
اس دنیا میں لاتعداد انسانوں نے جنم لیااور بالا آخر موت نے انہیں
اپنی آغوش میں لے کر ان کا نام ونشان تک مٹادیا لیکن جنہوں نے دین اسلام کی
بقاوسربلندی کے لیے اپنی جان ،مال اور اولاد کی قربانیاں دیں اورجن کے دلی جذبات
اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر ان کے تذکرے
سنہرے حروف سے کُندہ ہیں۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتاہے، دلوں
پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ان کے پُرسوز واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ
ہیں،بالخصوص امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام رقت وسوز کے ساتھ جذبہ ایثار وقربانی کوابھارتاہے
۔ صدیق اکبر نے جس شان کے ساتھ اپنی جانی اور مالی قربانی کے نذرانے پیش کیے ،تاریخ ان کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
ابن اسحق نے ایک حدیث
روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے
ابوبکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو میری دعوت پر بے توقف و تامل ایمان لایا ہو۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر
الصدیق ،فصل فی اسلامہ،ص۲۷)
یوں تو تمام صحابہ
کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان ہی مقتدیٰ بہ (یعنی
جن کی اقتداء کی جائے)، ستاروں کی مانند
اور شمع رسالت کے پروانے ہیں لیکن صدیق اکبر وہ ہیں جو انبیاء کرام اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق میں افضل ہیں۔ جو
محبوبِ حبیب خدا ہیں، جوعتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں، صدیق اکبر بھی
ہیں۔حلیم یعنی بردبار بھی ہیں، بچپن وجوانی دونوں میں بت پرستی سے دوررہنے والے، رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دوست، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خاطر اپنا تن من
دھن سب کچھ قربان کرنے والے،مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے، سب سے
پہلے دعوتِ اسلام دینے والے، جن کے والدین صحابی،اولاد صحابی، اولاد کی اولاد بھی
صحابی، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے رشتہ دار، جن کی عبادت وریاضت دیکھ کر لوگ اسلام قبول کریں، شراب سے
نفرت کرنے والے، عزت وغیرت کی حفاظت کرنے والے، خلیفہ ہونے کے باوجود انکساری کرنے
والے، مشرکین سے رسول خدا کا دفاع کرنے والے، غلاموں کو آزاد کرنے والے،سیدنا
بلال حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہکو خریدکربادشاہ حقیقی
یعنی اللہ عَزَّوَجَلّ َسے بہت بڑے متقی کا خطاب پانے والے،جوقرآن وحدیث کے بہت
بڑے عالم، علم تعبیر وعلم انساب کے ماہر،رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے براہ راست درس کتاب
وحکمت لینے والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مشیرووزیر، جن کی تائید خود رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکریں، جو خوف خدا سے گریہ وزاری کرنے والے،جو دکھیاری امت کی خیر خواہی
کرنے والے، مریضوں کی عیادت کرنے والے، لواحقین سے تعزیت کرنے والے ، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سفر ہجرت کے دوست اوریار غار،
ہجرت کی رات معراج کے دولہا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اپنے کندھوں پر
اٹھانے والے،ایسے یار غار کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خاطراپنی جان کی
بھی پرواہ نہ کریں، جن کا صاحب ویارغار ہونا خود اللہ عَزَّوَجَلَّ بیان کرے، جو رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کرنے
والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نگہبانی کرنے والے ہیں،جن کو
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امیر الحج بنایا،جنہیں
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امام بنایا، جنہوں نے رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمکی موجودگی میں نمازوں
کی امامت کی۔جوخلیفۂ اول ہیں، جن کی خلافت پر اجماع امت ہے، جنہوں نے
منکرین زکوۃ ومرتدین کے خلاف جہاد فرمایا، جن کے اوصاف واحسانات کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخود بیان فرمائیں۔ جن
کے فضائل کو خود صحابہ کرام واسلاف کرام بیان کریں۔جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی حیات میں بھی ان کے رفیق ہیں
اور مزار میں بھی ان کے رفیق ہیں۔’’صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس‘‘ یہ ان کی کتاب زندگی کا عنوان تھا۔
