دعوتِ اسلامی کی   26 رکنی مرکزی مجلسِ شوریٰ میں ایک اور رکن کا اضافہ ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق حیدر آباد کے قاری محمد ایاز عطاری دعوتِ اسلامی کے نئے رکنِ شوریٰ اور حیدرآباد ریجن کے نگران مقرر ہوئے ہیں۔ ان کی شوریٰ میں شمولیت کا اعلان دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولاناحاجی محمد عمران عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے شوریٰ کے مشورے میں کیا۔ قاری محمد ایاز عطاری کی شمولیت کے بعد اراکینِ شوریٰ کی تعداد 27 تک پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ مجلسِ شوریٰ (دعوتِ اسلامی) کا تین روزہ مدنی مشورہ 15 مارچ 2021 سے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں شروع ہوچکا ہے جس میں دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا اور مختلف امور زیرِ غور ہوں گے۔


جُمہورمحدثین کے نزدیک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول، فعل اورتقریرکوحدیث کہاجاتاہے، تقریر یہ ہےکہ نبی ِّکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنے کوئی کام کیا گیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےدیکھا اوراس سےمنع نہ فرمایا بلکہ سکوت فرمایا، عہدِ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے لےکرآج تک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کوجمع کرنے کے لئے بڑی محنتیں اور مشقتیں کی گئی ہیں جیساکہ امام بخاری، امام حَفْص بن غِیاث، امام ہَیّاج بن بِسطام، امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہم کی کوششیں ہیں، ان یگانۂ روزگارہستیوں کی ہی برکات ومحنتیں ہیں کہ آج ہمارےپاس کثیرکتبِ احادیث موجود ہیں۔ آئیے اب ہم چند مشہور ائمہ احادیث کی حدیثوں کوجمع کرنے کے حوالے سے کوششوں اورمحنتوں کاذکر کرتے ہیں:

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے طلبِ حديث کے لئے خراسان، عراق، مصر، شام اور دیگر دور دراز علاقوں کے سفر کئے۔)[1](

امام عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ چار مہینےطلبِ حدیث میں گزارتے، چار مہینےمیدانِ جہاد میں اور چار ماہ تجارت کرتے۔)[2](

امام یحییٰ بن معین کے بارے میں خطیب بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہما لکھتے ہیں:”ساڑھےدس لاکھ دِرہم آپ نے علم ِحدیث کے حصول میں خرچ کردیئے، آخرمیں چپل تک باقی نہ رہی۔ “)[3](

امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے:”پہلی مرتبہ جب میں علمِ حدیث کے حصول کےلئے نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا، جب مسافت زیادہ ہوگئی تو میں نےشمار کرنا چھوڑ دیا۔)[4]( علمِ حدیث کی طلب میں ہَیْثَمْ بن جمیل دو مرتبہ افلاس کےشکار ہوئے، سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔)[5](

امام ربیعہ بن ابی عبدالرّحمٰن رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ”اسی علمِ حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں۔)[6](

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی محنتوں اور مشقتوں کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں بھی علمِ حدیث سے محبت کی دولت سے سرفراز فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])اعلام للزرکلی،6/33

([2])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص115

([3])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص117

([4])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص121

([5])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص122

([6])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص123


     ہر انسان اپنی زندگی کو خوشحال بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے روز مرّہ کے معاملات کی وجہ سے کافی پریشان رہتا ہے۔ جس طرح آج کے دور میں دنیا جیسے جیسے ترقی کرتی جارہی ہے اسی طرح ہمارے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔

سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ بے تحاشہ اخراجات اور جو خواہشات ہمارے دل میں اٹھتی ہیں ان پر عمل کرنا یا ان کو حاصل کرنا یا کسی صاحبِ حیثیت کی طرز زندگی کو اپنانا یہ عقلمندوں کا کام نہیں۔

اپنے اخراجات کو ( balance) میں رکھنا یعنی اعتدال میں رکھنا یہ بڑی عقلمندی دانائی اور تدبر کی بات ہے ۔چنانچہ اللہ پاک اپنے بندوں کو قرآن کریم میں نصیحت فرماتا ہے

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔(پ1 ، البقرہ :3)

آیت مبارکہ میں فرمایا گیا جو ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہیے ۔ (صراط الجنان جلد 1 صفحہ 67)

اسی چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔ (پ15 ،بنی اسرائیل :29)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :التدبیر نصف المعیشۃ تدبیر سے کام لینا نصف معیشت ہے (مسند الفردوس)

مال میں تنگی کی تین احادیث مبارکہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار باب سین 444/1 الحدیث 2511)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔

(معجم الاوسط باب العین من اسمہ علی 125/3 الحدیث: 4066)

