دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 12 مارچ 2021ء کو سویڈن( Sweden) میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ اسکائپ ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں کابینہ سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

کابینہ نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اوردینی کاموں کومزید بڑھانے کے ساتھ ساتھ محفل نعت کے حوالے سے نکات بیان کئے نیز دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے دیگر خواتین کو بھی منسلک کرنے کا ذہن دیا۔


اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جو دینی،اخلاقی اور معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام گوشوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔اسلام نے میانہ روی کی تعلیم دے کر اس کے کثیر فوائد بیان فرمائے ہیں اور کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہونے کو قابل مذمت قرار دیا  ہے۔میانہ روی اور اعتدال پسندی دونوں مترادف الفاظ ہیں جس کے معنی افراط و تفریط کی درمیانی حالت ہے۔اگر ہم کھانے پینے،سونے جاگنے وغیرہ معمولات زندگی میں اعتدال پسندی کے عادی ہوں گے تو یہ اچھی عادت ہمارے لئے دنیا و آخرت میں مفید ثابت ہوگی۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 31 میں کھانے پینے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ: اور کھاؤ اور پیئو اور حد سے نہ بڑھو۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 29 میں خرچ کرنے کا یہ اصول دیا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے۔اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کے ساتھ کیے جائیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کا قرب حاصل کرو۔(معجم اوسط،78/2،حدیث :2583)

معمولات زندگی اور اعتدال پسندی:

(1)عبادت میں میانہ روی:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اس عبادت پر آخرت میں ملنے والے اَجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے لیکن عبادات میں فرائض و واجبات کے علاوہ نفلی عبادات کی ایسی کثرت جو ہمیں فرائض سے غافل کر دے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔مثلا کوئی دن رات صرف نفل نمازیں پڑھتا رہے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے طلب معاش ہی نہ کرے،یا اپنے بچوں کی دینی تربیت سے غفلت برتے،یا ماں باپ،بہن بھائی اور رشتہ داروں سے میل جول نہ رکھے تو آخرت میں ایسی نفلی عبادت کوئی فائدہ نہیں دے گی۔نفلی عبادت اگرچہ کم ہو لیکن ہمیشگی کے ساتھ ہو تو یہ اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔(مسلم،حدیث: 782،ص394)

لہذا فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی نماز اور دیگر اعمال بھی کیجیئے مگر گھر اور معاشرے سے متعلق جو ذمہ داری آپ پر لازم ہے اسے بھی پورا کیجیے۔

(2)سونے میں میانہ روی:

نیند اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے سورہ النباء کی آیت نمبر 9 میں ہے کہ ہم نے تمہاری نیند کو آرام بنایا۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو بالکل فریش ہو جاتے ہیں،اگر ہم کئی راتوں کے جاگے ہوں تو جسمانی تھکاوٹ اور سستی کی وجہ سے کوئی کام ڈھنگ سےنہیں کیا جاتا۔لہذا نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے ،ایسا بھی نہ ہو کہ دن رات سونے کے علاوہ کوئی کام نہ کریں اور نہ ایسا ہو کہ دن رات جاگ کر اپنے اوپر ظلم کریں بلکہ طبی نقطہ نظر پر عمل کرتے ہوئے جس عمر کے افراد کے لیے جتنے گھنٹے کی نیند ضروری ہے اسے پورا کریں۔کیونکہ نیند پوری نہیں ہوگی تو ملازم آفس میں کام نہیں کر سکے گا،اسٹوڈنٹ ٹیچر کی بات سمجھنے سے قاصر رہے گااور طبیعت میں چڑچڑا پن،غصہ جیسی بری عادات پیدا ہوجائیں گی جو کہ اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں۔اسی طرح اگر کوئی دن رات سوتا ہی رہے تو مشہور کہاوت ہے کہ"جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے"کے مصداق ایسا شخص اپنے بہت سے کام وقت پر نہیں کر سکتا، سو کر اپنا قیمتی وقت الگ ضائع کرتا ہے اور لوگوں میں سست،کاہل اور نیستی جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔لہذا ہمیں پرسکون زندگی گزارنے کے لیے نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔

(3)خرچ میں میانہ روی:

