Madani Mashwarah of responsible Islamic sisters held in Birmingham
Region, UK
Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah of
responsible Islamic sisters was held in Birmingham Region, UK in previous days.
Approximately, 27
Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual Mashwarah.
Region Nigran Islamic sister
analysed the Kaarkardagi
(performance) of
the attendees (Islamic
sisters),
did their Tarbiyyah and provided them the points on improving the religious
activities. Moreover, she did Infiradi Koshish and motivated other women to
associate with the religious environment.
ریاکاری کی تباہ کاریوں اور اس کے علاج پر مشتمل کتاب
رِیا کاری
اِس کتاب کی چندخصوصیات:
٭دیدہ زیب ودلکش سرورق(Title)وڈیزائننگ(Designing) ٭عصرحاضرکے
تقاضوں کے پیش نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے
’’علامات ترقیم ‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭تقریباً
ہرآیت مبارکہ میں ترجمہ ٔکنزالایمان کا التزام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار
رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام
٭فکرِآخرت پرمشتمل اِصلاحی موادکی شمولیت ٭قراٰنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام
منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات،
احادیث ودیگر عبارات کےحوالوں(References) کا خاص اہتمام ٭ایک
ہی نظرمیں کتاب کے عنوانات دیکھنے کیلئے کتاب کے شروع میں فہرست(Index) ٭جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے مصنفین، مکتبوں اورشہرطباعت کی
’’ماخذومراجع‘‘میں تفصیل ٭پورے کتاب کی
دارالافتاء اَہلِ سنت کے مفتیانِ کرام سے شرعی تفتیش ٭اَغلاط کوکم سے کم کرنے کیلئے
مکمل کتاب کی کئی بار پروف ریڈنگ
166صفحات پر مشتمل یہ کتاب2011ء سے لیکر
اب تک4 مختلف ایڈیشنز میں تقریباً 17 ہزارکی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔
اس کتاب کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ
بھی کی جاسکتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ ترجَمۂ
کنزُالایمان:بےشک تمہیں رسول
اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (سورة الاحزاب:۲۱)
1۔جمع حدیث میں صحابہ
کا کردار :
مسلمانوں کے دین کا سرمایہ اور ان کی شریعت
کی متاع کل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا نمونہ حیات ہے۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و
احوال اور آپ کے شب و روز کے معمولات ہی ان کے لے سرچشمہ ہدایت ہیں۔صحابہ کرام نے
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کتاب
زندگی کے ایک ایک ورق کو حفظ کیا۔خلوت و جلوت ،سفر و حضر اور نجی حالات سے لے
کرعام سیاسی معاملات تک حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کا کوئی
واقعہ نہیں ہےمگر اس کو انہوں نے محفوظ کر لیا۔وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کا تذکرہ کرتے۔
2۔جمع حدیث میں تابعین
کا کردار:
صحابہ کرام کے بعد تابعین اور ان کے بعد
اتباع کرنے والوں نے حفظ کیا اور کتابت
کے اس عمل کو جاری رکھا۔یہاں تک کے دوسری صدی ہجری کے بعد حدیث کی باقاعدہ تدوین
شروع ہوئی ۔ اور ابواب و کتب کی ترتیب سے حدیث کی کتابیں مدون ہوئیں ۔یوں ہمارے
پاس حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جامع سیرت اوردین کی مکمل تصویر پہچنے کا اہتمام ہوا۔
(تذکرہ المحدثین،صفحہ
۲۳)
4جمع حدیث میں اکابر علماء کا
کردار:
اکابر علماء ملت اور اسانید نے علم حدیث کی
تحصیل کے لئے اپنی زندگیاں واقف کر دی تھیں ۔ انھوں نے بار ہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا۔طلب حدیث
میں کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی ۔وہ اپنے شاگردوں سے بھی احادیث روایت کر لیتے تھے ۔انہوں نے احادیث کو اپنے سینوں میں اور پھر نوشتوں میں
محفوظ کیا،ناقلین حدیث کو پرکھنے کے لئے علم رجال ایجاد کیااور اس میدان میں حیرت
انگز کارنامے انجام دیئے ۔(تذکرۃ ُ
المحدثین صفحہ۲۳)
4۔فرمان مصطفی صلی الله
عليه وسلم:
علم کی طلب جاری رکھو، اگرچہ چین ہی کیوں نہ
جانا پڑے۔
اگرچہ اس حدیث کو محدثین نے انتہائی ضعیف
قرار دیا ہے۔ لیکن اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ سرے
سے حدیث ہی نہیں ہے۔
بعض
محدثین نے اس حدیث کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ یہاں چین سے مراد ملک چین نہیں ہے
بلکہ اس سے مراد دوردراز کاخطہ ہے یعنی