  اللہ  پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات اور اپنی عبادات میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو جو شرف و فضیلت ومقام و مرتبہ  عطا فرمایا ہے وہ نعمتِ علم ہی کے سبب ہے اور یہ اتنی عظیم نعمت ہے کہ جو بھی اسے خلوصِ نیت کے ساتھ حاصل کرتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں رہتا ۔ہمارے اسلاف نے حصولِ احادیث کے لئے اونٹ اور گھوڑوں کے ذریعے دور دراز شہروں کا سفر اختیار فرمایا اور طرح طرح کی مشقتیں برداشت کیں۔ گویا کہ ہمارے اسلاف کے زیر نظر یہ آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ ہوگی جو حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔( شعب الایمان للبیھقی ،باب فی طلب العلم، الحدیث 1663،ج2 ص 253 دار الکتب العلمیہ 1421ھ)/(عاشقانِ حدیث کی حکایات ص 14 )

قرآن مجید میں اللہ پاک نے طلب علم (علمِ حدیث) کی خاطر سفر اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ ترجمہ کنز الایمان: تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔(پ 11 التوبہ:122)

تفسیر کبیر میں مذکورہ آیت کے تحت ہے کہ اگر اپنے وطن ہی میں علم حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کے لئےسفر کرنا واجب نہیں ۔ہاں! آیت مبارکہ کے الفاظ طلب علم کیلئے سفر کرنے پر دلالت کرتے ہیں( کیونکہ) یقینی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مبارک اور نفع مند علم سفر کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، ابی حاتم ، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج 6 ص المکتبۃ الحنفیۃ پاکستان181،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ آیت مؤمنین کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وطن چھوڑ کر نفع مند علم کے حصول کیلئے سفر کریں۔ ( تفسیرروح البیان، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج3 ص537 دار احیاء التراث 1420ھ)/ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

حضرت موسٰی علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی طلب علم (علمِ حدیث)کے لئے سفر اختیار فرمایا ۔حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث کے حصول کے لئے مدینہ منورہ سے حضرت سید نا عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی جانب مصر کا سفر اختیار فرمایا۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص7)حضرت سید نا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے طلبِ علم کی خاطر یمن، مصر، شام، بصرہ اور کوفہ کی طرف سفرفرمایا ۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات19)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ حضرت سید نا معمر بن راشد رضی اللہ عنہ نے طلب حدیث کیلئے یمن کا سفر فرمایا اور آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کیلئے سفر فرمایا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم 8584 معمر بن راشد ج59 ص409 دار الفکر بیروت 1415ھ،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص19 )

آج کے اس پُر فتن دور میں لوگ دنیاوی تعلیم کے حصول کیلئے تو دور دراز ملکوں کا سفر اور مشقتیں برداشت کرنے کے لئے با آسانی آمادہ ہو جاتے ہیں مگر علم دین کے حصول کے لئے سفر تو دور کی بات ہے اپنے ہی محلے کی مسجد میں حصولِ علمِ دین کے لئے آمادہ نہیں ہوتے،حتٰی کہ لوگ علم دین سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ فرائض و واجبات اور ضروریاتِ دین کے علم سے بھی نا واقف ہوتے جا رہے ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلافِ کرام کی طرح علم دین کے حصول کیلئے خوب جدو جہد اور کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے حصول کیلئے سفر اختیار کریں۔


حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی محبت اور عبادت کے شوق میں کثرت سے راتوں کو قیام کرتے تھےاور راتوں کی عبادت اس قدر شدت سے کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم پڑجاتا اور قدم مبارک سوج جا یا کرتے، اس پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان : اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔ (پ:١٦،طہ:٢)

اللہ پاک نے حکم دیا کہ اپنے نفس کو کچھ راحت د یجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔

ایک اور شانِ نزول کچھ اس طرح سے ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے شدید رنج و الم میں مبتلا رہتے اور دل مبارک انتہائی افسردہ رہتا، تو اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں کیونکہ قرآن مجید آپ کی مشقت کے لیے نازل نہ کیا گیا ہے ۔

اس آیت میں اگرچہ کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے ہے لیکن مقصود امتِ مسلمہ کو نصیحت کرنا ہے کہ زندگی کا پہیہ اعتدال سے چلانے میں ہی عافیت و آسانی ہے۔

اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتےہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرتِ کائنات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر چیز اور ہر نظام ایک معتدل انداز میں رواں دواں ہے ،کمی ہے نہ شدّت ۔ اسی طرح اسلام بھی میانہ روی اور اعتدال کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے ،کیونکہ شدّت پسندی وبےاعتدالی کوہرگز پسند نہیں کیا جاتا اور اسکے برعکس اعتدال و میانہ روی کو لازمی پسند کیا جاتا ہے اور جاتا رہے گا ۔ کامل ایمان والے بھی وہی ہیں جن کا نظامِ حیات اعتدال و میانہ روی کے اصولوں پر گامزن ہو گا۔جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنزالایمان : اور وہ کہ جو خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ (پ١٩،الفرقان:٦٧)