امیر ہو یا غریب ہر ایک کو اپنی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،جس کے پاس جتنا پیسہ ہوتا ہے وہ اپنے معاملات میں اسی اعتبار سے خرچ کرتا ہے۔اسلام نے جس طرح مال کمانے کے احکام بیان فرمائے ہیں ایسے ہی مال خرچ کرنے کے آداب بتا کر اس میں میانہ روی کا حکم دیا ہے۔مال خرچ کرنے میں میانہ روی اسلام کے نزدیک اچھا عمل ہے جب کہ فضول خرچی اور کنجوسی برے اوصاف ہیں جو ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں،قرآن مجید نے مومن کی یہ شان بتائی ہے: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں،نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پارہ 19،الفرقان: 67) لہذا مال خرچ کرتے وقت ایسی فضول خرچی بھی نہ کی جائے کہ بعد میں اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ بچے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے اور نہ ہی ایسا بخیل ہوں کہ جہاں اسلامی اور معاشرتی اعتبار سے خرچ کرنا ضروری ہو وہاں بھی خرچ نہ کریں بلکہ اعتدال کے ساتھ جہاں جتنا خرچ کرنا ضروری ہو اتنا ہی خرچ کریں۔حدیث پاک میں ہے :جو شخص اعتدال قائم رکھتا ہے،اللہ پاک اسے مالدار بنا دیتا ہے اور جو آدمی ضرورت سے زائد خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے فقیر کر دیتا ہے ۔ (کنز العمال،2/الجزء الثالث،ص22, حدیث 5434)

(4)کھانے پینے میں میانہ روی:

اللہ پاک نے ہمارے کھانے پینے کے لئے طرح طرح کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں جن میں ہمارے لئے بے شمار فوائد ہیں،کھانا پینا ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔اگر ہم کچھ دن کے لیے کھانا پینا ہی چھوڑ دیں تو کمزوری کے سبب فرض عبادات اور دیگر معاملات انجام دینے میں مشکل پیش آسکتی ہے حتی کہ جان بھی جا سکتی ہے۔لہذا توانائی اور صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بقدر ضرورت کھانا پینا معیوب نہیں بلکہ یہ تو جسم کا حق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے (بخاری، ج 1،ص649،حدیث: 1975)

یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم کمزور ہو جائے گا (مراۃالمناجیح،ج3،ص188) معلوم ہوا کہ جسمانی طاقت اور قوت کے لیے کھانا پینا ضروری ہے اور بالکل چھوڑ دینا برا کام ہے۔ اسی طرح بہت زیادہ کھانا بھی مذموم فعل ہے،بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس نعرے "کھاؤ پیو! جان بناؤ"کی عملی تصویر نظر آتے ہیں اور کھاتے پیتے ذرا نہیں تھکتے۔ایسے لوگ بھی اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

جس طرح کچھ نہ کھانا پینا جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح زیادہ کھانا بھی مضر صحت ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پیٹ بھر کر کھانے پینے سے بچو کیوں کہ یہ جسم کو خراب کرتا،بیماریاں پیدا کرتا اور نماز میں سستی لاتا ہےاور تم پر کھانے پینے میں میانہ روی لازم ہے کیونکہ اس سے جسم کی اصلاح ہوتی ہے اور فضول خرچی سے نجات ملتی ہے۔

(کنز العمال،138/15،حدیث 4170)

لہذا ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے تمام معاملات میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ ہماری زندگی سکون و چین سے گزرے۔


اعتدال اور میانہ روی  کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دینِ اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمّتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی بنایا۔

اعتدال اور میانہ روی کا مطلب: میانہ روی کا مطلب ہے، تمام احکام و اُمور میں ایسی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفريط یعنی "نہ شدت ہونہ ہی از حد کوتاہی"

آیتِ قرآنی سے میانہ روی کی اہمیت:

ربّ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے! کتنی صاف ہدایت ہے اور کس قدر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے اور مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روكتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طيبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور توازن و اعتدال کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے۔

مسلم شریف کی حدیث ہے:" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔"

میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں میانہ روی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دعوتِ اسلامی کی   26 رکنی مرکزی مجلسِ شوریٰ میں ایک اور رکن کا اضافہ ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق حیدر آباد کے قاری محمد ایاز عطاری دعوتِ اسلامی کے نئے رکنِ شوریٰ اور حیدرآباد ریجن کے نگران مقرر ہوئے ہیں۔ ان کی شوریٰ میں شمولیت کا اعلان دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولاناحاجی محمد عمران عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے شوریٰ کے مشورے میں کیا۔ قاری محمد ایاز عطاری کی شمولیت کے بعد اراکینِ شوریٰ کی تعداد 27 تک پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ مجلسِ شوریٰ (دعوتِ اسلامی) کا تین روزہ مدنی مشورہ 15 مارچ 2021 سے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں شروع ہوچکا ہے جس میں دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا اور مختلف امور زیرِ غور ہوں گے۔


