
مشورہ ایک
امانت ہے اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتاہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ
مانگا، اور اس نے بغیر سوچے سمجھے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ
خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)
لہذا کسی غلط
کام کرنے کی تائید کرنے اور اسے کرگزرنے کا مشورہ دینے والا شخص بلاشبہ خیانت کا
مرتکب اور اس گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔ جس پر توبہ واستغفار اور آئندہ کے لیے اس
طرح کی امور سے مکمل اجتناب لازم ہے۔
جس سے مشورہ
کیا جائے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ
دے، نبی ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے ایسا مشورہ دیا
کہ بھلائی اس کے علاوہ میں ہو تو اس نے مشورہ مانگنے والے کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود،
3/449، حدیث: 3657)
حضرت موسیٰ
کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے
فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے
مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی
دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا
تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا
! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی
صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت
ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)
غلط مشورہ نہ
دیجئے، جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت
کرنے والا) ٹھہرے گا۔ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ
دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)
یعنی اگر کوئی
مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی
میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/212)
کیا ہی اچھا
ہو کہ آج مسلمان اچھا مشورہ دے کر اس عظیم سنّت کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت،
خوش بختی اور معاشرے کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے اور ہزاروں دینی اور دنیاوی
فائدے بھی۔
اللہ ہمیں
اچھا مشورہ دینے کی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

غلط مشورے کی
شناخت کیسے کریں؟
1۔
مہارت کی کمی: ایسے
افراد کے مشورے سے ہوشیار رہیں جن کے پاس متعلقہ شعبے میں مہارت یا تجربہ نہیں ہے۔
2۔
متعصب یا خود خدمت: ایسے مشورے سے ہوشیار رہیں جو متعصب یا خود غرض
معلوم ہو، کیونکہ اس میں آپ کے بہترین مفادات نہیں ہوسکتے۔
3۔
غیر حقیقت پسندانہ وعدے: ایسے مشورے پر شک کریں جو غیر حقیقی یا
مبالغہ آمیز نتائج کا وعدہ کرتا ہو۔
4۔
شفافیت کی کمی: ایسے
مشورے سے ہوشیار رہیں جس میں شفافیت کا فقدان ہو، کیونکہ یہ اہم معلومات یا ممکنہ
خطرات کو چھپا سکتا ہے۔
غلط مشورے سے
بچنا باخبر فیصلے کرنے اور ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ متعصبانہ یا
خود کو پیش کرنے والے مشورے سے محتاط رہنے سے، باشعور افراد سے رہنمائی حاصل کرکے،
اور معلومات کی تصدیق کرکے، آپ غلط مشورے حاصل کرنے کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں غلط
مشورہ دینے یا وصول کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہاں کچھ نتائج درج ذیل ہیں:
غلط
مشورے کے نتائج:
1۔ گمراہ کن
فیصلے: غلط مشورہ گمراہ کن فیصلوں کا باعث بن سکتا ہے، جو افراد یا برادریوں کو
نقصان پہنچا سکتا ہے۔
2۔ اعتماد کا
نقصان: غلط مشورہ وصول کرنے سے مشیر پر اعتماد ختم ہوسکتا ہے، تعلقات اور ساکھ کو
نقصان پہنچ سکتا ہے۔
3۔ غیر ارادی
نتائج: غلط مشورے کے غیر ارادی نتائج ہوسکتے ہیں، جو حل سے زیادہ مسائل کا باعث
بنتے ہیں۔
غلط
مشورے سے کیسے بچا جائے:
1۔ معلومات کی
تصدیق: مشورہ دینے یا وصول کرنے سے پہلے معتبر ذرائع سے معلومات کی تصدیق کریں۔
2۔ متعدد
تناظر تلاش کریں: اچھی رہنمائی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد ذرائع سے مشورہ لیں۔