عموماً کسی بھی شخص کی
مزاجی کیفیات اوراس کی ذات میں پائی جانے والی خصوصیات کا اندازہ اس کے نسب
کاتذکرہ کرنے سے ہوتا ہے،یوں سمجھئے کہ کسی شخصیت کے ذاتی اور اندرونی کوائف جاننے
کے لیے اس کا نسب ایک آئینے کی حیثیت رکھتاہے جہاں اس کے نسب کا ذکر کیاوہیں اس
کی شخصیت اپنے تمام اطوار کے ساتھ نکھر کرسامنے آگئی۔برصغیر پاک وہند کے علاوہ
آج تک عربوں میں اس بات کا رواج ہے کہ کسی شخص کی عادات سے آگاہ ہونے کے لیے اس
کے قبیلے کاتذکرہ ضرور کرتے ہیں لہٰذا
اَوّلاً نسب کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔
آپ کاسلسلہ نسب:
حضرت سیدناعروہ بن
زبیررَضِیَ اللہ عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ’’ امیر المؤمنین
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام عبداللہ بن
عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ بن کعب ہے۔‘‘مرہ بن کعب تک آپ کے
سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب میں بھی مرہ بن
کعب تک چھ ہی واسطے ہیں اور مرہ بن کعب پرجاکر آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد حضرت عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے، آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن
عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ
(یعنی امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید بن ناقد
خزاعی ہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی دادی (یعنی حضرت سیدناابو قحافہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی والدہ)کا نام امینہ بنت عبد
العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب ہے۔ (المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر
الصدیق واسمہ، الحدیث:۱،ج۱،ص۵۱،الاصابۃ فی تمییز
الصحابۃ، ج۴، ص۱۴۴)
عشق ووفا کی امتحان گاہ میں حضرت ابو
بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حال:
ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ
اپنے اسلام کو حتی الوسع مخفی رکھتا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
والہٖ وسلم کی طرف سے بھی، اس
خیال سے کہ ان کو کافروں سے اذیت نہ پہنچے، اخفا کی تلقین ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں
کی تعداد انتالیس تک پہنچی توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اظہار کی درخواست کی اور چاہا کہ کھلم کھلا علی
الاعلان تبلیغ اسلام کی جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اول انکار فرمایا
مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصرار پر قبول فرمالیا ،حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہُ عنہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیکر مسجدحرام
شریف میں تشریف لے گئے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ شروع کیا، یہ
سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام میں پڑھا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چچا سیدالشہداء
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسی دن اسلام لائے ہیں
اور اس کے تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ خطبہ کا شروع ہونا تھا
کہ چاروں طرف سے کفار و مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی باوجودیکہ مکہ
مکرمہ میں عام طورپر ان کی عظمت و شرافت مسلّم تھی ،اس قدر مارا کہ تمام چہرہ
مبارک خون میں بھر گیا ، ناک کان سب لہولہان ہوگئے۔ پہچانے نہ جاتے تھے، جوتوں سے
مارا پاؤں میں روندا جونہ کرنا تھا سب کچھ ہی کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوگئے، بنو تیم یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں سے اٹھا
کر لائے۔سب کو یقین ہو چلا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وحشیانہ حملہ سے زندہ نہ بچ سکیں گے بنو تیم
مسجد میں آئے اور اعلان کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اگر حادثہ میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کے
بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے عتبہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مارنے میں بہت
زیادہ بدبختی کا اظہار کیا تھا۔ شام تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے ہوشی رہی