جُمہورمحدثین کے نزدیک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول، فعل اورتقریرکوحدیث کہاجاتاہے، تقریر یہ ہےکہ نبی ِّکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنے کوئی کام کیا گیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےدیکھا اوراس سےمنع نہ فرمایا بلکہ سکوت فرمایا، عہدِ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے لےکرآج تک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کوجمع کرنے کے لئے بڑی محنتیں اور مشقتیں کی گئی ہیں جیساکہ امام بخاری، امام حَفْص بن غِیاث، امام ہَیّاج بن بِسطام، امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہم کی کوششیں ہیں، ان یگانۂ روزگارہستیوں کی ہی برکات ومحنتیں ہیں کہ آج ہمارےپاس کثیرکتبِ احادیث موجود ہیں۔ آئیے اب ہم چند مشہور ائمہ احادیث کی حدیثوں کوجمع کرنے کے حوالے سے کوششوں اورمحنتوں کاذکر کرتے ہیں:

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے طلبِ حديث کے لئے خراسان، عراق، مصر، شام اور دیگر دور دراز علاقوں کے سفر کئے۔)[1](

امام عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ چار مہینےطلبِ حدیث میں گزارتے، چار مہینےمیدانِ جہاد میں اور چار ماہ تجارت کرتے۔)[2](

امام یحییٰ بن معین کے بارے میں خطیب بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہما لکھتے ہیں:”ساڑھےدس لاکھ دِرہم آپ نے علم ِحدیث کے حصول میں خرچ کردیئے، آخرمیں چپل تک باقی نہ رہی۔ “)[3](

امام ابوحاتم رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے:”پہلی مرتبہ جب میں علمِ حدیث کے حصول کےلئے نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا، جب مسافت زیادہ ہوگئی تو میں نےشمار کرنا چھوڑ دیا۔)[4]( علمِ حدیث کی طلب میں ہَیْثَمْ بن جمیل دو مرتبہ افلاس کےشکار ہوئے، سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔)[5](

امام ربیعہ بن ابی عبدالرّحمٰن رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ”اسی علمِ حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں۔)[6](

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی محنتوں اور مشقتوں کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں بھی علمِ حدیث سے محبت کی دولت سے سرفراز فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])اعلام للزرکلی،6/33

([2])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص115

([3])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص117

([4])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص121

([5])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں، ص122

([6])حدیثیں کیسےجمع ہوئیں،ص123


     ہر انسان اپنی زندگی کو خوشحال بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے روز مرّہ کے معاملات کی وجہ سے کافی پریشان رہتا ہے۔ جس طرح آج کے دور میں دنیا جیسے جیسے ترقی کرتی جارہی ہے اسی طرح ہمارے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔

سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ بے تحاشہ اخراجات اور جو خواہشات ہمارے دل میں اٹھتی ہیں ان پر عمل کرنا یا ان کو حاصل کرنا یا کسی صاحبِ حیثیت کی طرز زندگی کو اپنانا یہ عقلمندوں کا کام نہیں۔

اپنے اخراجات کو ( balance) میں رکھنا یعنی اعتدال میں رکھنا یہ بڑی عقلمندی دانائی اور تدبر کی بات ہے ۔چنانچہ اللہ پاک اپنے بندوں کو قرآن کریم میں نصیحت فرماتا ہے

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔(پ1 ، البقرہ :3)

آیت مبارکہ میں فرمایا گیا جو ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہیے ۔ (صراط الجنان جلد 1 صفحہ 67)

اسی چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔ (پ15 ،بنی اسرائیل :29)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :التدبیر نصف المعیشۃ تدبیر سے کام لینا نصف معیشت ہے (مسند الفردوس)

مال میں تنگی کی تین احادیث مبارکہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار باب سین 444/1 الحدیث 2511)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔

(معجم الاوسط باب العین من اسمہ علی 125/3 الحدیث: 4066)

