دعوتِ  اسلامی کے تحت یکم دسمبر 2021ء کو ڈیرہ اسماعیل خان زون لکی مروت کابینہ میں قائم جامعۃ المدينہ گرلز میں نيو 26 دن پر مشتمل مدنی قاعدہ کورس کا آغاز ہوا جس میں کثیر تعداد میں طالبات نے داخلے لئے۔ اس کورس ميں مدنی قاعدہ ،رہنمائے مدرسين کتاب ، 30 پارے کی آخری سورتيں اور فرض علوم سيکھايا جائے گا۔


دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں  ڈیرہ اسماعیل خان زون لکی مروت کابینہ پنیالہ محلہ ملا خيل میں علاقائی دورہ ہوا جس میں کابینہ نگران اسلامی بہن نے دیگر ذمہ دار اسلامی بہنوں کے ہمراہ گھر گھر جاکر مقامی اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع پاک میں شرکت کی دعوت دی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں بھی پیش کیں ۔


 منافق شخص بہت برا شخص ہے، جب کفار منافقین پر عذاب شروع ہوگا تو اس دن خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ قیامت کے دن یہ تمام اعضاء بولیں گے۔ یہ اعضاء کہے گے کہ یہ کافر ومنافقین بدبخت مجھے شرک کفر بلوایا کرتے تھے۔ یہ تمام اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)

(پ:18،نور:24)

ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں،ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ:18،النور : 24)

حضرت علامہ سید محمود آلو سی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کریم اپنی قدرت کاملہ سےانہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا۔ پھر ان میں سے ہر ایک شخص کے بارے میں گواہی دے گا۔ کہ یہ ان سے کیا کیا کام کرتا رہا ہے۔(تفسیر روح المعانی ص 442 )

سورہ بنی اسرائیل میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان:: بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)

اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے کہ" یعنی ان میں سے ہر ایک سے اس کے استعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ چنانچہ دل سے پوچھا جائے گا کہ اس کے ذریعے کیا سوچا اور آنکھ سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے ذریعے کیا دیکھا گیا ۔

جبکہ علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیر روح المعانی میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کے دل کے افعال پر بھی اس کی پکڑ ہو گی، مثلا کسی گناہ کا پختہ ارادہ کر لیا یا دل کا مختلف بیماریوں مثلا کینہ ،حسد اور خود پسندی وغیرہ میں مبتلا ہو جانا۔۔۔۔ ہاں علماء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ دل میں کسی گناہ کے بارے میں محض سوچنے پر پکڑنہ ہوگی، جب کہ اس کے کرنے کا پختہ ارادہ نہ رکھتا ہو۔

( تفسیر روح المعانی ص 97)

مزید درۃ الناصحین میں ہے کہ" قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔ وہ عرض کرے گا :"یا الہی عز و جل میں نے تو یہ گناہ کیا ہی نہیں ۔اللہ پاک فرمائے گا :میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا: یا رب گواہ کہاں ہے؟ تو اللہ کریم اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ وہ کان کہیں گے ہاں تم نے حرام سنا،اورہم اس پر گواہ ہیں۔ آنکھیں کہیں گی: ہاں ہم نے حرام دیکھا۔ زبان کہے گی: ہاں ہم نے حرام بولا تھا۔ اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے: ہاں ہم نے حرام کی طرف بڑھے تھے۔ شرمگاہ پکارے گی: ہاں میں نے زنا کیا تھا۔ اور وہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا۔(ملخّصا،المجلس الخامس ،ص 294)

ہمارے جسم کے تمام گواہ تمام اعضاء ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کو درست استعمال کریں ۔ان کو تمام حرام کاموں سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں گزارے۔ اللہ کریم غفور الرحیم ہے لیکن جبّارو ستّار بھی ہے۔ ہمیں اللہ پاک کی رحمت کی طرف نظر بھی کرنی ہے اور اس کے خوف سے ڈرنا بھی چاہیے ۔


 فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کا کوئی قریبی شخص یا اس کا تعلق دار اس کے خلاف گواہی دے تو اس پر اعتراض کرنا ،اس کے خلاف بولنا ،ناراضگی مان لینا وغیرہ وغیرہ وغیرہ عام ہے۔ انسان دنیا میں تو اس کے خلاف اقدام کر سکتا ہے لیکن بروز قیامت اس کے پاس کوئی جواز نہ ہوگا۔ خصوصا جب اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی۔ اس مضمون کو رب تعالی قرآن مجید میں اس انداز سے بیان فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