باوجود آوازیں دینے کے بولنے یا بات کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ شام کو آوازیں دینے
پر وہ بولے تو سب سے پہلے الفاظ یہ تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں
کی طرف سے اس پر بہت ملامت ہوئی کہ ان ہی کے ساتھ کی بدولت یہ مصیبت آئی اوردن بھر
موت کے منہ میں رہنے پر بات کی تو وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہی کا جذبہ اور ان ہی
کے ليے۔
لوگ آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے
،بددلی بھی تھی اور یہ بھی کہ آخر کچھ جان ہے کہ بولنے کی نوبت آئی اور آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام خیر سے
کہہ گئے کہ ان کے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کا انتظام کردیں۔ وہ کچھ تیار کرکے
لائیں اور کھانے پر اصرار کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وہی ایک صد ا تھی
کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کا کیا حال ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم پر کیا گزری؟ انکی
والدہ نے کہاکہ مجھے تو خبر نہیں کیا حال ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ام جمیل (حضرت عمر کی بہن رضی اللہ عنہما)کے پاس جاکر دریافت
کر لو کہ کیا حال ہے؟ وہ بیچاری بیٹے کی اس مظلومانہ حالت کی بیتا بانہ درخواست
پوری کرنے کیلئے ام جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کا حال دریافت کیا۔ و
ہ بھی عام دستور کے مطابق اس وقت اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ فرمانے لگیں میں
کیا جانوں کون محمد( صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم) اور کون ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) تیرے بیٹے کی حالت سن کر رنج ہو ا اگر تو کہے تو
میں چل کر اسکی حالت دیکھوں ام خیر نے قبول کر لیا ان کے ساتھ گئیں اور حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر تحمل
نہ کر سکیں بے تحاشا رونا شروع کر دیا کہ بد کرداروں نے کیا حال کردیا۔ اللہ ان کو
ان کے کئے کی سزا دے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ ام
جمیل رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ کی طرف اشارہ
کرکے فرمایا کہ وہ سُن رہی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان سے خوف نہ کرو ۔ ام جمیل رضی اللہ
عنہا نے خیریت سنائی اور عرض کیا کہ بالکل صحیح سالم ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں انہوں نے عرض کیا کہ
ار قم کے گھر تشریف رکھتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو خد اعزوجل کی قسم ہے کہ اس
وقت تک کوئی چیز نہ کھاؤں گانہ پیٔوں گا
جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کی زیارت نہ کرلوں۔ ان
کی والدہ کو تو بیقراری تھی کہ وہ کچھ کھا لیں اور انہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک
حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کی زیارت نہ کرلوں
کچھ نہ کھاؤں گا۔ اس لئے والدہ نے اس کا انتظار کیا کہ لوگوں کی آمدورفت بند
ہوجائے۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور کچھ اذیت پہنچائے۔ جب رات کا بہت سا حصہ گزر گیا
تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لیکرحضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں ارقم کے گھر پہنچیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم سے لپٹ گئے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم بھی لپٹ کر روئے۔
اَور مسلمان بھی رونے لگے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس کے بعد حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی یہ
میری والدہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے ہدایت کی
دعا فرمادیں اور ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرمادیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کو اسلام کی ترغیب دی وہ بھی اسی وقت مسلمان
ہوگئیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج۳،ص۳۰)
یہ شہادت کہ الفت میں
قدم رکھنا ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ
آسان ہے مسلمان ہونا
حضرت سیدنا ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنی وفاؤں کے
مہکتے پھول جو سرور دوعالم، نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں نچھاور
کیے اس کا ایک عظیم مظاہرہ جنگ اُحد کے دن دیکھا گیا جب خارا شگاف تلواریں میدان