  اللہ  پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات اور اپنی عبادات میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو جو شرف و فضیلت ومقام و مرتبہ  عطا فرمایا ہے وہ نعمتِ علم ہی کے سبب ہے اور یہ اتنی عظیم نعمت ہے کہ جو بھی اسے خلوصِ نیت کے ساتھ حاصل کرتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں رہتا ۔ہمارے اسلاف نے حصولِ احادیث کے لئے اونٹ اور گھوڑوں کے ذریعے دور دراز شہروں کا سفر اختیار فرمایا اور طرح طرح کی مشقتیں برداشت کیں۔ گویا کہ ہمارے اسلاف کے زیر نظر یہ آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ ہوگی جو حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔( شعب الایمان للبیھقی ،باب فی طلب العلم، الحدیث 1663،ج2 ص 253 دار الکتب العلمیہ 1421ھ)/(عاشقانِ حدیث کی حکایات ص 14 )

قرآن مجید میں اللہ پاک نے طلب علم (علمِ حدیث) کی خاطر سفر اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ ترجمہ کنز الایمان: تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔(پ 11 التوبہ:122)

تفسیر کبیر میں مذکورہ آیت کے تحت ہے کہ اگر اپنے وطن ہی میں علم حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کے لئےسفر کرنا واجب نہیں ۔ہاں! آیت مبارکہ کے الفاظ طلب علم کیلئے سفر کرنے پر دلالت کرتے ہیں( کیونکہ) یقینی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مبارک اور نفع مند علم سفر کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، ابی حاتم ، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج 6 ص المکتبۃ الحنفیۃ پاکستان181،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ آیت مؤمنین کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وطن چھوڑ کر نفع مند علم کے حصول کیلئے سفر کریں۔ ( تفسیرروح البیان، سورہ توبہ، تحت الآیۃ 122 ج3 ص537 دار احیاء التراث 1420ھ)/ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص8)

حضرت موسٰی علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی طلب علم (علمِ حدیث)کے لئے سفر اختیار فرمایا ۔حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث کے حصول کے لئے مدینہ منورہ سے حضرت سید نا عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی جانب مصر کا سفر اختیار فرمایا۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات ص7)حضرت سید نا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے طلبِ علم کی خاطر یمن، مصر، شام، بصرہ اور کوفہ کی طرف سفرفرمایا ۔ (عاشقانِ حدیث کی حکایات19)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ حضرت سید نا معمر بن راشد رضی اللہ عنہ نے طلب حدیث کیلئے یمن کا سفر فرمایا اور آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کیلئے سفر فرمایا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم 8584 معمر بن راشد ج59 ص409 دار الفکر بیروت 1415ھ،عاشقانِ حدیث کی حکایات ص19 )

آج کے اس پُر فتن دور میں لوگ دنیاوی تعلیم کے حصول کیلئے تو دور دراز ملکوں کا سفر اور مشقتیں برداشت کرنے کے لئے با آسانی آمادہ ہو جاتے ہیں مگر علم دین کے حصول کے لئے سفر تو دور کی بات ہے اپنے ہی محلے کی مسجد میں حصولِ علمِ دین کے لئے آمادہ نہیں ہوتے،حتٰی کہ لوگ علم دین سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ فرائض و واجبات اور ضروریاتِ دین کے علم سے بھی نا واقف ہوتے جا رہے ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلافِ کرام کی طرح علم دین کے حصول کیلئے خوب جدو جہد اور کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے حصول کیلئے سفر اختیار کریں۔


حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی محبت اور عبادت کے شوق میں کثرت سے راتوں کو قیام کرتے تھےاور راتوں کی عبادت اس قدر شدت سے کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم پڑجاتا اور قدم مبارک سوج جا یا کرتے، اس پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان : اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔ (پ:١٦،طہ:٢)

اللہ پاک نے حکم دیا کہ اپنے نفس کو کچھ راحت د یجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔

ایک اور شانِ نزول کچھ اس طرح سے ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے شدید رنج و الم میں مبتلا رہتے اور دل مبارک انتہائی افسردہ رہتا، تو اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں کیونکہ قرآن مجید آپ کی مشقت کے لیے نازل نہ کیا گیا ہے ۔