کتنی وضاحت کے ساتھ فرمادیاگیا کہ رحمٰن کے بندے وہی ہیں جو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی بلکہ دونوں برے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حسین بناتے ہیں کہ اسراف یعنی فضول خرچی سے زندگی کا سکون اورچین برباد ہوجاتا ہے اور زندگی کا بیشتر وقت انہی معاملات کو سلجھانے میں لگ جاتا ہے اور زندگی کی راحت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اسراف میں کوئی بھلائی نہیں ،تو دوسرے بزرگ نے فرمایا : بھلائی کے کام میں اسراف ہوتا ہی نہیں ۔

اسی طرح حد سے کم خرچ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ بخل کی عادت انسان کو اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیتی ہے ۔ مال کو جمع کرنے کی لالچ و ہوس انتہائی عجیب وغریب ہے کہ بے مقصد اپنے آپ کو مشکل حالات میں ڈالنا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے :وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان : اور اپنا ہاتھ اپنی گریبان سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا(پ:١٥،بنی اسرائیل:٢٩)۔

اس آیت کا مقصدہی یہی ہے کہ انسان نہ توبالکل ہاتھ روک لے اور خرچ ہی نہ کرے یا ضروت سے کم کرے اور نہ ہی خرچ کرنے میں اتنا بڑھ جائے کہ پلّےکچھ بھی نہ بچے۔ اسی لیے اللہ پاک نے دینِ اسلام کو اسقدر آسان بنایا اوردرمیانی راہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا کہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار نہ کرلیں۔


دین اسلام کے ستارے جنہوں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ پاک اور روزمرّہ کے معاملات کو اپنی آنکھوں میں بسایا تو ان عظیم ہستیوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر(یعنی وہ کام جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو ہوا ہو لیکن اسے منع نہ فرمایا ہو)کو سننے اور دیکھنے کے بعد ان سب معاملات کو نقل وروایت کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن بعد میں آنے والی امتِ مسلمہ کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال سے آگاہ کرنے کے لیے نقل و روایت کا سلسلہ شروع کیا ۔ان عظیم ہستیوں نے نہایت دیانت داری، وفا داری،خلوص و محبت اور بے انتہا احتیاط کو ملحوضِ خاطر رکھتے ہوئے احادیثِ نبوی کو نقل و روایت کرتے ہوئے تابعین تک پہنچایا۔ تابعین کی مقدس جماعت نے پوری امانت داری کے ساتھ تبع تابعین کو یہ مقدّس ذخیرہ حوالے کیا اور یوں سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد بھی ہمیں احادیثِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھر پور حاصل ہے۔ یہ سب علمائے محدثین کی بے پناہ کوشش ،دیانتداری و لگن کا ثمرہ ہے جنہوں نے ضخیم ضخیم کتب میں انہیں محفوظ کر کے علمِ حدیث کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک جس کسی نے علم حدیث پر کام کیا ان کی مثال آپ ہے کہ ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے ملکوں کا سفر طے کیا کرتے تھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیثِ پاک کے دوسرے راوی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پاک سے مصر تک کا سفر طے کیا تاکہ وہ اس بات کو پختہ و مضبوط کر سکیں کہ اس حدیث کے دو راوی ہیں۔

(معرفة علوم الحدیث ،ص٨)۔

احادیثِ کریمہ کے اصول مزیّن کرنے میں جو اعلٰی پیمانے قائم کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک مسئلہ درپیش ہوا اور اسکا حل قرآنِ مجید سے نہ ملا تو صحابہ کرام کی ایک جماعت سے دریافت کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ پاک بیان کر کے مسئلہ حل کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ میں ہے جن کی دیانت اور تقوٰی اور امانت و راستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اسکے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حدیث مبارکہ کی تفتیش کے لیے پوچھا کہ اسکا کوئی اور راوی بھی ہے ؟ جب ایک اور صحابی رسول نے گواہی دی تو حکم جاری کیا (معرفة علوم الحدیث ، ص ١٤)۔

گویا یہ بات واضح کی کہ حدیثِ پاک کی تحقیق و تفتیش کے لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی شریعت کے احکام بیان ہوتے ہیں ۔

احادیثِ مبارکہ کی خدمت کرنے میں ایک اہم عمل حدیث کو حفظ کرنا ہے اور کئی جیّد علمائے حدیث نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں احادیث کو حفظ کیا ۔ان میں نمایاں اسم حضرت ابو عبد اللّٰه محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ البخاری کا ہے جنہوں نے چھ لاکھ احادیثِ مبارکہ کو اپنے سینے میں محفوظ فرمایا اور جمع احادیث کا مجموعہ بنام الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللّٰه و سننہ وأیامہ تحریر فرما کر امتِ مسلمہ پر عظیم احسان کیا ۔ اسی طرح دیگرمحدّثین نے بھی لاکھوں احادیث حفظ کر کے قلم بند کیں اور فنِ حدیث میں بھی بے حساب خدمت سر انجام دی ۔ اللہ پاک ان سب کے صدقے میں ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید شریعت مطہرہ کا بنیادی ماخذ ہے  جس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے۔ سنن نبویہ اس جامع کتاب کی تشریح ہیں جن کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے جمع حدیث کیلئے بہت مصائب و آلام برداشت کیے۔