کارزار میں چل رہی تھیں ،ہر طرف جنگی نعروں کا شوربرپاتھا ان ہوش ربا مناظر میں
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک کوہ بے ستون نظر آرہے تھے اور
حضور نبی ٔکریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں اپنی
جان کو طشت اخلاص میں رکھ کر پیش کررہے تھے ، وہ اُحد کی جنگ جس میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کی جانی قربانیاں دیکھ کر شیروں کاپِتّاا بھی
پانی ہورہا تھاحضرت سیدنامصعب بن عمیررَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ طیبہ کے پہلے معلم علمبردار
اسلام نیزحضرت سیدناحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہبھی جام شہادت نوش کرچکے تھے
،یقینا ان جان کاہ وجگر فرسا مناظر کو دیکھ کر جگر کو تھامنا مشکل ہو جاتا ہے ایسے
میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جنگ میں اس طرح
مصروف ہوئے کہ لڑتے لڑتے بہت دور نکل گئے اگرکوئی محبوب خدا کے قریب تھاتووہ صرف
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہہی تھے۔چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت
سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاسے روایت ہے فرماتی ہیں: ’’اُحدکےدن جب تمام صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ
لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے جدا ہوگئے تھے توسب سے پہلے
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ واپس پلٹے۔‘‘(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۲۵،ص۷۵)
صدیق اکبر کی مالی قربانی:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایاکہ’’ اپنا مال راہ خدا میں
جہاد کے لیے صدقہ کرو۔‘‘ اس فرمان عالیشان کی تعمیل میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے حسب توفیق اپنا مال
راہِ خدا میں جہاد کے لیے تصدق کیا ۔حضرت سیدناعثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دس ہزار مجاہدین
کاسازوسامان تصدق کیااور دس ہزار دینار خرچ کیے اس کے علاوہ نوسو اونٹ اور سوگھوڑے
معہ سازوسامان فرمانِ رسول پرلَبَّیْک کہتے ہوئے پیش کردیے۔چنانچہ
حضرت سیدنا عمر فاروق
اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ’’ میرے پاس بھی مال
تھامیں نے سوچا حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہر دفعہ ان معاملات میں مجھ سے
سبقت لےجاتے ہیں اس بار زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرکے ان سے سبقت لے جاؤں گا۔‘‘چنانچہ وہ گھر گئے
اورگھر کا سارا مال اکٹھا کیا اس کے دو حصے کیے ایک گھروالوں کے لیے چھوڑا اور
دوسرا حصہ لے کر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسار فرمایا:’’اے عمر! گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آدھا مال گھروالوں کے لیے چھوڑ
آیاہوں۔‘‘ اتنے میں
عاشقِ اکبر،یارغار مصطفےٰ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنا مال لے کر بارگاہ
رسالت میں اس طرح حاضر ہوئے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک بالکل سادہ سی قباپہنی ہوئی
ہے جس پر ببول کے کانٹوں کے بٹن لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے
غُیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کو دیکھ کربہت خوش
ہوئے اور استفسار فرمایا:’’اے ابوبکر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کرآئے ہو؟‘‘ بس! محبوب کا یہ پوچھناتھا کہ گویاعاشقِ صادق کا دل عشق ومحبت کی مہک سے
جھوم اٹھا، فوراً ہی سمجھ گئے کہ بات کچھ اورہے، کیونکہ محبوب توجانتاہے کہ میرے
عاشق صادق نے تواس وقت بھی اپنی جان ، مال، آل، اولاد سب کچھ قربان کردیاتھا جب
مکۂ مکرمہ میں حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھےبلکہ اکثر لوگ جانی دشمن بن
گئے تھے اور محبوب کے کلام کو کیوں نہ سمجھتے کہ یہ تو وہ عاشق تھے جو ہروقت اس
موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ بس محبوب کچھ مانگے تو سہی !سب کچھ قدموں میں لاکر قربان
کردیں:
کیا پیش کریں جاناں
کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے
یہ جاں بھی تمہاری ہے
یہ تو وہ عاشق صادق
تھے جنہوں نے کبھی اپنے مال کو اپنا سمجھا ہی نہیں ، بلکہ جو کچھ ان کے پاس
ہوتااسے محبوب کی عطاسمجھتے اور کیوں نہ سمجھتے کہ:
میں تو مالک ہی کہوں
گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں
نہیں میرا تیرا
فوراًسمجھ گئے کہ
محبوب کی چاہت کچھ اورہے غالباًمحبوب یہ کہناچاہتے ہیں کہ اے میرے عاشق! میں تو تیرے عشق
کو جانتاہوں، آج دنیاکو بتادے کہ عشق کسے کہتے ہیں،بس آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہنے محبت بھرے لہجے میں یوں عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللہ!
اَبْقَیْتُ لَھُمُ اللہَ وَرَسُوْلَہ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں اپنے گھر کا
سارا مال لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں اور گھروالوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول
ہی کافی ہے۔‘‘حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے
اورکہنے لگے کہ ’’میں کبھی بھی ابوبکر صدیق سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘
تینوں آرزوئیں بر آئیں:
اللہ عَزَّ وَجَلّ َنے حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہ کی یہ تینوں خواہشیں حُب رسولِ انور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صدقے پوری فرما دیں (۱) آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کو سفروحضر میں رفاقت حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نصیب رہی،یہاں
تک کہ غارثور کی تنہائی میں آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکے سوا کوئی اور زِیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا (۲) اسی طرح مالی قربانی کی سعادت اِس کثرت سے نصیب ہوئی کہ اپنا سارا
مال وسامان سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں پرقربان کر دیا اور(۳)مزارپرانوارمیں
بھی اپنی دائمی رفاقت وقُربت عنایت فرمائی۔
محمد ہے متاعِ عالمِ اِیجاد سے پیارا
پِدر مادر سے مال و جان سے اولاد سے پیارا
ہجرت کے موقع پر یار
غار حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو جاں نثاری کی
مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ دونوں غار کے قریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبررضی اللہ عنہ اترے صفائی کی ، غار کے تمام
سوراخوں کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے
پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اسکو بند کیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا حضور تشریف
لے گئے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زانو پر سر رکھ کر
آرام فرمانے لگے، اتنے میں سانپ نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاؤں کو کاٹ لیا، مگر صدیق اکبر، شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آرام میں خلل نہ
واقع ہو، بدستور ساکن وصامت رہے، آخر جب پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے، جب آنسو کے قطرے چہرہ اقدس پر گرے تو حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم بیدار ہوئے ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ڈسے ہوئے حصے پر
اپنا لعاب دہن لگادیا فوراً آرام مل
گیا۔ایک روایت میں ہے کہ سانپ کا یہ زہر ہر سال عود کرتا بارہ سال تک حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ اس میں مبتلا رہے پھر آخر اس زہر کے اثر سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔(مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸)
عاشق اکبررَضِیَ اللہ عَنْہ کے عشق ومحبت بھرے واقعات ہمارے
لئے مشعلِ راہ ہیں۔ راہ عشق میں عاشق اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتابلکہ اس کی دلی
تمنّایہی ہوتی ہے کہ رضائے محبوب کی خاطر اپنا سب کچھ لٹادے۔
کاش!ہمارے اندر بھی
ایسا جذبۂ صادقہ پیدا ہوجائے کہ خدا و مصطفےٰ عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطراپنا
سب کچھ قربان کر دیں۔
جان دی، دی ہوئی اُسی
کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا
نہ ہوا
از: مولانا شعیب عطاری ،المدینۃ العلمیہ
.jpg)
پچھلے
دنوں دعوت اسلامی کے تحت ٹنڈوالہ یار ، حیدرآباد
میں اجتماع ایصال ثواب کا انعقاد ہوا جس میں مبلغ دعوت اسلامی محمد
شکیل عطاری ، امام مسجد ، شخصیات ، ذیلی
حلقے کے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی ۔مبلغ دعوت اسلامی نے ”گھر میں رہنے اور پڑوسیوں کے حقوق
“ کے موضوع پر گفتگو کی اور دعوت اسلامی کا تعارف پیش کیا۔(رپورٹ: ڈاکٹر
عادل آرائیں ڈسٹرکٹ ذمدار رابط برائے ایگریکلچر اینڈ لائیو اسٹاک ٹنڈوالہ یار ،
کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس )
.jpg)
21
جنوری 2022 ء جمعہ کورنگی ڈسٹرکٹ ، ذمہ دار شعبہ اصلاح اعمال نوید شاہ صاحب کی
مرکزی مجلس شوری کے رکن حاجی فضیل
رضا عطاری نے عیادت کی اور ان کی صحت یابی
کے لیے دعا فرمائی مزید تسلی دیتے ہوئے ان کی ہمت بھی بڑھائی ۔نوید شاہ صاحب کا پچھلے دنوں دینی کامو ں کے جدول سے واپسی پر ایکسیڈنٹ ہوا
تھا ۔
حیدرآباد
میٹرو پولیٹن ،زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں سیکھنے سکھانے کا مدنی حلقہ
.jpg)
دعوت
اسلامی کے تحت 20 جنوری 2022 ء کو حیدرآباد
میٹرو پولیٹن ،زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام ، فیکلٹی آف کراپ پروڈکشن میں لائبریری میں سیکھنے
سکھانے کا مدنی حلقہ ہواجس میں نگران مجلس پاکستان ڈاکٹر ناصر عطاری ،نگران
سندھ ڈاکٹر امید علی عطاری نے وزٹ
کیا اور ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ بریڈنگ کے
چئیرمین ڈاکٹر شاھنوز مری صاحب سے ملاقات ہوئی ۔مبلغ دعوت اسلامی نے ” رجب کے
فضائل “پر بیان کیا ، دعوت اسلامی کا تعارف اور شعبہ ایگریکلچر میں دعوت اسلامی کی
خدمات بیان کیں ۔(
رپورٹ : عبدالرشید عطاری ،ذمدار رابط برائے ایگریکلچر اینڈ لائیو اسٹاک یونیورسٹی،
کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس)
ہراُس عمل سے بچناچاہئے جس سے ایمان میں کوئی کمزوری آئے ،
علامہ محمد الیاس عطار قادری

18جماد
الثانی 1443ھ بمطابق 22 جنوری 2022ء کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہفتہ
وار مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کراچی اور بیرون شہر سے عاشقان رسول
نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مدنی
مذاکرے میں شیخ طریقت، امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ
نے عاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات دیئے اور مدنی پھول ارشاد
فرمائے۔
مدنی مذاکرے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
سوال : عام
مؤمن اورمؤمنِ کامل میں کیا
فرق ہے ؟
جواب : ایمان کے مختلف درجے ہیں، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود پیٹ بھرکرسوئے اور اس کاپڑوسی بھوکا ہو وہ مؤمن کامل نہيں۔ (معجمِ
کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741)
اِس لیے ہراُس عمل سے بچناچاہئے جس
سے ایمان میں کوئی کمزوری آئے ۔
سوال: تکبرسے
کیا مرادہے اورتکبرکرنے والوں کاکیا عذاب ہے ؟
جواب: اگرکوئی اپنے آپ کو دوسرے سے
افضل سمجھے تویہ تکبرہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :متکبرین کا حشرقیامت
کے دن چیونٹیوں کے برابرجسموں میں ہوگا اوران کی صورتیں آدمیوں کی ہوں گی ،ہرطرف
سے ان پر ذِلّت چھائےہوئے ہوگی ،ان کو کھینچ کرجہنم کے قیدخانے کی طرف لے جایا
جائے گا۔جس کا نام بُولس ہے۔ان کے اوپرآگوں کی آگ ہوگی ،اُنہیں جہنمیوں کا نچوڑ
پلایا جائے گا جس کوطِیْنَۃُ الْخَبَال کہتے ہیں ۔ (ترمذی،4/221،حدیث :2500)
(تکبر
کی تباہ کاریوں ،اس کی علامات اوراس کا علاج جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی کتاب”تکَبُّر“کا
مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ان شاۤء اللہُ الکریم)
سوال: آندھی اورتنگ دستی کا اندیشہ ہوتو کون ساوظیفہ
پڑھناچاہئے ؟
جواب :چلتے پھرتےوضوبے وضو’’ یَاوَکِیْلُ ‘‘پڑھتےرہیں ،حاجتیں پوری ہوں گی ،مصیبتیں حل ہوں گی
، رزق اوربھلائی کے دروازے کھلیں گے۔
سوال: جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غارِثورمیں تھے تو وہاں کھاناکون لے کر جاتاتھا؟
جواب: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ
عنہ کی بیٹی حضرت اسماءرضی اللہ عنہا ۔
سوال: مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’با طنی بیماریوں
کا علاج‘‘کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔
جواب : ’’باطنی بیماریوں کا علاج‘‘ مکتبۃ المدینہ کی منفردکتاب ہے جو
کئی فرض علوم پر مشتمل ہے ،سب کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔
سوال : کیا دل بدلتارہتاہے ؟
جواب: جی ہاں ! دل کو
قلب کہتے ہیں یہ مُنقَلِب ہوتارہتاہے
یعنی بدلتارہتاہے ۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” اقوالِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ “ پڑھنے یاسُننے والوں کو امیرِاہلِ ِسُنّت نے کیا دُعا دی ؟