اس آیت میں اگرچہ کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے ہے لیکن مقصود امتِ مسلمہ کو نصیحت کرنا ہے کہ زندگی کا پہیہ اعتدال سے چلانے میں ہی عافیت و آسانی ہے۔

اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتےہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرتِ کائنات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر چیز اور ہر نظام ایک معتدل انداز میں رواں دواں ہے ،کمی ہے نہ شدّت ۔ اسی طرح اسلام بھی میانہ روی اور اعتدال کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے ،کیونکہ شدّت پسندی وبےاعتدالی کوہرگز پسند نہیں کیا جاتا اور اسکے برعکس اعتدال و میانہ روی کو لازمی پسند کیا جاتا ہے اور جاتا رہے گا ۔ کامل ایمان والے بھی وہی ہیں جن کا نظامِ حیات اعتدال و میانہ روی کے اصولوں پر گامزن ہو گا۔جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنزالایمان : اور وہ کہ جو خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ (پ١٩،الفرقان:٦٧)

کتنی وضاحت کے ساتھ فرمادیاگیا کہ رحمٰن کے بندے وہی ہیں جو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی بلکہ دونوں برے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حسین بناتے ہیں کہ اسراف یعنی فضول خرچی سے زندگی کا سکون اورچین برباد ہوجاتا ہے اور زندگی کا بیشتر وقت انہی معاملات کو سلجھانے میں لگ جاتا ہے اور زندگی کی راحت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اسراف میں کوئی بھلائی نہیں ،تو دوسرے بزرگ نے فرمایا : بھلائی کے کام میں اسراف ہوتا ہی نہیں ۔

اسی طرح حد سے کم خرچ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ بخل کی عادت انسان کو اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیتی ہے ۔ مال کو جمع کرنے کی لالچ و ہوس انتہائی عجیب وغریب ہے کہ بے مقصد اپنے آپ کو مشکل حالات میں ڈالنا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے :وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان : اور اپنا ہاتھ اپنی گریبان سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا(پ:١٥،بنی اسرائیل:٢٩)۔

اس آیت کا مقصدہی یہی ہے کہ انسان نہ توبالکل ہاتھ روک لے اور خرچ ہی نہ کرے یا ضروت سے کم کرے اور نہ ہی خرچ کرنے میں اتنا بڑھ جائے کہ پلّےکچھ بھی نہ بچے۔ اسی لیے اللہ پاک نے دینِ اسلام کو اسقدر آسان بنایا اوردرمیانی راہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا کہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار نہ کرلیں۔


دین اسلام کے ستارے جنہوں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ پاک اور روزمرّہ کے معاملات کو اپنی آنکھوں میں بسایا تو ان عظیم ہستیوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر(یعنی وہ کام جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو ہوا ہو لیکن اسے منع نہ فرمایا ہو)کو سننے اور دیکھنے کے بعد ان سب معاملات کو نقل وروایت کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن بعد میں آنے والی امتِ مسلمہ کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال سے آگاہ کرنے کے لیے نقل و روایت کا سلسلہ شروع کیا ۔ان عظیم ہستیوں نے نہایت دیانت داری، وفا داری،خلوص و محبت اور بے انتہا احتیاط کو ملحوضِ خاطر رکھتے ہوئے احادیثِ نبوی کو نقل و روایت کرتے ہوئے تابعین تک پہنچایا۔ تابعین کی مقدس جماعت نے پوری امانت داری کے ساتھ تبع تابعین کو یہ مقدّس ذخیرہ حوالے کیا اور یوں سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد بھی ہمیں احادیثِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھر پور حاصل ہے۔ یہ سب علمائے محدثین کی بے پناہ کوشش ،دیانتداری و لگن کا ثمرہ ہے جنہوں نے ضخیم ضخیم کتب میں انہیں محفوظ کر کے علمِ حدیث کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک جس کسی نے علم حدیث پر کام کیا ان کی مثال آپ ہے کہ ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے ملکوں کا سفر طے کیا کرتے تھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیثِ پاک کے دوسرے راوی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پاک سے مصر تک کا سفر طے کیا تاکہ وہ اس بات کو پختہ و مضبوط کر سکیں کہ اس حدیث کے دو راوی ہیں۔