ذیل میں علمائے اسلام کی جمع حدیث میں اٹھائی جانے والی مشقتوں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے جس سے بزرگان دین کی خدمت حدیث کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔

1: حبر الامۃ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : جس (صحابی) کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ اِن کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں ان کے در دولت پر پہنچتا اور حدیث سن کر یاد کرلیتا ۔بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام کر رہے ہیں تو ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گرد و غبار اڑ کر میرے چہرے اور کپڑوں پر لگ جاتا لیکن میں اسی طرح منتظر رہتا، یہاں تک کہ وہ خود باہر تشریف لاتے تو اس وقت اپنا مُدّعا بیان کرتا۔(جامع الاحادیث ص 129 ملخصاً و ملتقطاً)

2:امام ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ طلبِ حدیث کیلئے مدتوں سفر میں رہتے ۔ آپ کے صاحبزادے کا بیان ہے،میرے والد فرماتے تھے:سب سے پہلے علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا۔مزید خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:میں بحرین سے مصر پیدل گیا، پھر رملہ سے طرطوس کا سفر پیدل ہی کیا، اس وقت میری عمر بیس (20) سال تھی۔ (تدوین حدیث صفحہ 116 ملخصا و ملتقطا )

3:امام ہیثم بن جمیل بغدادی رحمۃ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ علم حدیث کی طلب میں شب و روز سرگرداں رہے۔ مالی پریشانیوں سے بھی دوچار ہوئے۔لکھا ہے : افلس الهیثم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین یعنی علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دومرتبہ افلاس (تنگدستی) کے شکار ہوئے۔(یہاں تک کہ) سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا ۔( ایضا ًصفحہ 117)

4:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اُستاد امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ مذبلہ( کچرا کنڈی) جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔( ایضا ًصفحہ 118 )

5:بصرہ میں امام بُخاری حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کئی دنوں تک درس میں شریک نہ ہوئے ۔ تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ آپ ایک اندھیری کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور جسم پر ایسا لباس نہیں جیسے پہن کر باہر نکل سکیں۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا ہے ۔آخر چند ساتھی طلباء نے مل کر رقم جمع کی اور کپڑا خرید لائے،تب کہیں جا کر امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ پڑھنے کیلئے نکلے۔(ایضاً 118)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پ۱۹، الفرقان: ۶۷)

میانہ روی کے بارے میں ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوب ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا:میانہ روی سے خرچ کرنا نصف معیشت ہے اورلوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے اوراچھا سوال کرنا آدھا علم ہے ۔(حسن اخلاق ،ص:۵۳ )

اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا ذکرکرتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔(جہنم میں لیجانے والے اعمال (جلد اوّل) ۲۵۹ )

حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو مکہ مکرمہ میں ایک چٹان پرنماز پڑھ رہاتھا ۔ واپسی پر بھی اسے اسی حالت میں پایا تو ارشادفرمایا: اے لوگو! تم پرمیانہ روی لازم ہے، اےلوگو! تم پر میانہ رَوِی لازم ہے، ا ے لوگو!تم پرمیانہ روی لازم ہے۔ بے شک !اللہ پاک (اجرعطافرمانے سے) نہیں اکتاتابلکہ تم (عبادت سے ) اُ کتا جاتے ہو۔ (ریاض الصالحین جلد ۲ صفحہ ۴۲۱ )

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : اعتدال پسندی، میانہ روی اور اچھی نیت نبوت کے 24 اجزاء میں سے ایک جُز ہے۔

(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی التأنی، الحدیث:۲۰۱۰،ص۱۸۵۳)

دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : عملِ آخرت کے علاوہ ہر چیز میں اعتدال پسندی اچھی چیز ہے۔(المستدرک ،کتاب الایمان، باب التؤدۃ فی کل شیء، الحدیث: ۲۲۱،ج۱،ص۲۳۹)

آدمی کو چاہیے کہ عبادت میں میانہ روی اختیار کرے اور اتنا ہی عمل کرے جس کو آسانی کے ساتھ ہمیشہ کرسکے کیونکہ تھوڑا عمل جو ہمیشہ کیا جائے وہ ا س عمل سے بہتر ہے جو انسان ہمیشہ نہ کرسکے کیونکہ زیادہ کے لالچ میں تھوڑے کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔اسی کو امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ جب پتھر پر پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو سوراخ کردیتا ہےبر خلاف یکدم اگر پانی گرجائے تو اثر تک بھی نہیں ہوتا۔