جواب: یا ربَ المصطفےٰ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ’’ اقوالِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ‘‘ پڑھ یا سن لے اُسے
اور اُس کی نسلوں کو صحابہ و اہلِ بیت کی سچی غلامی نصیب فرما اور اسے عشقِ رسول کی
لازوال دولت سے مالا مال فرما کر بےحساب بخش دے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لاتا ہے اور جاتا ہے تو میزبان
کے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتا ہے، علامہ محمد الیاس عطار قادری
.jpg)
عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں 15 جنوری 2022ء کو ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا
انعقاد کیا گیا جس میں کثیر عاشقان رسول فیضان مدینہ کراچی آکر براہ راست اور جبکہ
دیگر مقامات پر اسلامی بھائیوں کی بڑی تعداد نے بذریعہ مدنی چینل شرکت کی۔
بانی
دعوت اسلامی حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے دینی
و معاشرتی اعتبار سے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے عاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے
سوالات کے جوابات دیئےاور مدنی پھول ارشاد فرمائے۔
مدنی مذاکرے چند
مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
سوال:ایک
مسلمان کو کتنا علمِ دین ہونا چاہیے؟
جواب:حدیث
پاک میں ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (سنن ابن
ماجہ1/146)
اس سے
مراد ضروری صحیح عقائد،
دیگر علوم مثلاً نماز کا فرض ہونا، روزے ، حج، زکوٰة وغیرہ کےضروری مسائل اوران کی ادائیگی کے
طریقے کا علم ہونا ضروری ہے،اسی طرح تاجر کے لیے تجارت کے ضروری مسائل،و علیٰ ھذا القیاس
ظاہری
گناہوں اور باطنی امراض کے
بارے میں بھی معلومات ہونی چاہئیں۔
سوال:کوئی غیر
ضروری سوال کرے تو اس کو کیا جواب دیا
جائے؟
جواب:گناہ
والی بات نہ ہو تو سچ سچ بتادیا جائے،اگر
بات بتا نے والی نہ ہوتو یہ کہہ دیا
جائے:" معاف کردیجئے میں نہیں بتاسکتا"۔ بہرحال فضول اور غیر ضروری سوالات کرنے والے
کی اصلاح ہونی چاہئےتا کہ وہ اس طرح کے سوالات ہی نہ کرے ۔
سوال:کیا
یہ درست ہے کہ دائیں ہا تھ (Right Hand)میں خارِش ہو تو دولت آتی ہے اوربائیں ہاتھ(Left
Hand) میں ہوتو دولت جاتی ہے ؟
جواب :ایسی
کوئی بات نہیں ۔
سوال:صدیق
اکبر
کا کیا معنیٰ ہے۔
جواب : صدیق
کا معنی ہے ’’سچا‘‘اور اکبر کا معنی ہے" سب سے بڑا"،یہ
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ،صحابیِ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب ہے۔
سوال:کیا
بال سفید ہوجائیں توبندہ بوڑھا ہوجاتا ہے؟
جواب: نہیں،ایسا
نہیں ہے! بال بیماری کی وجہ سے بھی سفید ہوجاتے ہیں’’ بوڑھے‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ
بندہ 60سال کا ہوجائے تو مکمل بوڑھاہوجاتاہے۔
سوال:موت کے تذکرے کوبعض لوگ سنجیدہ نہیں لیتےیا اس کو پسند نہیں کرتے،
اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب : یہ نفس اور شیطان کا دھوکہ ہے،لوگ مرنے کے لیے
تیار نہیں ہیں، یہ مانتے ہیں کہ موت نے آنا ہے مگر کام ایسے ہیں کہ جیسے مرنا ہی
نہیں۔
سوال:جب
ہم لوگوں کے ساتھ ہوں تواس وقت کیا احتیاط کرنی چاہئے ؟
جواب:ایسے
کاموں سے بچا جائے جس سے لوگوں کو گِھن آتی ہے، مثلاً بار
بار ناک میں اُنگلی ڈالنا، بدن سے میل اُتارناوغیرہ۔
سوال:مہمان
کے ساتھ
کیسا سلوک کرنا چاہئے؟
جواب :مہمان
آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لاتا ہے اور جاتا ہے تو میزبان کے گناہوں کی مغفرت کا
باعث بنتا ہے، مہمان آئے تو خوش دلی سے پیش آنا چاہیے، مہمان کو مان دیا جائے، مہمان کے مرتبے کے مطابق
سلوک ہونا چاہئے، ایسی کوئی حرکت نہ کریں
جس سے مہمان کی دل آزاری ہو، مہمان کو چاہیے کہ
مروت و حیا کو پیش نظر رکھے اور کھانے کے اوقات میں نہ جائے۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” بُخار کے فضائل “ پڑھنے یاسُننے
والوں کو امیرِاہلِ ِسُنّت نے
کیا دُعا دی ؟
جواب: یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ ”بُخار
کے فضائل“ پڑھ یا سُن لے اُسے بیماری میں شکوہ و شکایت کرنے سے بچا کر اپنی رضا پر راضی
رہنے کی توفیق عطا فرمااور اُسے بے حساب بخش دے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ خاتمِ النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
نگران شعبہ مدنی چینل عام کریں انجم رضا عطاری کا میر
پور خاص سندھ کا دورہ

شعبہ
مدنی چینل عام کریں کے نگران انجم رضا عطاری نے میرپور خاص سندھ کا دورہ کیا جہاں