علم کے حصول کے لئے اگر تمہیں دور بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ ( مسند امام اعظم ،سصفحہ
6)
ایک حدیث کی خاطر ایک ماہ کا سفر:
حضرت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں مجھے پتا چلا کہ نبی اکرم کی ایک حدیث
فلاں صحابی سے پتہ چل سکتی ہے میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر زاد راہ رکھا اور ایک
ماہ تک سفر کرنے کے بعد شام پہنچا وہاں حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر آیا اور اندر پیغام بھجوایا کہ انہیں بتا
دیا جائے جابر آپ کے دروازے پر موجود ہے انہوں نے دروازے پر آکر پوچھا جابر بن عبد الله ؟
میں
نے جواب دیا جی ہاں۔ انہوں نے باہر آ کر مجھے گلے لگایا میں نے انہیں بتایا کہ
مجھے یہ پتہ چلا ہے ایک حدیث آپ نے نبی اکرم سے سنی ہے( اس کے بعد خاصی طویل روایت
ہے)
اس
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علم حدیث کے حصول کے لیے کس قدر محنت اور مشقت
برداشت کرتے تھے آج ہمارے زمانے میں جب کہ علم حدیث اور سیرت کے بارے میں شائع شدہ
کتابیں موجود ہیں ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم ان کا مطالعہ کرنے کی زحمت
کرلیں۔ (مسند امام اعظم صفحہ 60)
روایت حدیث کی تعداد:
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دور صحابہ کے تابعین میں صحابہ کی ضروریات
کو دیکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا۔ حضرت
ابو ہریرہ(5374) احادیث مروی ہیں۔
حضرت
عبداللہ بن
عباس سے( 1660) احادیث مروی ہیں۔
حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے( 2286) احادیث
مروی ہیں.
ام
المومنین حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے( 2210) احادیث مروی ہیں.
حضرت
عبداللہ عصر
سے (1630) احادیث مروی ہیں.
حضرت
جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے (1540) احادیث مروی ہیں۔
( تذکرۃ المحدثین،
صفحہ نمبر 31تا 32)
اعتدال
کا مطلب ہے "دو حالتوں میں توسُّط اختیار کرنا۔"(مصباح اللغات)
میانہ روی اعتقادات، عبادات، معاملات و اخلاقیات ہر معاملے میں ضروری ہے، میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" دین
آسان ہے اور جو دین میں سختی اختیار کرتا ہے، دین اس پر غالب آجاتا ہے، بس سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو، خوش رہو۔"(ریاض الصالحین، باب فی الاقتصاد
فی الطاعۃ، ص 51، حدیث 145)
آج
ہمارے معاشرے میں بداَمنی بڑھتی جا رہی ہے،
گھروں میں ناچاقیوں کی فضا پھیلتی جارہی ہے، اِداروں کا اَمن و سکون تہہ و بالا ہو چکاہے، اس کی ایک وجہ اعتدال ومیانہ روی کا دامن چھوڑ
کر افراط و تفریط سے کام لینا بھی ہے، آج
ہمارے گھروں میں معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، ساس بہو کی
لڑائیاں، میاں بیوی کی ناچاقیاں عام ہیں، حتیٰ کے نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آئے دن طلاق کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، اگر شوہر بیوی کے نامناسب رویّے پر فوری جذبات میں آ ئے، بیوی پر ہاتھ اٹھائے، طلاق دے کر اپنا گھر برباد کر نے کی بجائے اعتدال سے کام لے اور شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق بیوی کی سرزنش کے لیے مناسب
اقدام اٹھائے تو کئیں گھر تباہ ہونے سے بچ سکتے ہیں، دینِ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں:
ترجمہ کنزالایمان:" اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو، تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں
مارو، پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو، بے شک اللہ
بلند بڑا ہے۔(پارہ 5، سورۃ النساء، آیت34)
یوں
ہی ہمارے معاشرے کا ایک اَلمیہ بگڑی ہوئی نسل بھی ہے، اس کی ایک وجہ اولاد کی تربیت میں میا نہ روی سے
کام نہ لینا ہے، بعض والدین تو اولاد کے معاملے
میں اس قدر نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ
اولاد کی بڑی غلطیوں پر بھی چشم پوشی سے کام لیتے اور درحقیقت اَنجانے میں ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں، اس کے برعکس بعض والدین معمولی معمولی باتوں پر
بے جا سختی کا مظاہرہ کر کے اولاد کو باغی
اور نافرمان بنا دیتے ہیں، والدین کو چاہیے کہ افراط و تفریط سے کام لینے کے بجائے اپنی اولاد کی صحیح معنوں
میں اِسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کریں،
ان کو دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول فراہم
کریں، ان شاء اللہ عزوجل ان کی اولاد ان کی آنکھوں
کی ٹھنڈک بنے گی۔
یوں
ہی اَساتذہ شاگردوں کے، سیٹھ ملازموں کے، اَفسر نوکروں