3۔ نتائج پر
غور کریں: مشورہ دینے یا لینے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج پر غور کریں۔
اسلام میں
مشورہ دینا اور لینا اہم سمجھا جاتا ہے۔ قرآن اہل علم سے رہنمائی حاصل کرنے کی
اہمیت پر زور دیتا ہے تاہم، اسلام غلط مشورہ دینے یا لینے کے خلاف بھی خبردار کرتا
ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، دین اخلاص ہے، لہٰذا اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، اور
مسلمانوں کے قائدین اور ان کے عام لوگوں سے مخلص رہو۔
غلط
مشورے کا اثر:
1۔ جذباتی
پریشانی: غلط مشورہ جذباتی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے، جس سے پریشانی، ڈپریشن اور
دیگر دماغی صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
2۔ مالی
نتائج: غلط مشورے کے نتیجے میں مالی نقصانات، کریڈٹ سکور کو نقصان اور یہاں تک کہ
دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔
3۔ تعلقات کو
نقصان: غلط مشورہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے تنازعات، بداعتمادی اور
یہاں تک کہ تعلقات ٹوٹ سکتے ہیں۔

غلط مشورہ
دینا ایک ایسا عمل ہے جس کی اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ یہ عمل دھوکہ دہی،
خیانت، اور غیر ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے، جو نہ صرف مشورہ لینے والے فرد کو
نقصان پہنچاتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ مشورہ ایک اہم امانت ہے،
اور اس میں خیانت کرنا ایک سنگین گناہ ہے۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر مشورے کی
اہمیت اور غلط مشورہ دینے کے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ
نے قرآن مجید میں دھوکہ دہی اور خیانت کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ
اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) (پ 9، الانفال: 27) ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو،
جبکہ تم جانتے ہو۔
مشورہ دینا
ایک اہم امانت ہے۔ غلط مشورہ دینے کا مطلب اس امانت میں خیانت کرنا ہے، جو اسلامی
تعلیمات کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق بات چھپانے اور دھوکہ دینے والوں کو سخت
وعید دی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے
مشورہ دینے کو دیانت داری اور خیر خواہی کا تقاضا قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس
سے مشورہ لیا جائے، وہ امانت دار ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)
غلط مشورہ
دینا امانت داری کے اصول کی خلاف ورزی ہے اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ نبی کریم
ﷺ نے یہ بھی فرمایا: جس نے ہمیں دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم، ص 64، حدیث:
283)
غلط مشورہ
دینا دھوکہ دہی کی ایک شکل ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ یہ
عمل نہ صرف فرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے بلکہ معاشرتی تعلقات کو بھی کمزور
کرتا ہے۔
غلط
مشورے کے اثرات: غلط
مشورہ لینے والا فرد اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں نقصان اٹھا سکتا ہے۔ یہ نقصان
مادی، جذباتی یا روحانی سطح پر ہوسکتا ہے۔ مثلاً، کاروبار کے حوالے سے غلط مشورہ
دینا کسی شخص کے مالی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
غلط مشورے
معاشرتی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔ جب لوگ مشورہ دینے والوں پر اعتماد کھو دیتے
ہیں، تو یہ پورے سماج میں بے یقینی اور فساد کا باعث بنتا ہے۔
غلط مشورہ
دینا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ عمل انسان کے ایمان کو
کمزور کرتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب کا باعث بن سکتا ہے۔
غلط مشورے کے
اسباب: بعض لوگ اپنی ذاتی خواہشات یا مفادات کی بنا پر دوسروں کو غلط مشورہ دیتے