اے عاشقان رسول !میانہ روی اِستقامت کی کنجی ہے۔ کثرت سےنعمتوں کا اِستعمال بھی غفلت کاسبب ہے اِس لیے اعتدال سے کام لیناچاہیے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے) مدد طلب کرو ، میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے ۔

اللہ پاک ہمیں ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


قرآن پاک میں ہے: وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(پ7،المائدہ:87)

اس پوری آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کی ایک جماعت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کے ہاں جمع ہوئی اور انہوں نے آپسں میں ترک دنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گےاور ہمشہ دن میں روزے رکھیں گےاور ساری رات عبادت الہی میں گزارا کریں گے بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔

(تفسیر قرطبی، المائدہ، تحت الآیۃ8، 156/3،الجزء السادس)

اگر اس آیت مبارکہ میں تھوڑا غور کیا جائے تو اس سے معلوم ہو گاکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعتدال اختیار کرو اور قرآن پاک میں جس چیز کا ذکر آئے وہ کوئی عام نہیں ہوتی۔اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت کیا ہے؟اس کا اندازا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات سے بھی لگا سکتے ہیں ۔

مثلا ڈرائیونگ کرنا ہمارے زندگی کے معاملات میں سے ہے۔ اگر گاڑی چلانے میں حد سے تیزی کریں گے تو ٹکرا جانے کا اندیشہ ہے اور اگر بالکل ہی آہستہ چلائیں گے تو عین ممکن ہے پیچھے سے آنے والی گاڑی ہم سے ٹکرا جائے، اگر ہم میانہ روی سے چلائیں تو حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو بالکل انسانی فطرت کے مطابق ہےاسی لئے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے، عبادت میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی ۔عبادت میں میانہ روی کی مثال یہ حدیث مبارکہ ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما فرماتی ہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ ایک خاتون ان کے پاس سے گزریں حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے تاجدار رسالت صلی الله عليه وسلم سے عرض کی: ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھرنہیں سوتیں۔ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نےارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیںاتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو۔ اللہ نہیں اکتائے گا تم اکتا جاؤ گے۔

حدیث پاک میں عبادت میں میانہ روی نہ کرنے کا نتیجہ اکتاہٹ بتایا گیا ہےاور اگر دنیاوی معاملات میں اعتدال نہ ہو تو دنیا کا نظام نہ چل سکے گا ۔


قرآن وسنت شریعتِ اسلامیہ کی اساس وبنیاد ہیں،البتہ قرآن کو اولیت حاصل  ہے،لیکن علومِ قرآن بغیر سنت نبوی حاصل نہیں ہوسکتے۔ قران کو سمجھنا ہے تو ارشادات رسول اور سنن نبویہ کا سہارا لینا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام و علماء کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) نے جس طرح قرآن کریم کی حفاظت کے لئے شب و روز جدوجہد فرمائی ،اسی طرح حفاظت حدیث کے لئے سعی بلیغ فرمائی۔

بےشک اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کائنات عالم میں معلم کتاب وحکمت بنا کر معبوث فرمایا اور بےشمار مناصب علیاو مراتب قصوی سے عزت و کرامت بخشی ۔

*آپ علیہ الصلوۃ والسلام ہادی اعظم اور مبلغ کائنات ہیں، جیسا کہ فرمان الہی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)ترجمہ كنزالايمان:اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایااور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔(پ6،المائدہ:67)

حفاظت حدیث :

علم حدیث کو دلیلِ شرعی ہونے کی سند قرآن کریم سے ملی ہے ۔خداوندقدوس نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور مسلمان کو اس پر عمل پیرا ہونے کی بدولت سعادت دارین اور فلاح ونجات اخروی کا مثردہ سنایا۔

اہل اسلام کی اولین جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فرمانِ واجب الاذعان براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا تھالہٰذا شب وروز اپنے محسن اعظم اور ھادی برحق کے اشاروں کے منظر رہتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اپنے لئے نمونۂ عمل تلاش کرتے، زیادہ وقت دربار رسالت کی حاضری میں گزارتے اور آپ کی سیرت و کردار کو اپنانا ہر فرض سے اہم سمجھتے تھے۔انکی نشت و برخاست، خلوت و جلوت، سفر وحضر،عبادت و معاملات اور موت و حیات کے مراحل سب سنت رسول کی روشنی ہی میں گزرتے اور انجام پاتے۔احادیث کی حفاظت کا انتظام اسی طرح انہوں نے روز اول ہی سے شروع کر دیا تھا۔ صحابہ کرام نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ تعلیم بھی پائی تھی کہ میری سنت اور اسوہ حسنہ میں اپنے لئے نمونہ عمل تلاش کرو۔

لہذا اس جماعت کےسربراہ حضرت ابو ہریرہر رضی اللہ عنہ ہیں جو ذخیرہ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں۔لوگوں کو ان کی کثرت روایت پر کبھی تعجب ہوتا تو فرماتے:

تم لوگ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے، تو سنو !مہاجرین تو اپنی تجارت میں مصروف رہتے اور انصار کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا،جبکہ میرا حال یہ تھا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، جب انصار و مہاجرین غائب رہتے تو میں اس وقت بھی موجودہوتا ، اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا۔جب لوگ بھولتے تو میں احادیث یاد رکھتا تھا۔

صحابہ کرام نے حصول حدیث کے لئے مصائب برداشت کئے :

اس معیار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بےساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ ان کی تبلیغ و ہدایت محض اللہ و رسول کی رضا کے لئے تھی ۔سنت رسول کی اشاعت اور اس کی تعلیم وتعلم میں انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس کرتے تھے۔

فاروق اعظم نے اشاعت حدیث کے لئے صحابہ کرام کو مامور فرمایا :

دورہ حدیث کے علاوہ انفرادی طور پر بھی حدیثیں یاد کرنے کا بڑا اہتمام تھا۔حفاظت حدیث کا یہ شغل صرف عہد نبوی تک محدود نہیں رہا بلکہ عہد صحابہ میں حصول حدیث اور اشاعت حدیث کا شوق اپنے جو بن پر تھا۔

حضرت فاروق اعظم نے خلافت اسلامی کے گوشے گوشے میں حدیث پاک کی تعلیم کے لئے ایسے صحابہ کرام کو روانا فرمایا جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ کرام میں مسلم تھی ۔ اور پھر آپ مزید اس وقت تک کے امیر/گورنر کو سخت تاکیدی حکم لکھتےکہ یہ حضرات جو احادیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تو امت پر قیامت تک فرض ہے اور اس میں ان کی ترقی، عزت اور ہیبت کا راز پنہا ں ہے۔اس لیے تو آپ نے ملک کے گوشے میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو ان کے رسول کی سنت کی تعلیم دیں اور حکام کو بار بار اتباع سنت کے لئے مکتوب روانہ فرمائے۔

صحابہ کرام نے اپنے عمل وکردار سے سنت رسول کی حفاظت فرمائی:

صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہو گئے کہ ان کو محفوظ کر کے آرام کی نیند سو جاتے، ان کے لئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کے لئے نہیں تھی جن کو یاد کر کے بطور تبرک قلوب و اذہان میں محفوظ کر لیا جاتا، بلکہ قرآنی تعلیمات کی طرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائمی تھا۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا، اور ان کا دستور عام یہ ہی تھاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے، وہ صرف خود اپنی ہی زندگیوں کو حضور کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور ہی کو نمونہ عمل کے طور پر اپنانے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔۔

کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی:

تدوین حدیث کو کتابت حدیث کی صورت ہی میں تسلیم کر نے والے اس بات پر بھی مصر ہیں کہ دوسری اور تیسری صدی میں حدیث کی جمع و تدوین کا اہتمام ہوا ،اس سے پہلے محض زبانی حافظوں پر تکیہ تھا۔ جب اسلام لوگوں کے قلوب واذہان میں راسخ ہو گیا اور قرآن کریم کا کافی حصہ نازل ہوچکا اور اس چیز کا اب خطرہ ہی جاتا رہا کہ قرآن و حدیث میں کسی طرح کا اختلاط روبعمل آئے گا تو کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

علم کو تحریر کے ذریعے مقید کر لو۔

تدوین حدیث کے لئے محدثین نے جانکاہ مصائب برداشت کئے:

تابعین عظام نے بھی ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حفظ و کتابت کا فریضہ انجام دیا۔دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی، جانفشانیاں کیں ،مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔۔

امام حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام تھے ،امام بخاری، امام ابو داؤد ،امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں۔ آپ مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو سفر شروع کر دیتے۔آپ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے: سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔پیدل تین ہزار میل چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا ۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں، امام مالک کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل کے شیخ ہیں، علم حدیث میں شب وروز سرگرداں رہے۔مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔

علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کا شکار ہو ئے۔سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ:

آپ بھی ایک عظیم محدث اور تابعی مدنی ہیں، حضرت انس بن مالک اور سائب بن یزید کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ،امام مالک،امام شعبہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ کے اساتذہ میں سے ہیں، ربیعہ الرائے کے نام سے مشہور ہیں، جب سے ربیعہ کا وصال ہوا فقہ کی حلاوت جاتی رہی۔

اس علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس سے بھی گزرنا پڑا کہ جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّٰی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔۔۔اللہ اللہ!