کے بلکہ ہر حاکم اپنے محکوم کے معاملے میں اعتدال و میانہ روی سے کام لے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اَمن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
پیٹ سے اُدھار:
ایک
اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا، قصائی نے آواز دے کر کہا، میاں جی! گوشت لے
جاؤ؟کہنے لگے، میرے پاس پیسے نہیں،قصائی بولا:" کوئی بات نہیں،اُدھار کر لیں،
اُنہوں نے کہا:" تُجھ سے اُدھار
کرنے سے بہتر ہے میں اپنے پیٹ سے اُدھار کرلوں۔"
ایک
دانا کا قول ہے:" امیر وہ نہیں جس کی آمدنی زیادہ ہو، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدنی سے کم ہوں۔"
بعض
افراد نہ پیٹ سے اُدھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس غربت کا رونا روئے جاتے ہیں، دل میں اُٹھنے
والی ہر
خواہش کو پورا کرنا یا کسی صاحبِ حیثیت شخص کو دیکھ کر اس کے طرزِ زندگی کو اپنانا
عقلمندوں کا کام نہیں، ضرورت پوری کرنے پر
توجّہ دینی چاہیے، خواہشات پوری کرنے پر نہیں، کیوں کہ خواہشات کی اِنتہا نہیں ہوتی۔
میانہ روی کا معنی:
اسلام
دینِ کا مل ہے، اسلام ہمیں میانہ روی کی
تعلیم دیتا ہے، "میانہ روی"
فارسی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اسےا عتدال کہتے ہیں، میانہ روی کا معنی ہے "درمیانہ راستہ"،
زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفريط (کمی
اور زیادتی) سے بچتے ہوئے درمیانہ راستہ اپنانا چاہیے، پرمسّرت اور کامیاب زندگی کے لیے میانہ روی نہایت
ضروری ہے، کوئی بھی معاشرہ میانہ روی کے
بغیر ترقی نہیں کر سکتا، روز مرہ زندگی کے
ذاتی معاملات ہوں یا گھریلو اخراجات، سب میں
خرچ کرتے ہوئے نہ اسر اف(جہاں خرچ نہ کرنا ہو وہاں خرچ کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے) سے کام لیا
جائے، نہ بخل (کنجوسی)کی جائے، بلکہ
درمیانہ راہ اختیار کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک تعالی کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال بیان فرماتا ہے،
ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال
پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
اس
آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کہ کامل ایمان والے اسراف اور تنگی دونوں طرح کے
مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔
مروی
ہے کہ " جس نے کسی حق کو منع کیا، اس
نے اِقتاریعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں
خرچ کیا اس نے اِسراف کیا۔"(صراط الجنان، ج 7، ص 56)
صدقہ
و خیرات کرنے میں نہ بخل سے کام لیا جائے،
نہ ہی اپنے بال بچوں کو نظر انداز کرتے
ہوئے سارے کا سارا مال خرچ کر دیا جائے، یہاں
تک کہ قرض لینے کی نوبت آ جائے۔ اللہ
تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے،
ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن
سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا "۔(پارہ
15،بنی اسرائیل،29)
خوشحالی کا دارومدار:
مفتی
احمد یار خان نعیمیرحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں "کہ خوشحالی کا دارومدار دو چیزوں پر ہے، کمانا، خرچ کرنا، مگر ان دونوں میں خرچ کرنا بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں، خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنےکا سلیقہ آ گیا، وہ ان شاءاللہ
عزوجل ہمیشہ خوش رہے گا۔
( مراۃ المناجيح، جلد6، ص634)
Social circle بچت کیسے کریں:
اپنے سوشل سرکل سے پرہیز کریں، جہاں ہر وقت مہنگی چیزوں اور فضول خرچی کے بارے
میں بات چیت ہوتی ہو،ورنہ یہ صحبت آپ کو ہر وقت پیسے خرچ کرنے پر مجبور کرتی رہے گی۔
خواہشات کیسے کم ہوں:
شُکر
گزاری کا مزاج ڈپریشن سے محفوظ رکھتا ہے، لا حاصل (جو پاس نہیں) کے لئے حاصل( جو پاس ہے)
نہ چھوڑئیے، بہت سی ایسی چیزیں جو کسی وقت
میں ہمارے لئے اس قدر اہم ہوتی ہیں کہ ہم ان کے حصول کے لیے روتے ہیں، چلاتے ہیں اور بہت ضد سے انہیں حاصل کر پاتے ہیں،
ایک وقت آتا ہے وہ ہمارے لئے فالتو سامان سے زیادہ کُچھ نہیں ہوتیں،
ان میں سے اکثر چیزوں کو ہم ایک عرصہ تک کبھی
استعمال بھی نہیں کرتے، ہم لاحاصل کو بہت زیادہ پُرکشش اور عمدہ خیال کرتے ہیں اور حاصل کو ذرا خاطر میں
نہیں لاتے، نتیجتاً ہمیں اپنے حاصل پر مطمئن
ہونا چاہیے اور لاحاصل کے لئے دل اُداس نہیں
کرنا چاہیے۔
طرزِ زندگی سادہ بنائیں:
زندگی
آسان ہے، بس یہ بوجھ تو خواہشوں اور خوابوں کا ہے، ہر وقت کھاتے رہنے اور اور نِت نئے چسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا، وقت پر کھائیں، سادہ اور مناسب غذا استعمال کریں،
ملبوسات میں(کپڑے، جوتے، رو مال وغیرہ قیمتی خریدنے کے بجائے آرام
