں ہے:اسکا معنی یہ ہے کہ اللہ پاک اس عبادت میں تم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ آسانی مسافرو مریض کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے دین کے معاملے میں تم سے تنگی و پریشانی کو دور کر دیا۔

ایک قول یہ ہے کہ اللہ پاک کو یہ بات بہت پسند ہے کہ کسی شخص کو دو چیزوں کا اختیار دیا جائے اور وہ ان میں سے آسان چیز کو اختیار کرے۔

یعنی اللہ پاک تم پر آسانی چاہتا ہے اس لیے اس نے بچوں اور دیوانوں پر روزہ معاف کردیااوربیماراورمسافرکومہلت دے دی اور اسی لیے روزہ کے واسطے ماہ رمضان مقرر کیاتاکہ تمہیں حساب اورقضامیں آسانی ہو۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مقابل یعنی دشواری اور سختی ہے۔ یعنی تم پر سختی نہیں چاہتا ورنہ روزے کسی اور مہینے میں فرض فرماتا۔

( فیضان ریاض الصالحین(مکتبہ المدینہ) صفحہ :421،423)

دائمی قلیل عمل عارضی طورپرکثیرعمل سے افضل ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ہر طرح کےدینی و دنیاوی معاملات جیسے عبادت و ریاضت،اور دیگر ضروریات میں مال خرچ کرنے میں اسراف سے بچیں اور میانہ روی سے کام لیں اور عبادت وریاضت میں بھی اپنی جان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں بلکہ میانہ روی کو اختیار کریں۔

اللہ کریم اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم پر خصوصی نظر کرم فرمائے۔ ہمیں میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اعتدال ومیانہ روی دین اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے: تمام احکام وامور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ شدت ہو اور نہ از حد کوتاہی۔ جب دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے جو اس کو تمام ادیان سے ممتاز بناتی ہے   تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرار ہے۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:-

1: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ترجمہ کنزالایمان: اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ2، البقرۃ: 143)

امام طبری رحمۃ الله علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے : میں سمجھتا ہوں کہ الله نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری جیسا غلو ہے جنھوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انتہاپسندی پر مبنی باتیں کہیں ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے کہ اللہ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کرڈالی ، ا نبیاء کا قتل کیا ،اپنے رب پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر اختیار کیا ؛ لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ الله کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے۔

اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، بلکہ غلو و تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سے ڈرایا بھی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کی ان دعائیہ آیتوں سے واضح ہے جن کا ہمیں پوری سورت کے ساتھ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؛تاکہ نہ صرف یہ کہ ہم بغیر کسی افراط و تفریط کے ہمیشہ راہ حق و اعتدال پر رہیں بلکہ اپنے رب سے اس کی توفیق کے طالب بھی بنے رہیں۔

فرمان ربانی ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷) ترجمۂ کنزالایمان:راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ (پ1، الفاتحہ: 6،7)

علمائے تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ ’المغضوب علیھم ‘سے مراد یہودی ہیں اور ’الضالین ‘سے مراد نصاری ہیں، اور ان دونوں گروہوں کی کج روی کا اندازہ آپ نے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں سے لگا لیا ہو گا کہ وہ راہ استقامت سے ہٹ گئے تھے ۔ یہودیوں کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح راستہ پر نہیں چلتے تھے، آیات الہی میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف و اضافہ سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے، برائیوں سے نہیں روکتے تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ’ابن الله‘کہتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ’ابن اللہ‘ اور ’ثالث ثلاثة‘ یعنی اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں سے ایک قرار دیا ۔

یہود ونصاری کی غلو وتقصیر اور افراط وتفریط کے برعکس ہمارے دین نے اعتدال کی راہ دکھائی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، ’’سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا‘‘( متفق علیہ) کی تعلیم دی۔’ قاربوا‘ کا مطلب ہے درمیانی راستہ اپناؤ ،اور ’سدّدوا ‘کا مطلب ہے اس راستہ پر جم جائو اور استقامت اختیار کرو۔یہی ہمارے دین کا قول واعتقاد ، عمل و عبادات اور معاملات وضروریات میں شیوہ ہے ۔مثال کے طور پر عقیدے کے باب میں ہم یہ پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ؛تاکہ اللہ کے ساتھ شرک نہ واقع ہو جائے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

لَاتُطْرُوْنِی کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابنَ مَرْیَمَ ،فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری)

(میری مدح سرائی میں غلو وانتہا پسندی سے کام نہ لو جیسا کہ نصاری عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ گئے،میں صرف ایک بندہ ہوں تو مجھے الله کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔

اسی طرح عبادات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو مشقت و ہلاکت میں ڈالنے یا دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلینے سے منع فرمایا۔

عبادتوں میں میانہ روی کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے ، جن میں ایک مشہور متفق علیہ حدیث ہے: جس کا خلاصہ ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کے بارے میں دریافت کر نے کے لئے آپ کے گھر والوں کے پاس آئے ۔ جب انہیں تفصیل بتائی گئی تو انہوں نے اسے کم خیال کیا اور کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ؟ لہٰذا ایک نے ہمیشہ نماز پڑھنے کا، دوسرے نے مسلسل روزہ رکھنے کا اور تیسرے نے کبھی شادی نہ کرنے کا عہد کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے یوں تنبیہ فرمائی: سن لو !الله کی قسم میں یقینا تم سب لوگوں سے زیادہ الله سے ڈرنے والا اور تقوی اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر تاہوں، جس نے ہماری سنت سے بے رغبتی كى وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ہمارے دین اسلام نے اگرچہ آخرت کو مطمحِ نظر اور مقصد حیات بنانے پر سعادت و کامرانی کا دار ومدار رکھا ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ دنیاوی زندگی کی استواری کے لئے جائز طریقوں سے مال واسباب کا حصول اور مباحات میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے۔