آئمہ اربعہ کی علمی خدمات :

امام اعظم:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار لکھی جبکہ آپ کے تلامذہ میں امام ابو یوسف ،امام محمد، امام حسن بن زیاد وغیرہ کی شاندار حدیثی خدمات سے اہل علم واقف ہیں۔ان حضرات کی جدوجہد نے روز اول ہی اس سیلاب پر بند باندھ دیا تھا کہ موضوع احادیث شرعی امور میں دخیل نہ ہونے پائیں۔صحیح کو غلط بلکہ ضعیف تک سے جدا کر کے اس بات کی صراحت کر دی گئی تھی کہ جملہ احادیث نہ استدلال میں مساوی ہیں نہ عمل میں۔۔

امام مالک:

علم حدیث کی عظمت اور کمال احتیاط دونوں ہی آپ کو ملحوظ تھیں۔ موطا امام مالک اولاً نو ہزار احادیث پر مشتمل تھی لیکن آپ اس کو بار بار قرآن کریم پر پیش کرتے رہےاور اب تعداد چھ سو سے کچھ اوپر ہے پھر یہ کیوں متصور کہ اس میں جعلی حدیثیں ہوں۔

امام شافعی :

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصحاب تو علم روایت ہی کے خوگر رہے ،پوری زندگی نشر ِحدیث و فقہ میں گزری۔

امام احمد بن حنبل: ۔

آخر میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جنکی علم حدیث میں رفعت مسلم چیز ہے۔کہتے ہیں کہ آپ ساڑھے سات لاکھ احادیث کے حافظ تھے،ان میں سے آپ کی مسند میں ستائیس ہزار ایک سو احادیث موجود ہیں۔ یہ آئمہ اربعہ کی حدیث میں منصف مزاجی اور ان کا محتاط رویہ ہے۔

ہم نے تدوین حدیث، جمع حدیث، حفاظت حدیث، اشاعت حدیث کو یہاں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی ہےکہ اہل اسلام ہرگز دھوکے میں نہ آئیں اور اپنے اسلاف کی ان کوششوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے دینی سرمایہ کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔اس علم کی حفاظت کیلئے ہمارے اسلاف نے پوری زندگی اطراف ِعالم کے خاک چھانی ہےتب کہیں جاکر ہمیں یہ مستند ذخیرہ فراہم ہوسکا ہے

رب العالمین قبول فرمائے۔

ٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!


تمام خوبیاں اس خالق کائنات کے لیے جس نے ہمیں انسان بنایا اور سب سے بہترین امت میں پیدا فرمایا۔ بے شمار درود وسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جنہوں نے عبادات پر ہماری رہنمائی فرمائی، عبادات میں زیادتی کے مختلف طریقے بتائے اورساتھ ہی عبادات میں میانہ روی کا درس عظیم دیا۔

فرمان باری تعالی ہے:طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان:اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ16،طہ:2)

علامہ علاؤ الدین علی بن محمد خازن فرماتے ہیں: جب مشرکین نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت میں بہت زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا؛اے محمد! تم پر قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے کفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ متا سف و متحسر(افسردہ) رہتے تھے اور خاطر مبارک پر اس سبب سے رنج و ملال رہا کرتا تھا۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں، قرآن پاک آپ کی مشقت کے لیے نازل نہیں کیا گیا۔

ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

ترجمۂ كنزالايمان:اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔(پ2،البقرۃ:185)

تفسیر خازن میں ہے:اسکا معنی یہ ہے کہ اللہ پاک اس عبادت میں تم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ آسانی مسافرو مریض کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے دین کے معاملے میں تم سے تنگی و پریشانی کو دور کر دیا۔

ایک قول یہ ہے کہ اللہ پاک کو یہ بات بہت پسند ہے کہ کسی شخص کو دو چیزوں کا اختیار دیا جائے اور وہ ان میں سے آسان چیز کو اختیار کرے۔

یعنی اللہ پاک تم پر آسانی چاہتا ہے اس لیے اس نے بچوں اور دیوانوں پر روزہ معاف کردیااوربیماراورمسافرکومہلت دے دی اور اسی لیے روزہ کے واسطے ماہ رمضان مقرر کیاتاکہ تمہیں حساب اورقضامیں آسانی ہو۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مقابل یعنی دشواری اور سختی ہے۔ یعنی تم پر سختی نہیں چاہتا ورنہ روزے کسی اور مہینے میں فرض فرماتا۔

( فیضان ریاض الصالحین(مکتبہ المدینہ) صفحہ :421،423)

دائمی قلیل عمل عارضی طورپرکثیرعمل سے افضل ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ہر طرح کےدینی و دنیاوی معاملات جیسے عبادت و ریاضت،اور دیگر ضروریات میں مال خرچ کرنے میں اسراف سے بچیں اور میانہ روی سے کام لیں اور عبادت وریاضت میں بھی اپنی جان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں بلکہ میانہ روی کو اختیار کریں۔

اللہ کریم اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم پر خصوصی نظر کرم فرمائے۔ ہمیں میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اعتدال ومیانہ روی دین اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے: تمام احکام وامور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ شدت ہو اور نہ از حد کوتاہی۔ جب دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے جو اس کو تمام ادیان سے ممتاز بناتی ہے   تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرار ہے۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:-

1: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ترجمہ کنزالایمان: اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ2، البقرۃ: 143)