دہ اور کم قیمت خرید یں)۔
حدیث
مبارکہ ہے:"مَا عَالَ مَنِ اقْتَصِدَ"جس
شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہ ہوگا۔"
تیز گفتگو کرتے ہوئے اونچے اور سخت لہجے میں یا بالکل دھیمی آواز میں بات کرنے کے بجائے معتدل
انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔
قرآن
پاک میں ارشاد ہوتا ہے :ترجمہ کنز الایمان: "اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔"
ٍ( لقمان، آیت19)
عبادت میں بھی میانہ روی:
اسلام
میں عبادت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور قرآن مجید میں ہے" کہ انسان اور جنوں کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہی عبادت ہے"۔
عبادت کی اتنی اہمیت کے باوجود بھی عبادت میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ایک
مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور فرمایا:" کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم رات رات بھر نماز
پڑھتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو، انہوں نے کہا: بے شک ایسا ہی ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہ کرو، نماز بھی پڑھو اور سؤو بھی، روزہ بھی رکھو اور چھوڑو بھی کیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے، تمہاری آنکھ کا حق ہے، تمہارے مہمانوں کا حق ہے اور تمہارے بیوی بچوں
کا حق ہے۔( صحیح بخاری، حدیث نمبر1975، صفحہ:39)
اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے ، "
اتنا ہی عمل لازم کرو، جتنا تم آسانی سے
کر سکو۔"
اللہ پاک سے دعا ہے، رب کریم ہمارے دلوں سے دنیوی خواہشات نکال کر
فکرِ آخرت کا جذبہ دائمی ڈال دے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا۔
"یعنی بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کےساتھ
کئے جائیں"۔
میانہ روی اور اعتدال کا مطلب:تمام افعال میں ایسی درميانی راہ اختیار کرنا
کہ جس میں نہ تو افراط(زيادتی، حد سے بڑھنا) ہو اور نہ ہی تفریط(کمی کرنا) ہو۔
میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت:
میانہ روی کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ
مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک
مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک
شخص کے پاس سے گزرے، جو مکّہ مکرمہ میں ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، واپسی پر بھی
اُسے اسی حالت میں پایا تو ارشاد فرمایا:" اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے،
اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، بیشک اللہ عزوجل اجر عطا فرمانے سے نہیں اُكتاتا، بلکہ
تم(عبادت سے)اُكتا جاتے ہو۔"
حدیثِ مذکورہ میں عبادت میں میانہ روی اختیار
کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور تنگی میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے ، یہ حدیث نماز
ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام نیک اعمال کو بھی شامل ہے۔
میانہ روی اختیار کرنا بھی” عبادالرحمن
“کی صفات میں شامل ہے :
چنانچہ اللہ تعالی عبادالرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے سورة الفرقان
کی آیت نمبر 67 میں ارشاد فرماتا ہے، وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا
وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)
ترجمہ
کنزالایمان:اور
وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ
اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
میانہ روی منزلِ مقصود تک
پہنچاتی ہے:
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میانہ روی اختیار کرو یعنی
تم نفلی عبادات میں اتنی سختی نہ کرو کہ اُكتاہٹ کا شکار ہو کر نیک اعمال سے دور
ہو جاؤ اور حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہو جاؤ ، خبردار! حد سے نہ بڑھو، درميانی
راہ اختیار کرو، تم منزلِ مقصود تک پہنچ جاؤ گے، اپنے تمام اوقات، عمل میں نہ
گزارو بلکہ نِشاط کہ اوقات کو غنیمت جانو اور وہ دن کا پہلا اور آخری حصّہ ہے اور
رات کا کُچھ حصّہ ہے اور اپنی جانوں پر رحم کرو تا کہ ہمیشگی سے عبادت کر سکو ۔
میانہ روی اور اعتدال کا بہت زیادہ فائدہ ہے،
کیوں کہ بسا اوقات انسان کسی کام میں شدّت اختیار کرتا ہے، تو وہ جلد ہی اُس کام
سے اُکتا جاتا ہے اور اگر تفریط(كمی) سے کام لیتا ہے، تو اس کام کو اچھی طرح سے
سرانجام نہیں دے سکتا، برخلاف اس کے کہ اگر وہ اسی کام کو میانہ روی و اعتدال کے
ساتھ کرے، تو وہ ہمیشہ اس کام کو کر سکتا ہے اور بہترین عمل بھی وہی ہے، جس میں