فرمان الہٰی ہے:

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ترجمۂ کنزالایمان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا۔(پ20، القصص: 77)

مال کے خرچ، کھانے پینے حتی کہ صدقہ وخیرات میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی، الله پاک نے فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(پ19،الفرقان:67)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: کھائو پیو پہنو اور صدقہ کرو جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔( سنن ابن ماجۃ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات تمام تر اعتدال ومیانہ روی پر مبنی ہیں،چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یادوسرے امور سے۔ یہ عظیم ونمایاں خصوصیت اسی کا حصہ ہے جس سے دنیا کے تمام ادیان ومذاہب عاری ہیں اور یہ ان خصوصیات و اوصاف میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے دین اسلام کو دنیا وآخرت میں کامیابی کا و احد ذریعہ ہونے کا امتیازحاصل ہے۔الله پاک کا ارشاد ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(پ3،آل عمران: 19)

اللہ پاک ہم سب کواپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطافرمائےاور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بنائے۔


دعوت اسلامی کے شعبہ مدنی قافلہ کے زیر اہتمام 9مارچ 2021ء کو جھنگ زون میں مدنی مشورہ ہوا جس میں جھنگ زون کے تمام اراکین کابینہ مدنی قافلہ ذمہ داران نے شرکت کی۔

فیصل آباد ریجن مدنی قافلہ ذمہ دار قاسم عطاری اور جھنگ زون مدنی قافلہ ذمہ دار حسن معاویہ عطاری نے شعبے کے دینی کاموں کے حوالے سے شرکا کی تربیت کی اور اہم ترین مدنی پھول بیان کئے۔ (رپورٹ: محمد حارث عطاری، شعبہ مدنی قافلہ)


Under the supervision of Dawat-e-Islami, Ijtima’at were held in the different cities of Black Country Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. These cities included Sandwell, Worcester, Black Country. Approximately, 87 Islamic sisters had the privilege of attending these spiritual Ijtima’at.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered a Bayan on the topic ‘blessings of donations’ and explained the attendees (Islamic sisters) the blessings of donations. Furthermore, she provided them information about the religious activities of Dawat-e-Islami and motivated to keep associated with the religious environment of Dawat-e-Islami, attend the weekly Ijtima’ and take part in the religious activities.


Under the supervision of Dawat-e-Islami, Ijtima’at were held in different areas of West Midlands Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. These areas included North, East, Central Birmingham and Coventry. Approximately, 366 Islamic sisters had the privilege of attending these spiritual Ijtima’at.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered a Bayan on the topic ‘blessings of donations’ and explained the attendees (Islamic sisters) the blessings of donations. Furthermore, she provided them information about the religious activities of Dawat-e-Islami and motivated to keep associated with the religious environment of Dawat-e-Islami, attend the weekly Ijtima’ and take part in the religious activities.


Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah of responsible Islamic sisters was held in East Midlands Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. All Division Nigran Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual Mashwarah.

Kabinah Nigran Islamic sister analysed the Kaarkardagi (performance) of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah and gave them the mindset of booking the ‘Monthly Magazine Faizan-e-Madinah’, expediting the process for donations and reaching the Hadaf (target) of performance. Furthermore, she appreciated the improvement in the religious activities. 


Under the supervision of ‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a course, namely ‘Journey of Miraj’ was held in Nottingham, East Midlands Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. Approximately, 57 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual course.

In this session, the attendees (Islamic sisters) were explained about journey of Miraj, useful information on Miraj, wisdom and experiences of Miraj and bounties endowed by Allah during Miraj. Furthermore, Islamic sisters were provided with information about worship and blessings of Rajab-ul-Murajjab.


Under the supervision of ‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a course, namely ‘Journey of Miraj’ was held in Leicester, East Midlands Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. Approximately, 57 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual course.

In this session, the attendees (Islamic sisters) were provided with information about wisdom of Miraj, rides, places, experience of Paradise and Hell, etc. Islamic sisters made intentions of appearing in other courses. Furthermore, they presented intentions of attending the weekly Ijtima’ with punctuality and studying in Madrasa-tul-Madina (Baalighaat).


Under the supervision of ‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a course, namely ‘Journey of Miraj’ was held in West Midlands Kabinah (Birmingham Region, UK) in previous days. Approximately, 175 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual course.

In this course, the attendees (Islamic sisters) were provided with information about wisdom of Miraj, rides, places, experience of Paradise and Hell, etc. Furthermore, they were motivated to watch the Madani Channel and appear in other short courses.


Under the supervision of Dawat-e-Islami, Madani Halqahs were held in different areas of South and West Yorkshire Kabinah, UK in previous days. These areas included Rotherham, Sheffield and Doncaster. 39 Islamic sisters had the privilege of attending these spiritual Halqahs.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Sunnah-inspiring Bayans on the topic ‘blessings of Durud Shareef’ and motivated the attendees (Islamic sisters) to get the booking of Monthly Magazine Faizan-e-Madinah and attend the weekly Ijtima’ regularly on time.


Under the supervision of ‘Majlis Islah-e-A’maal’, a Madani Mashwarah of responsible Islamic sisters (Majlis Islah-e-A’maal) was held in London Region, UK in previous days. Kabinah Mashawarat responsible Islamic sisters (Majlis Islah-e-A’maal) had the privilege of attending this spiritual Mashwarah.

Region Mashawarat responsible Islamic sister analysed the Kaarkardagi (performance) of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah and gave them the mindset of watching the Madani Muzakirah with punctuality. Furthermore, she appreciated the better performance of Majlis Islah-e-A’maal.