امام طبری رحمۃ الله علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے : میں سمجھتا ہوں کہ الله نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری جیسا غلو ہے جنھوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انتہاپسندی پر مبنی باتیں کہیں ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے کہ اللہ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کرڈالی ، ا نبیاء کا قتل کیا ،اپنے رب پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر اختیار کیا ؛ لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ الله کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے۔

اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، بلکہ غلو و تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سے ڈرایا بھی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کی ان دعائیہ آیتوں سے واضح ہے جن کا ہمیں پوری سورت کے ساتھ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؛تاکہ نہ صرف یہ کہ ہم بغیر کسی افراط و تفریط کے ہمیشہ راہ حق و اعتدال پر رہیں بلکہ اپنے رب سے اس کی توفیق کے طالب بھی بنے رہیں۔

فرمان ربانی ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷) ترجمۂ کنزالایمان:راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ (پ1، الفاتحہ: 6،7)

علمائے تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ ’المغضوب علیھم ‘سے مراد یہودی ہیں اور ’الضالین ‘سے مراد نصاری ہیں، اور ان دونوں گروہوں کی کج روی کا اندازہ آپ نے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں سے لگا لیا ہو گا کہ وہ راہ استقامت سے ہٹ گئے تھے ۔ یہودیوں کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح راستہ پر نہیں چلتے تھے، آیات الہی میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف و اضافہ سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے، برائیوں سے نہیں روکتے تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ’ابن الله‘کہتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ’ابن اللہ‘ اور ’ثالث ثلاثة‘ یعنی اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں سے ایک قرار دیا ۔

یہود ونصاری کی غلو وتقصیر اور افراط وتفریط کے برعکس ہمارے دین نے اعتدال کی راہ دکھائی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، ’’سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا‘‘( متفق علیہ) کی تعلیم دی۔’ قاربوا‘ کا مطلب ہے درمیانی راستہ اپناؤ ،اور ’سدّدوا ‘کا مطلب ہے اس راستہ پر جم جائو اور استقامت اختیار کرو۔یہی ہمارے دین کا قول واعتقاد ، عمل و عبادات اور معاملات وضروریات میں شیوہ ہے ۔مثال کے طور پر عقیدے کے باب میں ہم یہ پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ؛تاکہ اللہ کے ساتھ شرک نہ واقع ہو جائے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

لَاتُطْرُوْنِی کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابنَ مَرْیَمَ ،فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری)

(میری مدح سرائی میں غلو وانتہا پسندی سے کام نہ لو جیسا کہ نصاری عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ گئے،میں صرف ایک بندہ ہوں تو مجھے الله کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔

اسی طرح عبادات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو مشقت و ہلاکت میں ڈالنے یا دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلینے سے منع فرمایا۔

عبادتوں میں میانہ روی کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے ، جن میں ایک مشہور متفق علیہ حدیث ہے: جس کا خلاصہ ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کے بارے میں دریافت کر نے کے لئے آپ کے گھر والوں کے پاس آئے ۔ جب انہیں تفصیل بتائی گئی تو انہوں نے اسے کم خیال کیا اور کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ؟ لہٰذا ایک نے ہمیشہ نماز پڑھنے کا، دوسرے نے مسلسل روزہ رکھنے کا اور تیسرے نے کبھی شادی نہ کرنے کا عہد کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے یوں تنبیہ فرمائی: سن لو !الله کی قسم میں یقینا تم سب لوگوں سے زیادہ الله سے ڈرنے والا اور تقوی اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر تاہوں، جس نے ہماری سنت سے بے رغبتی كى وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ہمارے دین اسلام نے اگرچہ آخرت کو مطمحِ نظر اور مقصد حیات بنانے پر سعادت و کامرانی کا دار ومدار رکھا ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ دنیاوی زندگی کی استواری کے لئے جائز طریقوں سے مال واسباب کا حصول اور مباحات میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے۔

فرمان الہٰی ہے:

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ترجمۂ کنزالایمان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا۔(پ20، القصص: 77)

مال کے خرچ، کھانے پینے حتی کہ صدقہ وخیرات میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی، الله پاک نے فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(پ19،الفرقان:67)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: کھائو پیو پہنو اور صدقہ کرو جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔( سنن ابن ماجۃ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات تمام تر اعتدال ومیانہ روی پر مبنی ہیں،چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یادوسرے امور سے۔ یہ عظیم ونمایاں خصوصیت اسی کا حصہ ہے جس سے دنیا کے تمام ادیان ومذاہب عاری ہیں اور یہ ان خصوصیات و اوصاف میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے دین اسلام کو دنیا وآخرت میں کامیابی کا و احد ذریعہ ہونے کا امتیازحاصل ہے۔الله پاک کا ارشاد ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(پ3،آل عمران: 19)

اللہ پاک ہم سب کواپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطافرمائےاور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بنائے۔