ہمیشگی اختیار کی جائے اور میانہ روی استقامت کی کنجی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دینِ اسلام سب مذاہب سے
آسان ہے ، اس میں افراط اور تفریط بالکل نہیں ہے ، اسلام ہمیں قول و فعل و ہر عمل
میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
اللہ عزوجل ہمیں ہر کام میانہ روی سے کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میانہ روی اور اعتدال(درمیانی راہ)اختیار
کرنے میں فائدے ہی فائدے ہیں بھلے وہ دُنیا کا معاملہ ہو یا دین کا، میانہ روی سے کی جانے والی عبادات میں دِل جمعی اور اِستقامت نصیب ہوتی ہے، اپنے اور متعلقین کے حقوق کی ادائیگی میں سہولت رہتی ہے اور بندہ آسانی سے کامیابی کی منزلوں تک رسائی حاصل
کرسکتا ہے ، کیونکہ عبادات میں میانہ روی اللہ عزوجل کے نیک بندوں کا طریقہ اور ان کی سُنّت ہے، اس
کی پیروی میں عا فیت اور آسانی ہے، اسلام میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ
اِرشادِ باری تعالی ہے: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ
اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)
ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے
نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )
علامہ علاءُالدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جب مشرکین نے خاتم النبین
صلی اللہ
علیہ وسلم کو عبادت میں بہت
زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر قرآن( پاک) اس لیے اُتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں
پڑو ۔"اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل
ہوئی۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، جلد 2 ، ص421۔422)
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وَعَن ا بْنِ مَسْعُوْدِِ رضی
اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ھَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ
قَالَھَا ثَلَاثَا۔
ترجمہ:"حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا: "غُلُوّ و تکلُّف
کرنے والے ہلاک ہو گئے"۔
امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں
پڑتے ہیں اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدّت کرتے ہیں۔
(فیضان ریاض
الصالحین، جلد 2، ص438)
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ
اللہِ جَابِرْ بِنْ سَمْرَۃَ السُّوَانیِ رضی اللہ عنہما قَالَ: کُنْتُ اُصَلِّی مَعَ
النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلَوٰاتِ فَکَانَتْ
صَلَاتُہٗ قَصْدََا وَ خُطْبَتُہٗ قَصْدََا۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔"(فیضان
ریاض الصالحین، ج2، ص450۔451)
اس سے معلوم ہوا کہ میانہ روی کامیابی
کیلئے ضروری ہے، دین و دنیا دونوں معاملات
میں میانہ روی اختیار کی جائے، عبادت میں اس قدر شدّت نہ کی جائے کہ حقوق العباد
(بندوں کے حقوق ) تلف (ضائع ) ہو جائیں اور نہ بہت کمی کی جائے، اعتدال و استقامت
کے ساتھ چلا جائے، جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے تو اس میں بھی میانہ روی ضروری
ہے، زیادہ دنیا میں مگن ہو جانا ، دولت زیادہ کرنے کی ہوس (خواہش ) ہونا ، دین سے دور کرتا ہے اور خدا نخواستہ ایمان ضائع
ہونے کا اندیشہ ہے اور دنیا کو بالکل چھوڑنا بھی نہ چاہیے کہ حقوق اللہ کے
ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ضروری ہیں، دنیا کا استعمال جتنا بھی کرے اُس سے اپنی آخرت
سنْوارے، مُباح کاموں پر اچھی نیت کرلے تا
کہ اچھی نیت پر ثواب ملے ۔
اللہ کریم ہمیں دین و دُنیا کے معاملے میں میانہ
روی اور اعتدال اختیار کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم
اعتدال
و میانہ روی دینِ اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے، جو اس کے ہر معاملے اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے، اعتدال و میانہ روی کا مطلب
یہ ہے کہ تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو،
نہ تفریط ہو، یعنی نہ شدت ہواور نہ کوتا ہی ہو، جب دینِ اسلام کی یہ
نمایاں خصوصیت ہے، جو اس کو تمام اَدیان
سے ممتاز بناتی ہے، لازمی طور پر اُمّتِ
مسلمہ کی بھی یہی خصوصیات ہوں گی، وہ عدل
و اعتدال سے مُتصف اور افراط و تفریط سے مُبراء رہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم
نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم
لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ البقرہ
، 143)
اللہ پاک نے اس امت کو اُمتِ وسط کا
خطاب اس لئے دیا کہ وہ اپنے دین کے ہر