(معرفة علوم الحدیث ،ص٨)۔

احادیثِ کریمہ کے اصول مزیّن کرنے میں جو اعلٰی پیمانے قائم کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک مسئلہ درپیش ہوا اور اسکا حل قرآنِ مجید سے نہ ملا تو صحابہ کرام کی ایک جماعت سے دریافت کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ پاک بیان کر کے مسئلہ حل کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ میں ہے جن کی دیانت اور تقوٰی اور امانت و راستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اسکے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حدیث مبارکہ کی تفتیش کے لیے پوچھا کہ اسکا کوئی اور راوی بھی ہے ؟ جب ایک اور صحابی رسول نے گواہی دی تو حکم جاری کیا (معرفة علوم الحدیث ، ص ١٤)۔

گویا یہ بات واضح کی کہ حدیثِ پاک کی تحقیق و تفتیش کے لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی شریعت کے احکام بیان ہوتے ہیں ۔

احادیثِ مبارکہ کی خدمت کرنے میں ایک اہم عمل حدیث کو حفظ کرنا ہے اور کئی جیّد علمائے حدیث نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں احادیث کو حفظ کیا ۔ان میں نمایاں اسم حضرت ابو عبد اللّٰه محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ البخاری کا ہے جنہوں نے چھ لاکھ احادیثِ مبارکہ کو اپنے سینے میں محفوظ فرمایا اور جمع احادیث کا مجموعہ بنام الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللّٰه و سننہ وأیامہ تحریر فرما کر امتِ مسلمہ پر عظیم احسان کیا ۔ اسی طرح دیگرمحدّثین نے بھی لاکھوں احادیث حفظ کر کے قلم بند کیں اور فنِ حدیث میں بھی بے حساب خدمت سر انجام دی ۔ اللہ پاک ان سب کے صدقے میں ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید شریعت مطہرہ کا بنیادی ماخذ ہے  جس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے۔ سنن نبویہ اس جامع کتاب کی تشریح ہیں جن کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے جمع حدیث کیلئے بہت مصائب و آلام برداشت کیے۔

ذیل میں علمائے اسلام کی جمع حدیث میں اٹھائی جانے والی مشقتوں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے جس سے بزرگان دین کی خدمت حدیث کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔

1: حبر الامۃ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : جس (صحابی) کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ اِن کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں ان کے در دولت پر پہنچتا اور حدیث سن کر یاد کرلیتا ۔بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام کر رہے ہیں تو ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گرد و غبار اڑ کر میرے چہرے اور کپڑوں پر لگ جاتا لیکن میں اسی طرح منتظر رہتا، یہاں تک کہ وہ خود باہر تشریف لاتے تو اس وقت اپنا مُدّعا بیان کرتا۔(جامع الاحادیث ص 129 ملخصاً و ملتقطاً)

2:امام ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ طلبِ حدیث کیلئے مدتوں سفر میں رہتے ۔ آپ کے صاحبزادے کا بیان ہے،میرے والد فرماتے تھے:سب سے پہلے علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا۔مزید خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:میں بحرین سے مصر پیدل گیا، پھر رملہ سے طرطوس کا سفر پیدل ہی کیا، اس وقت میری عمر بیس (20) سال تھی۔ (تدوین حدیث صفحہ 116 ملخصا و ملتقطا )

3:امام ہیثم بن جمیل بغدادی رحمۃ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ علم حدیث کی طلب میں شب و روز سرگرداں رہے۔ مالی پریشانیوں سے بھی دوچار ہوئے۔لکھا ہے : افلس الهیثم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین یعنی علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دومرتبہ افلاس (تنگدستی) کے شکار ہوئے۔(یہاں تک کہ) سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا ۔( ایضا ًصفحہ 117)

4:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اُستاد امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ مذبلہ( کچرا کنڈی) جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔( ایضا ًصفحہ 118 )

5:بصرہ میں امام بُخاری حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کئی دنوں تک درس میں شریک نہ ہوئے ۔ تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ آپ ایک اندھیری کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور جسم پر ایسا لباس نہیں جیسے پہن کر باہر نکل سکیں۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا ہے ۔آخر چند ساتھی طلباء نے مل کر رقم جمع کی اور کپڑا خرید لائے،تب کہیں جا کر امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ پڑھنے کیلئے نکلے۔(ایضاً 118)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پ۱۹، الفرقان: ۶۷)

میانہ روی کے بارے میں ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوب ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا:میانہ روی سے خرچ کرنا نصف معیشت ہے اورلوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے اوراچھا سوال کرنا آدھا علم ہے ۔(حسن اخلاق ،ص:۵۳ )

اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا ذکرکرتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔(جہنم میں لیجانے والے اعمال (جلد اوّل) ۲۵۹ )

حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو مکہ مکرمہ میں ایک چٹان پرنماز پڑھ رہاتھا ۔ واپسی پر بھی اسے اسی حالت میں پایا تو ارشادفرمایا: اے لوگو! تم پرمیانہ روی لازم ہے، اےلوگو! تم پر میانہ رَوِی لازم ہے، ا ے لوگو!تم پرمیانہ روی لازم ہے۔ بے شک !اللہ پاک (اجرعطافرمانے سے) نہیں اکتاتابلکہ تم (عبادت سے ) اُ کتا جاتے ہو۔ (ریاض الصالحین جلد ۲ صفحہ ۴۲۱ )

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : اعتدال پسندی، میانہ روی اور اچھی نیت نبوت کے 24 اجزاء میں سے ایک جُز ہے۔

(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی التأنی، الحدیث:۲۰۱۰،ص۱۸۵۳)

دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : عملِ آخرت کے علاوہ ہر چیز میں اعتدال پسندی اچھی چیز ہے۔(المستدرک ،کتاب الایمان، باب التؤدۃ فی کل شیء، الحدیث: ۲۲۱،ج۱،ص۲۳۹)

آدمی کو چاہیے کہ عبادت میں میانہ روی اختیار کرے اور اتنا ہی عمل کرے جس کو آسانی کے ساتھ ہمیشہ کرسکے کیونکہ تھوڑا عمل جو ہمیشہ کیا جائے وہ ا س عمل سے بہتر ہے جو انسان ہمیشہ نہ کرسکے کیونکہ زیادہ کے لالچ میں تھوڑے کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔اسی کو امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ جب پتھر پر پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو سوراخ کردیتا ہےبر خلاف یکدم اگر پانی گرجائے تو اثر تک بھی نہیں ہوتا۔

اے عاشقان رسول !میانہ روی اِستقامت کی کنجی ہے۔ کثرت سےنعمتوں کا اِستعمال بھی غفلت کاسبب ہے اِس لیے اعتدال سے کام لیناچاہیے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے) مدد طلب کرو ، میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے ۔

اللہ پاک ہمیں ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


قرآن پاک میں ہے: وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(پ7،المائدہ:87)

اس پوری آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کی ایک جماعت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کے ہاں جمع ہوئی اور انہوں نے آپسں میں ترک دنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گےاور ہمشہ دن میں روزے رکھیں گےاور ساری رات عبادت الہی میں گزارا کریں گے بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔

(تفسیر قرطبی، المائدہ، تحت الآیۃ8، 156/3،الجزء السادس)

اگر اس آیت مبارکہ میں تھوڑا غور کیا جائے تو اس سے معلوم ہو گاکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعتدال اختیار کرو اور قرآن پاک میں جس چیز کا ذکر آئے وہ کوئی عام نہیں ہوتی۔اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت کیا ہے؟اس کا اندازا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات سے بھی لگا سکتے ہیں ۔

مثلا ڈرائیونگ کرنا ہمارے زندگی کے معاملات میں سے ہے۔ اگر گاڑی چلانے میں حد سے تیزی کریں گے تو ٹکرا جانے کا اندیشہ ہے اور اگر بالکل ہی آہستہ چلائیں گے تو عین ممکن ہے پیچھے سے آنے والی گاڑی ہم سے ٹکرا جائے، اگر ہم میانہ روی سے چلائیں تو حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو بالکل انسانی فطرت کے مطابق ہےاسی لئے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے، عبادت میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی ۔عبادت میں میانہ روی کی مثال یہ حدیث مبارکہ ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما فرماتی ہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ ایک خاتون ان کے پاس سے گزریں حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے تاجدار رسالت صلی الله عليه وسلم سے عرض کی: ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھرنہیں سوتیں۔ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نےارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیںاتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو۔ اللہ نہیں اکتائے گا تم اکتا جاؤ گے۔

حدیث پاک میں عبادت میں میانہ روی نہ کرنے کا نتیجہ اکتاہٹ بتایا گیا ہےاور اگر دنیاوی معاملات میں اعتدال نہ ہو تو دنیا کا نظام نہ چل سکے گا ۔