انہوں نے مقامی موبائل مارکیٹ میں دینی حلقے لگائے جس میں دکان کے مالکان اور اس
میں کام کرنے والے ورکروں نے شرکت کی۔
انجم
رضا عطاری نے سنتوں بھرابیان کرتے ہوئے انہیں پابندی سے نماز پڑھنے کی دعوت دی اور
ہمیشہ جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے کا ذہن دیا۔دینی حلقے میں دعوت اسلامی ڈیجیٹل
سروسز کا تعارف بھی پیش کیا گیا۔
اسی
طرح میرپور خاص میں ایک اور مقام پر قائم بلدیہ موبائل مارکیٹ میں دینی حلقے کا
انعقاد کیا گیا جس میں نگران شعبہ مدنی چینل عام کریں انجم رضا عطاری نے اسلامی
بھائیوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہیں دعوت
اسلامی کی سروسز اور ایپلی کیشنز کا تعارف
پیش کیا۔
.jpg)
13
فروری 2022ء کو مدنی چینل کا مقبول عام سلسلہ ”ذہنی آزمائش سیزن 13“ کا”
1st Quarter Final“ضلع
خیرپور کے مقام میرواہ میں منعقد ہونے جارہا ہے۔
اسی
سلسلے میں دعوت اسلامی کے شعبہ مدنی چینل عام کریں کے نگران انجم رضا عطاری نے Interior
سندھ مدنی چینل عام کریں کے ذمہ دار احمد رضا عطاری اور دیگر ذمہ داران کے ہمراہ میر
واہ کا وزٹ کیا اور مقامی کیبل آپریٹر سے ملاقات کی۔
انجم
رضا عطاری نے کیبل آپریٹر کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہیں مدنی قافلے میں سفر
کرنےاور میراوہ میں ہونے والے ذہنی آزمائش سیزن 13 کے پہلے کوارٹر فائنل میں شرکت
کرنے کی دعوت پیش کی۔
.jpeg)
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 23 جنوری 2022ء
بروزاتوار آسٹریلیا میں ایصال ثواب اجتماع
کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اسلامی بھائیوں نے کثیر تعدادا میں شرکت کی۔
اس اجتماعِ پاک میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن
مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری نے فیس بک کے ذریعے براہِ راست سنتوں بھرا بیان کرتے
ہوئے شرکا کی دینی اور اخلاقی اعتبار سے تربیت فرمائی۔
اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے انہیں دعوتِ اسلامی
کے 12 دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی
نیتوں کا اظہار کیا۔(کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)
ایک تاجر اسلامی بھائی حاجی محمد سلیم کے والد
کے انتقال پر تعزیت کا سلسلہ

گزشتہ دنوں میرپور خاص میں ایک تاجر اسلامی بھائی
حاجی محمد سلیم کے والد کے انتقال پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی قاری ایاز
عطاری نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے انہیں
صبر کی تلقین کی۔
رکنِ شوریٰ نے مرحوم کے ایصالِ ثواب کےلئے فاتحہ
خوانی کا اہتمام کیااور گھر والوں کودعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں شرکت کرنے
نیز مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لئے مسجد و مدرسہ بنانے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں
نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)
انجم رضا عطاری کا حیدر آباد میں جگنوکیبل سسٹم کے مالک اور
چاندنی موبائل مارکیٹ کے صدر سے ملاقات

دعوت
اسلامی کے شعبہ مدنی چینل عام کریں کے نگران انجم رضا عطاری نے Interior
سندھ مدنی چینل عام کریں کے ذمہ دار احمد رضا عطاری، مقامی ڈویژن ذمہ دار فہیم
عطاری اور دیگر ذمہ داران کے ہمراہ حیدر
آباد سندھ میں جگنو کیبل سسٹم کے مالک فہیم قریشی اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی۔
اس موقع پر دینی حلقے کا انعقاد کیا گیا جس میں
انجم رضا عطاری نے ”جھوٹ“ کے موضوع پر بیان کیا اور شرکا کو ہمیشہ سچ بولنے
کی ترغیب دلائی۔
اسی
طرح شعبہ مدنی چینل عام کریں کے نگران انجم رضا عطاری نے Interior
سندھ مدنی چینل عام کریں کے ذمہ دار احمد رضا عطاری کے ساتھ حیدر آباد کی چاندنی
موبائل مارکیٹ کے صدر سے ملاقات کی اور انہیں دعوت اسلامی کی ڈیجیٹل سروسز اور ایپلی کیشنز کا تعارف پیش کیا۔

دعوتِ
اسلامی کے شعبہ مکتبۃُالمدینہ (اسلامی بہنیں) کے تحت 22 جنوری 2022 ءکو مجلس بین الاقوامی
امور شعبہ کی ذمہ دار اسلامی بہن نے آسٹریلیاریجن اور سڈنی کی ذمہ داراسلامی بہنوں
کا مدنی مشورہ لیا ۔
مدنی مشورے
میں سابقہ دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا نیز مکتبۃُالمدینہ اور تقسیم
رسائل کے اہداف دیئے گئے اور شعبہ شب وروز کے بارے میں معلومات دی گئیں ۔
علاوہ ازیں ماہنامہ فیضان مدینہ کے تحریری مقابلوں کےبارے میں تفصیل سے بتایا گیا
۔