معاملے میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی سیرت کے بے شمار پہلوؤں میں ایک پہلو اعتدال و میانہ روی بھی ہے، اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کا طُرّہ
امتیاز اور محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری
زندگی کا نچوڑ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، گفتگو
کرنا، تجارت ومعاملات کرنا الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا، اعتدال و میانہ روی کی نمایاں عکاسی کرتی ہے۔
نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم نے اعتدال
و میانہ روی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:" کھاؤ، پیو ، پہنو اور صدقہ
کرو، جب تک اس میں اِسراف وتکبّر کی آمیزش
نہ ہو۔"
(سنن ابن ماجہ)
خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کی تمام تر تعلیمات اعتدال
و میانہ روی پر مبنی ہیں، چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یا دوسرے اُمور سے ہو۔
اللہ
پاک ہم سب کو اپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
افراط
و تفریط، انتہا پسندی، شدت اور بے اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں، جن کو کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا
ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو
ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، افراط و تفریط چاہے
زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں اس کا مظاہرہ کیا جائے، نتائج و اثرات کے لحاظ سے نقصان رساں اور مایوس کُن ہوتی ہے، بُرے اعمال تو ایک طرف رہے، اچھے اعمال اور نیک افعال میں انتہا پسندی اچھی
اور مستحسن نہیں ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور اسی لئے اس کا دیا ہوا
نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل
نظام ہے، افراط وتفریط کی اس نے کسی شعبہ
زندگی میں بھی اجازت نہیں دی ہے۔
قرآن
مجید میں مسلمانوں کو اُمتِ وسط کے خطاب
سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
یعنی: ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں
ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔
(سورۃ البقرہ، ، 143)
مسلمانوں
کو امتِ وسط کہہ کر واضح کردیا گیا ہے کہ
درمیان کا راستہ اور اعتدال کا طریقہ ان کے نمایاں اوصاف میں شامل ہونا ہے، چنانچہ غلو سے پر ہیز، انتہا پسندی سے گریز اور میانہ روی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے،
مسلمانوں کو صاف بتادیا گیا ہے کہ
ترجمہ کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ اپنی گردن
سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا"(بنی
اسرائیل، 29)
بخل
کی عادت انسان کو اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز
نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اسی
لئے اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی گئی ہے، سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی
کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔
(الفرقان، 67)
میانہ
روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ
خرچ کرتا ہے اور نہ ضروری خرچ کے موقع پر
ہاتھ روکتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔" ( شہید حکیم محمد سعید)
میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ
قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے، اس کے برعکس انتہا پسند ی ، شدت پسندی اور بے
اعتدالی کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، شدت و انتہا پسندی دین و دنیا کے کسی بھی
شعبے میں ہو، اس کے نتائج و اثرات نقصان رساں اور مایوس کُن نکلتے ہیں، اسی لئے
میانہ روی اور اعتدال کی اِسلام میں بہت اہمیت ہے، اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کا
دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل نظام ہے۔
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ حق کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی
جانب بلانا شروع کیا، لیکن اس وقت عرب کے لوگ اس قدر بے راہ اور کفر و شرک کی اتنی
تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ تھی، ان کی بے حسی نے ان کو
اعلان حق پر بھی کان دھرنے نہ دیا، اپنی قوم کی نفرت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملال ہوتا اور دل دکھتا، اللہ پاک نے جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینِ اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا
تو فرمایا: مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)
ترجمہ
کنز الایمان: "اے محبوب!
ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )
اس ارشادِ ربّانی پر غور
فرمائیے، حق کا معاملہ ہے، اس کی دعوتِ
عام کا مرحلہ درپیش ہے، اللہ کے
آخری پیغمبر صلی
اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی
حالت پر غمگین ہیں، لیکن اس میں بھی شدت سے منع کیا جا رہا ہےتو توازن و اعتدال کی
اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ قیامِ حق میں بھی اس کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت
فرمائی گئی، میانہ روی کی تاکید صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں، بلکہ اِسلام کی
امتیازی خصوصیات میں میانہ روی اور اعتدال شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کو "الکتاب
" کے علاوہ "المیزان" اور مسلمانوں کو اُمتِ وَسط کے خطاب سے نوازا
گیا ہے، اللہ
تعالی نے فرمایا
ترجمہ
کنز الایمان:اور
بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔
(سورۃ
البقرہ ، 143)
اسی طرح خرچ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:ترجمہ
کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ
اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا
تھکا ہوا"
(بنی اسرائیل، 29)
اس
آیت کا منشا بھی یہی ہے کہ انسان نہ کنجوسی اختیار کرے اور نہ اِسراف کرے، یہ
دونوں طریقے غلط ہیں اور میانہ روی کے خلاف ہیں، بلکہ میانہ روی کو اللہ عزوجل نے مومن کی صفت کہا ہے۔
ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں
نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(الفرقان 67)
بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان عبادت میں غلو برتنے لگے اور پیروی حق کے
جوش میں اعتدال کو نظر انداز فرمانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹوکا اور میانہ روی کی تلقین کی،فرمایا:"
اعتدال یعنی ہر کام کو افراط وتفریط کے بغیر کرنا نبوت کا پچیسواں حصہ ہے"۔
میانہ روی سب کے لئے ضروری ہے
اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیا وی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مُفید
نہیں، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے، اللہ پاک ہمیں دینِ اسلام اور قرآن و حدیث کے مطابق اور سنت
پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میانہ روی کا معنی و مفہوم:میانہ
روی فارسی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کو "اعتدال" بھی کہتے ہیں۔
مفہوم:میانہ روی کے لفظی معانی "درمیانہ
روش یا چال" کے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں افراط و
تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کی
جائے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ، ترجمہ کنز
الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔(سورۃ
البقرہ، 143)
تاریخ
سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی اقوام زندگی کے مختلف شعبوں میں افراط وتفریط کا شکار ہو
گئیں تھیں، اسی طرح وہ اپنے عقائد ، عبادات، معاشرتی اور معاشی زندگی میں افراط
وتفریط کی روِش اپنا کر وہ فطرت کی راہ سے دور ہو گئیں، اسلام کے تمام عقائد میں میانہ روی کی روح شامل ہے، تو جس سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی نے تو اس امت مسلمہ کا نام ہی
وسط و اعتدال والی امت بتایا ہے۔
معاشرت میں میانہ روی:
معاشرت
میں میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ اُٹھنے بیٹھنے اور زندگی گزارنے کے مختلف پہلوؤں میں
اعتدال کی راہ اختیار کرلی جائے، نیز
گفتگو کرتے ہوئے نہ ہی اتنی بلند آواز سے گفتگو کی جائے اور نہ ہی اتنی دھیمی آواز سے گفتگو کرنی چاہیے بلکہ ہر کام میں میانہ
روی اختیار کرنی چاہیے، اسی طرح کھانے
پینے وغیرہ میں نہ اتنا کم کھانا چاہیے کہ آدمی کمزور ہوجائے اور
نہ ہی اتنا زیادہ، اسی طرح پیدل چلتے وقت
بھی میانہ روی سے کام لیا جائے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: وَ اقْصِدْ
فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ ۔ ترجمہ کنز الایمان: " اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔" (
لقمان، آیت19)
میانہ روی کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: مَاعَالَ مَنِ ا قْتَصِد:ترجمہ:"جو
میانہ روی اختیار کرے گا وہ محتاج نہ ہو گا۔"