اس آیت کے تحت سورہ الافاضل حضرت سید مفتی نعیم الدین رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں یعنی کفار بول نہ سکیں اور یہ مُہر کرنا ان کے یہ کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا ۔ ان کے اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے ۔(کنزالایمان مع خزائن العرفان ص 832)

حضرت علامہ ابوبکر عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ہم نے منہ پر مہر کر دیں گےیعنی ہم ان کو گفتگو سے روک دیں گے، مروی ہے کہ لوگ انکار کریں گے جھگڑا کریں گے تو ان کے خلاف ان پڑوسی،اہل و عیال ،خاندان والے گواہی دیں گے۔ اسی وجہ سے ان کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور ان کے ہاتھ اور پاوٗں کلام کریں گے۔ (تفسیر نسفی 3/159)

مروی ہے کہ یہ ان سے اس وقت کیا جائے گا کہ جب وہ دنیا میں کیے گئے کا انکار کریں گے اور جھگڑیں گے، پھر ان کے خلاف ان کے پڑوسیوں۔ اہل وعیال، خاندان والوں کو گواہ بنایا جائے گا ۔پھر وہ کہ وہ مشرک تھے۔( حاشیۃ الصاوی 5/1724)

تفسیر صراط الجنان میں ہے مسلم شریف کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں ا س کے اعمال بیان کریں گی۔

( صراط الجنان فی تفسیر القرآن 8/274)


بروز قیامت نفسا  نفسی کا عالم ہوگا ،لوگوں کے سامنے ان کے اعمال نامے کھول دیے جائیں گے اور اسے پڑھنے کو کہا جائے گا۔ اس کو پڑھ کر وہ موجود اعمال کا اعتراف نہیں کرے گا اور انکار کرے گا اور جھگڑا کرے گا تو اس کے اعضاء اس کے خلاف اس کی برائیوں کی گواہی دیں گے اور اگر نیک اعمال ہوں تو اس کی اچھائی کی گواہی دیں گے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

صراط الجنان میں ہے : آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

حضرت سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بروز قیامت تم اس حال میں آؤ گے کہ تمہارے مونہوں پر مہر ہوگی۔ اور آدمی کے اعضاء میں سے سب سے پہلے اس کی ران اور ہتھیلی کلام کرے گی۔( مسند احمد)

دیکھا قارئین حضرات آپ نے کہ قیامت کے دن ران اور ہتھیلی سب اعضاء سے پہلے گواہی دیں گے۔

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن کافروں کو ان کے اعمال پر عار دلائی جائے گی ، وہ انکار کرے گا اور جھگڑے گا ۔اس سے کہا جائے گا: تیرے پڑوسی، گھر والے اور کنبے والے تیرے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ تو کہے گا :وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر اس کو خاموش کر دیا جائے گا اور اس کی زبان اس کے خلاف گواہی دے گی اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(البدور السافرة في احوال الآخرة ،ص :331)

اسی طرح جب انسان کے اعضاء نیکی کی ہو تو وہ اس کے حق میں گواہ اور جواب دیں گے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم عورتوں پر تسبیح و تہلیل لازم ہے اور انگلیوں کے پوروں سے انہیں شمار کرو ۔کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور یہ جواب دیں گے ۔ (ترمذی)


جیسا کہ اللہ رب العزت اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

خلاصہ : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قیامت میں کفار اپنے کفر اور رسولوں علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔ تو اللہ تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تا کہ وہ بول نہ سکے، پھر ان کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے۔

حدیث شریف:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گے۔

یاد رہےکہ مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لیے نہ ہوگی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔

( ماخوذ صراط الجنان جلد:8،ص:274،273)

اے عاشقان رسول ہمیں پتا چلا کہ یہ اعضاء قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی دینگے ۔ یہ زندگی سفر کی مانند ہے جوں جوں منزل قریب آئے گا سفر پورا ہو جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ تعالی کا فرمان ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

آیت کا معنی:ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسول علیہم الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے تو اللہ تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تا کہ وہ بول نہ سکے، پھر ان کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

حدیث :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص1587، الحدیث: 16(2968))

یاد رہے: مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لیے نہ ہوگی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔

(صراط الجنان جلد:8،ص:274،273)


 اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں  کفار اپنے کفر اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں  گے اورکہیں  گے ،ہمیں  اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں  ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں  گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں  گے تاکہ انہیں  معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں  پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں  گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں  گے اور ا س کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں  ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں  تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں  پر ایمان لایا،میں  نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں  بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں  ۔وہ بندہ اپنے دل میں  سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں  سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں  ا س کے اعمال بیان کریں  گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔

( تفسیر صراط الجنان 8/274)