ہیں۔
حسد کرنے والے
افراد دوسروں کی ترقی یا خوشی برداشت نہیں کر پاتے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے
غلط مشورے دیتے ہیں۔
بعض اوقات غلط
مشورہ ناسمجھی یا غیر ذمہ داری کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔
غلط مشورہ
دینا ایک اخلاقی اور دینی جرم ہے، جس کے سنگین نتائج فرد، معاشرے، اور آخرت میں
ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ سچائی، دیانت داری، اور خیر خواہی کو اپنا
شعار بنائیں۔ مشورہ دینے سے پہلے خوب سوچیں اور اپنی نیت کو خالص کریں تاکہ مشورہ
لینے والے کو حقیقی فائدہ پہنچے۔

زندگی کے ہر
موڑ پر ہمیں مختلف مشورے سننے کو ملتے ہیں۔ کچھ مشورے رہنمائی کرتے ہیں تو کچھ
ہمارے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ غلط مشورہ ایک ایسا رہنمائی ہوتا ہے جو یا
تو ناواقفیت، بد نیتی، یا غیر ذمہ داری کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔
غلط مشورے کی
چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1۔ جلد بازی
کا مشورہ: بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے پر اصرار کرنا۔
2۔ تجربہ نہ
ہونے کا مشورہ: کسی معاملے میں بغیر تجربے کے لوگوں کی بات مان لینا۔
3۔ مفاد پر
مبنی مشورہ: ایسے افراد کا مشورہ لینا جن کے اپنے مفادات ہوں۔
4۔ حقائق کے
بغیر مشورہ: بغیر حقائق اور تحقیق کے دی جانے والی رائے۔
غلط
مشورے کے نقصانات: وقت اور وسائل کا ضیاع، اعتماد کی کمی، مستقبل میں
مشکلات کا سامنا، رشتوں میں دراڑیں۔
غلط
مشورے سے بچاؤ؛
1۔ تحقیق
کریں: کسی بھی مشورے کو قبول کرنے سے پہلے اس کی حقیقت اور ممکنہ اثرات کو جانچیں۔
2۔ ماہرین سے
رجوع کریں: کسی مسئلے میں متعلقہ ماہرین سے رائے لینا زیادہ بہتر ہے۔
3۔ اپنی عقل
کا استعمال کریں: کسی بھی رائے کو قبول کرنے سے پہلے اپنی عقل اور تجربے سے اس کا
جائزہ لیں۔
غلط مشورہ
زندگی کا حصہ ہے، لیکن اسے پہچان کر اس سے بچنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ہمیشہ سوچ
سمجھ کر فیصلے کریں تاکہ ندامت سے بچا جا سکے۔
غلط مشورہ
اکثر انفرادی یا اجتماعی نقصان کا سبب بنتا ہے۔ یہ نہ صرف وقت اور وسائل ضائع کرتا
ہے بلکہ اعتماد کو بھی مجروح کر سکتا ہے۔ غلط مشورے کو سمجھنا اور اس سے بچاؤ کی
تدابیر اپنانا ضروری ہے تاکہ زندگی کے فیصلے درست اور مثبت سمت میں ہوں۔
غلط
مشورے کے عوامل:
1۔ علم کی
کمی: مشورہ دینے والا کسی موضوع پر مناسب علم نہ رکھتا ہو۔
2۔ ذاتی مفاد:
وہ لوگ جو اپنی ذاتی منفعت کے لیے مشورہ دیتے ہیں، عام طور پر دوسروں کا نقصان
کرتے ہیں۔
3۔ عجلت یا
جذباتیت: جلد بازی یا جذباتی فیصلے اکثر غلط مشورے کا باعث بنتے ہیں۔
4۔ حسد یا بد
نیتی: کچھ لوگ جان بوجھ کر دوسروں کو غلط سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔
غلط
مشورے کے عام اثرات:
1۔ مالی
نقصان: کاروبار یا سرمایہ کاری میں غلط مشورہ بڑی مالی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
2۔ رشتوں میں
تلخی: ذاتی یا خاندانی معاملات میں غلط رہنمائی سے رشتے خراب ہو سکتے ہیں۔
3۔ نفسیاتی
دباؤ: غلط فیصلے کرنے کے بعد شرمندگی اور افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
4۔ زندگی کا
رخ بدلنا: ایک غلط فیصلہ پورے مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے۔
غلط
مشورے کی پہچان:
1۔ مشورہ دینے
والا جذبات پر زیادہ زور دے رہا ہو۔
2۔ دی گئی
رائے کے پیچھے کوئی ٹھوس دلیل یا تجربہ نہ ہو۔
3۔ مشورے میں
صرف قلیل مدتی فائدے پر توجہ دی جا رہی ہو۔
4۔ مشورہ دینے
والا خود اس معاملے میں ناکام ہو چکا ہو۔
غلط مشورے سے
بچنے کے اصول
1۔ متعدد رائے
لیں: ہمیشہ ایک سے زیادہ افراد سے مشورہ کریں۔
2۔ معلومات
اکٹھی کریں: فیصلہ کرنے سے پہلے تمام متعلقہ معلومات جمع کریں۔
3۔ خود پر
اعتماد کریں: اپنی عقل اور تجربے کو ہمیشہ بنیاد بنائیں۔
4۔ نتائج کا
جائزہ لیں: مشورے کے ممکنہ اثرات پر غور کریں۔