معیشت میں میانہ روی:
روز
مرہ زندگی میں ذاتی اخراجات ہوں یا گھریلو اخراجات، سب میں خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف سے کام لیا جائے اور نہ ہی بخل
سے، بلکہ درمیانی راہ اپنائی جائے، مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا:"اور
جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ
اعتدال کے ساتھ ، نہ ضرورت سے زیادہ ، نہ کم۔"
میانہ روی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال:
(*)
جب تمہیں اپنے نفس کی اصلاح منظور ہو، تو
میانہ روی اختیار کرو۔
(*)
اللہ تعالی جب کسی بندے سے بھلائی کا
ارادہ فرماتا ہے تو اسے میانہ روی، راست
روی اور حسن تدبیر کی نعمت عطا فرماتا ہے۔
(*)
میانہ روی کو لازم پکڑو، یہ فراغت کا بہت
اچھا معاون (مددگار) ہے۔
(*)
تین عادتیں ایسی ہیں، اگر وہ کسی میں پائی
جائیں تو وہ کامل ایمان والا کہلائے گا، (1) حالتِ غصہ اور خوشی میں انصاف کرنے
والا۔(2) حالت فقر اور غنا میں میانہ روی
اختیار کرنے والا۔(3) اللہ
تعالی کا عذاب اور اس کی رحمت کی امید رکھنے والا۔
(*)
اے بندے! خرچ میں میانہ روی اختیار کر اور اسراف کو ترک کردے۔
(1) لغوی معنی: اس سے مراد "برابر" اور
"یکساں ہونا"۔
(2) اصطلاحی معنی: اعتدال و میانہ روی کا
مطلب تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا، جس میں نہ افراط ہونہ تفریط، یعنی
نہ شدت ہو اور نہ کوتاہی ہو۔
(3) قرآن مجید کی روشنی میں:
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ
اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ
قَوَامًا(۶۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال
پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ
لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)
ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن
سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا "۔(پارہ
15،بنی اسرائیل،29)
(4)حدیث مبارکہ کی روشنی میں:
آپ صلی اللہ
علیہ وسلم "درست رہنمائی، اچھی چال اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے"، دولتمندی میں میانہ روی کتنی اچھی بات ہے، فکر و فاقہ میں اور عبادت میں درمیانی چال کتنی اچھی صفت ہے، اعمال میں سب سے بہترین عمل وہ ہے جو درمیانہ درجہ کا ہو۔"
(5)واقعات :
حضرت
ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ایک رات کو نکلے، تو آپ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر نماز میں پست
آواز سے تلاوت کر رہے تھے اور حضرت عمر بلند آواز سے قراءت کر رہے ہیں،پھر جب یہ دونوں
حضرات آپ کی مجلس میں اکٹھے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"اے
ابوبکر! جب میں تمہارے پاس سے گزرا تو میں
نے دیکھا کہ تم پست آواز سے قراءت کر رہے
تھے، اس کی کیا وجہ تھی؟ ابوبکر نے جواب دیا،
کہ میں اس کو سنا رہا تھا جس سے سرگوشی کر
رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:" اے عمر !جب میں تمہارے پاس سے گزرا، تو دیکھا تم بلند آواز سے قراءت کر رہے ہو؟ حضرت
عمر نے جواب دیا:' میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا، چنانچہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرو، اور حضرت عمر سے فرمایا:" اے عمر !تم اپنی
آواز پست کرو۔
ایک مرتبہ تین صحابہ کرام رضوان
علیہم اجمعین آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں
ہمیشہ ہر رات جاگ کر نماز پڑھتا رہوں گا، کبھی سویا نہیں کروں گا، دوسرے نے کہا:" کہ
میں ہمیشہ روزہ رکھوں، کسی دن افطار نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا:" میں کبھی شادی نہیں کروں گا
، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:" جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں
تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اللہ پاک سے ڈرنے والا ہوں، لیکن مین کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی افطار
کرتا ہوں، راتوں میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں،
لہذا جس نے میری سنت سے منہ پھیرا، وہ مجھ سے نہیں، اس حدیث مبارکہ میں واضح ہوتا ہے اللہ
تعالی نے تمام امور میں غلوو تقصیر سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ دینی عبادات و تعلیمات میں بھی غلوو
تقصیر سے کام لینا جائز نہیں۔