مخلوق کو قبروں سے نکالنے کے بعد ،میدان محشر کی جانب لایا جائے گا۔ سورج کی گرمی کی وجہ سے غم بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ خوف ،ذلت، رسوائی دامن گیر ہوگا اور اس کی طوالت  پچاس ہزار سال ہوگی اور اس حالت میں بغیر ترجمان بالمشافہ سوال ہوگا ۔معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں سوالات ہوں گے۔ بندہ اپنے رب سے ان پر گواہ طلب کرے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:

بندہ اپنے رب سے مخاطب ہوگاقیامت کے دن اور کہے گا :اے میرے رب کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ رب تعالی فرمائے گا :کیوں نہیں۔ بندہ عرض کرے گا:" میں تو اس وقت مانوں گا جب مجھ ہی میں سے کوئی گواہ ہو۔ تو وہ فرمائے گا: آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہو اور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی ۔ اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا ۔ بولو ،تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے ، پھر اسے اور(اس کے اعضاء کے)بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا۔تو(ان کی گواہی سن کر ) وہ کہے گا دورہوجاؤ،میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ) لڑا کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم حدیث 7439)

قرآن میں بھی قیامت کے دن اعضاء کی گواہی دینے کا ثبوت ہے۔ ارشاد ربانی ہیں :

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

تفسیر صراط الجنان میں ہے :آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

پارہ 24 سورہ حٰم السجدۃ آیت نمبر 21 اور 22 میں ہے: اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہم پر کیوں گواہی دی وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے تمہیں پہلی بار بنایا اور اُسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے۔ اور تم اس سے کہاں چھپ کر جاتے کہ تم پر گواہی دیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں

حدیث میں ہے کہ" اللہ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوگا اور فرمائے گا: کیا تجھے مجھ سے ملاقات کا یقین تھا؟ بندہ کہے گا: نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے ۔ وہ کہے گا ۔اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔

( مسلم، ص1213، الحدیث: 7438)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بروز قیامت تم اس حال میں آؤ گے تمہارے مونہوں پر مہر ہوگی اور آدمی کے اعضاء میں سے پہلے اس کی ران اور ہتھیلی کلام کرے گی۔( مسند احمد)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن جب اللہ انسانوں کے مونہوں پر مہر لگائے تو سب سے پہلے بائیں پاؤں کی ران گواہی دے گی۔

حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں میرے خیال میں(اس روز)انسان کے جسم کی دائیں ران کلام کرے گی۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کافروں کو ان کے اعمال پر عار دلائی جائے گی ، وہ انکار کرے گا اور جھگڑے گا ۔اس سے کہا جائے گا: تیرے پڑوسی، گھر والے اور کنبے والے تیرے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ تو کہے گا :وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر اس کو خاموش کر دیا جائے گا اور اس کی زبان اس کے خلاف گواہی دے گی اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم عورتوں پر تسبیح و تہلیل لازم ہے اور انگلیوں کے پوروں سے انہیں شمار کرو ۔کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور یہ جواب دیں گے۔ (ترمذی)

معزز قارئین قیامت کا ہولناک دن ،معمولی چیزوں کا حساب و کتاب اور نہ چھپنے کی جگہ اور نہ ہی جھٹلانے کی صورت۔ کیونکہ ہمارے اعضاء ہی ہمارے خلاف گواہی دیں گے،تو ہمیں اس دن میں سرخرو ہونے کے لیے تیاری شروع کر دینی چاہیے تاکہ کامیاب ہو جائیں۔


اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا،نیک اعمال پر جنت کا وعدہ فرمایا،اور معصیت پر جہنم کی وعید سنائی،بروز قیامت ہر مجرم پر اتمام حجت کیلئے تمام ثبوت و گواہ پیش کیے جائیں گے کراما کاتبین اور مجرم کے اپنے ہی اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔

قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر اعضاء کے گواہی دینے کا بیان موجود ہے۔ چنانچہ سورہ نور آیت نمبر 24 میں فرمان الٰہی ہے: یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)(پ:18،نور:24)

ترجمہ کنز العرفان:جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

روح المعانی میں ہے:’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)

اسی طرح سورۃ یٰس آیت 65 میں ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمہ کنز العرفان: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

صراط الجنان میں ہے : آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

ایک طویل حدیث پاک کا مضمون ہے کہ بندہ کہے گا ۔ اے میرے رب!کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟تو رب فرمائے گا ۔ کیوں نہیں !تو بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی(کی گواہی) نہ مانوں گا۔ تو وہ فرمائے گا: آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہو اور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی ۔ اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا ۔ بولو ،تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے ، پھر اسے اور(اس کے اعضاء کے)بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا۔تو(ان کی گواہی سن کر ) وہ کہے گا دورہوجاؤ،میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ) لڑا کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم، حدیث :7439)

ان نصوص پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جن اعضاء سے رب کی نافرمانی کرتے رہے کل وہی ہمارے خلاف بارگاہ الٰہی میں شکایت پیش کریں گے تب کیا بنے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں فکر آخرت نصیب فرمائے ۔اٰمین

چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ

وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے


سورۂ نور میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)

ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ18،النور : 24)

حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمۃ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)

نیز درۃ الناصحین میں ہے ، ’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم نے (حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے (حرام) بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں ! میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ، المجلس الخامس والستون ص294)

جہنم بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس میں کود پڑو، چنانچہ اور آیت میں ہے :

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّاؕ(۱۳) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ(۱۴) اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵) (پ:27، الطور: 13 - 15 )

ترجمہ کنز العرفان :جس دن انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا ۔ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔ تو کیا یہ جادو ہے یا تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی گواہی دینا شروع کر دیں گے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ یکایک مسکرائے اور اس قدر مسکرائے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ ہم نے عرض '' اللہ پاک اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں" فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا کرے گا اس پر کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا؟ اللہ پاک فرمائے گا ہاں، تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں۔ اللہ پاک فرمائے گا اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی۔ چنانچہ اسی وقت زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لیے؟ وہ صاف کھول کر سچ سچ بات بتا دیں گے پھر اس کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور تمہارے ہی فائدے کے لیے حجت بازی کر رہا تھا۔(صحیح مسلم:2969)

نسائی شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔

(نسائی فی السنن الکبرٰی:11479)

قیامت کے متعلق ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے کہ بندے سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے؟ یہ کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر ایمان لایا تھا روزے ، نماز ، زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی نیکیاں بیان کر جائے گا اس وقت اس سے کہا جائے گا، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے، اب ران اور ہڈیاں اور گوشت بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے گا۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے۔ چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لیے اس سے سختی سے بازپرس ہوئی۔

[صحیح مسلم:2968] ‏‏‏‏

ایک حدیث میں ہے منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن کو بلا کر اس کے گناہ اس کے سامنے کر کے فرمائے گا، کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ کہے گا ہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سرزد ہوئی ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں، لیکن یہ گفتگو اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا۔ اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول کر ساری مخلوق کے سامنے جتا جتا کر رکھی جائیں گی ۔

اور کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں کھانے لگے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے(معاذ اللہ) میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے، فرشتہ کہے گا کیا کہہ رہا ہے؟ کیا فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں کام نہیں کیا؟ یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز نہیں کیا؟( معاذ اللہ) اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا، سب سے پہلے اس کی دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی ۔

پھر فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر سکتے۔ اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے۔ ادھر ادھر راستے ٹٹولتے۔ حق کو نہ دیکھ سکتے، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے، آگے پیچھے نہ ہو سکتے ۔ (تفسیر ابن کثیر ملخصاً )

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ گناہوں سے بچائے تاکہ بروز قیامت ہمارے اعضاء نیک اعمال کی گواہی دیں سکیں ۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قیامت کے دن کان اور آنکھ اور دل اعمال کی گواہی دیں گے: 

ہمارے جسم کے اعضاء مثلاً آنکھ ، کان ، زبان ، دل اور پاؤں وغیرہ، جو آج ہر اچھے اور برے کام میں ہمارے معاون ہیں ، کسی بھی نیکی کے کام پر حوصلہ افزائی یا گناہ کے ارتکاب پرملامت کرنے کی بجائے بالکل خاموش رہتے ہوئے ہمیں اپنے تأثرات سے مکمل طور پر’’ محروم‘‘رکھتے ہیں ۔ لیکن بروزِ قیامت یہی اعضاء ہمارے اعمال پرگواہ ہوں گے کہ ہم انہیں کن کاموں میں استعمال کرتے رہے ہیں ،

جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے : اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمہ کنز لایمان : بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔‘‘(پ:15،بنی اسرائیل : 36)

قیامت کے دن زبانیں ، ہاٹھ اور پاؤں اعمال کی گواہی دیں گے:

قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں پر مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے بعد مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔

( خازن، النور، تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)

چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)ترجمہ کنز الایمان: جس دن ان پر گواہی دیں گی اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے۔(پ:18،نور:24)

قیامت کے دن گواہی کون دیگا:

’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم نے(حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے(حرام)بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں ! میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ، المجلس الخامس والستون ، ص294)