غلط مشورہ
زندگی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے، لیکن دانشمندانہ سوچ، تجربہ اور تحقیق کے
ذریعے اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مشورے کو قبول کرنے سے پہلے اس کا ہر
زاویے سے جائزہ لیں تاکہ ندامت سے بچا جا سکے۔
غلط مشورہ دینا از بنت محمد اصغر مغل،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

عقل اور ذہانت
خدا کی طرف سے ہے۔ یہ اس کی طرف ہے کہ کوئی بندہ ذہانت کا پیکر نظر آتا ہے، کوئی
درمیانہ یا کم درجہ کا ذہین ہوتا ہے۔ ذہانت کے اسی فرق کے سبب ایک انسان کسی مسئلہ
کے مفید یا نقصان دہ پہلو کو پلک جھپکتے ہی سمجھ جاتا ہے جبکہ دوسرا اپنی عقل و
فکر کو تھکا کر بھی نتیجہ تک رسائی نہیں پاتا اسی لئے اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی
ہیں کہ انسان اپنی عقل و فہم کو ہی کامل نہ سمجھے بلکہ دوسروں سے مشورہ کر لے تاکہ
بعد کی پریشانی اور خسارہ سے بچا جا سکے۔ کئی مواقع ایسے بھی پیش آتے ہیں کہ کسی
کام کو کرنے یا نہ کرنے کے دو پہلو نظر آتے ہیں، انسان فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کام
کے کس رخ کو اپنانے میں بھلائی ہے اور کس طرف نقصان اور برائی ہے؟
ایسی صورت حال
میں اسلام اپنے ماننے والے کو سکھاتا ہے کہ اپنی عقل و دانش پر اعتماد کر کے نقصان
اٹھانے کی بجائے مشورہ ہی کر لے تاکہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اب مشورہ دینے
والے دو قسم کے ہوتے ہیں:
1۔ جنہیں اللہ
پاک کا خوف ہوتا ہے اور خیر خواہی کا جذبہ دل میں لیے اور اجرو ثواب کے حصول کے
لیے اپنے مسلمان بھائی کو اللہ کی رضا کے لیے مشورہ دیتے ہیں۔
2۔ وہ جو اللہ
پاک کا دلوں میں کچھ خوف نہیں رکھتے، دوسروں کو غلط مشورہ اس لیے دیں گے اس کا کام
خراب ہو او لوگوں کی نظروں میں کوئی عزت نہ رہے بے شک یہ ضرور حاسد لوگ ہیں۔
حضرت موسی
کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے
فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آ سیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ
کیا انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان دونوں کی دعوت کو
رد کرے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا جب اس نے
ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا میں تمہیں عقلمند سمجھتا تھا تم حاکم ہو یہ دعوت
قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ
گے چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے
محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جز: 16، ص 682)
جس سے مشورہ
کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا،
فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
یعنی اگر کوئی
مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی
میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

مشورہ اور
مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا، باہمی سوچ بچار کرنا۔
مشورہ
کا حکم: اہم
معاملات میں باہمی مشورہ لینا آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اور
دنیا و آخرت میں باعثِ برکت ہے۔ (معارف القرآن، 2/219)
مشورہ ایک
امانت ہے اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ
مانگا، اور اس نے بغیر سوچے سمجھے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ
خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)
رسول پاک ﷺ نے
فرمایا: وہ جب تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا
مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)
دین اسلام کی
روشن تعلیمات میں مشورہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام میں مشورہ کی
اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اللہ پاک نے خود اپنے حبیب ﷺ کو
مشورہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ نبیّ کریم ﷺ سے بڑا دانا اور عقل مند کون ہوسکتا
ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ ﷺ کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں، مشہور
تابعی حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے متقدمین کی 71کتابیں
پڑھی ہیں، ان تما م کتابوں میں یہی پایا کہ اللہ پاک نے دنیا کے آغاز سے لے کر
دنیا کے انجام تک تمام لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبیّ
کریم ﷺ کی عقل مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے
میں ایک ذرہ ہو۔ آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ایسی کمال عقل کے باوجود
اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
تفسیر قرطبی
میں ہے: اللہ پاک نے نبیّ کریم ﷺ کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس وجہ سے
نہیں دیا کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو ان کے مشورہ کی حاجت ہے، حکم دینے کی وجہ یہ
ہے کہ انہیں مشورے کی فضیلت کا علم دے اور آپ کے بعد آپ کی امّت مشورہ کرنے میں آپ
کی اتّباع کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا:
اللہ اور اس کے رسول کو مشورہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ پاک نے مشورہ کو میری
امّت کے لئے رحمت بنایا ہے۔ نبیّ کریم ﷺ خود بھی مشورہ فرماتے اور دوسروں کو بھی
اس کا حکم دیتے، آئیے! اسی بارے میں دوفرامین مصطفٰے پڑھتے ہیں:
(1)عقل مندوں
سے مشورہ کرو کامیابی پالو گے اور ان کی مخالفت نہ کرو ورنہ شرمندگی پاؤ گے۔
(2)جو شخص کسی
کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان شخص سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے درست کام
کی ہدایت دے دیتا ہے۔
مشورہ
سے متعلق کچھ آداب: مشورہ کس سے کرنا ہے اس بارے خوب غور و فکر سے کام
لینا چاہئے اور مشورہ سے پہلے خوب سوچ لینا چاہئے کیونکہ ہرکس و ناکس، ناتجربہ کار،
بددین و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا
جائے اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ
دے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جبکہ
اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود،
3/449، حدیث: 3657)
بن
مانگا مشورہ نہ دیا کریں: جو چیز طلب کر کے لی جائے اس کی قدر
زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی نا قدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک
آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزت اور عافیت ہے ورنہ سامنے
والا اگر منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا
کیجئے ! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں۔
رسول پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے اسے امانت داری
کا پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ
باہمی امور میں مشاورت سے کا لیا جائے۔ یہ اللہ پاک کا حکم بھی ہے اور سنت رسول ﷺ
بھی۔ لہذا موقع پر مشورہ اور مشاورت کا اہتمام ایک ضروری امر ہے۔
قرآن پاک میں
ہے: وَ
الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ
شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ہر
بن مانگا مشورہ برا نہیں ہوتا لیکن اس پر اصرار کرنے والوں میں شامل تو نہیں؟ اگر
ایسا ہے تو دوسروں کی نجی زندگی ( personal life) کا احترام کرنا سیکھئے۔ اپنے الفاظ اور
لہجے میں لچک پیدا کریں تا کہ سامنے والا آزمائش میں نہ پڑے۔ عین ممکن ہو کہ آپ کا
مشورہ تو بلکل درست ہو لیکن اس غریب کے پاس اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے رقم ہی نہ
ہو ایسے میں آپ کااصرار اسے شرمندہ کر دے گا۔ ہر ایک کی ذہنی، قلبی اور جسمانی
کیفیت الگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی پسند نا پسند اور نفع نقصان بھی ایک جیسے
نہیں ہوتے ایک ہی چیز کسی کو ترقی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے!
شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت میں ہمدردی میں مشورہ دیا تو دیکھئے کہ نادان دوست سے
دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھدار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہنچانتا ہے اس کی
ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو یا نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ ہر ایک کو اس کی
زندگی میں دخل اندازی کا حق نہیں دیا جا سکتا ہاں ! ماں باپ، بہن بھائیوں، استاد، مرشد
اور عالم دین کی بات دوسری ہے، یہ بھی احتیاط کادامن تھام کر مشورہ دیں۔ یہی ہماری
سماجی زندگی کا حسن ہے اسے برقرار رکھئے آسانیاں پیدا کیجیے اور دوسروں کی زندگی
مشکل نہ بنائیے۔
کیا ہی اچھا
ہو کہ آج مسلمان اس عظیم سنت کی پیروی کریں جس میں اس کی سعادت، خوش بختی اور
معاشرے کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے اور ہزاروں دینی اور دنیاوی فائدے بھی ہیں۔

غلط مشورہ دینا
خیانت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا
کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)
جہاں تک
مسلمان کو مشورہ دینے کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان موجود ہے:
جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔
(مسلم، ص 919، حدیث: 5651)
غلط
مشورہ لے ڈوبا: حضرت
موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے
والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا
سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی
دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا
تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا
! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی
صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت
ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)
مشورہ
کس سے کیا جائے؟ ہر
کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا
اہل ہوتا ہے، چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ
نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا،
چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیر خواہ
اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔

غلط مشورہ
دینا ایسا عمل ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر
ایسا مشورہ دے جو غیرمفید، نقصان دہ یا گمراہ کن ہو۔ یہ عمل اکثر ذاتی مفادات،
لاعلمی، غیر ذمہ داری، یا ناپختہ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
غلط
مشورے کی اقسام:
جان بوجھ کر غلط مشورہ دینا، کسی کو دھوکہ دینے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے مشورہ
دینا، ذاتی مفادات کے لیے دوسرے کو نقصان دہ راستے پر لگانا۔ نادانستہ طور پر غلط
مشورہ دینا، کسی موضوع پر مکمل معلومات یا تجربہ نہ ہونے کے باوجود مشورہ دینا، مسئلے
کی نوعیت کو سمجھے بغیر رائے دینا۔
نتائج:
غلط
مشورہ لینے والا فرد نقصان اٹھا سکتا ہے، مشورہ دینے والے کی ساکھ متاثر ہو سکتی
ہے، اعتماد کا رشتہ کمزور ہو سکتا ہے۔
اسلام میں جان
بوجھ کر غلط مشورہ دینا دھوکہ دہی کے مترادف ہے اور سختی سے منع ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 95) اس کا مطلب ہے کہ ہر
مشورہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ دینا چاہیے، تاکہ دوسرے کو فائدہ پہنچے۔
حضرت موسیٰ
کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے
فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ
کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو
رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس
نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم
ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں
بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول
کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16، ص 682)
ناتجربہ کار، بددین
و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا جائے
اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ دے، نبی
کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے ایسا مشورہ دیا کہ
بھلائی اس کے علاوہ میں ہو تو اس نے مشورہ مانگنے والے کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود،
3/449، حدیث: 3657)
اللہ پاک نے
خود اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے بڑا دانا اور
عقل مند کون ہوسکتا ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ ﷺ کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے
تک بھی نہیں، اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد
ہوتا ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔

پیاری اسلامی
بہنو! مشورہ کے معنیٰ ہیں کسی معاملے میں جو آپکو پیش آجائے، کسی کی رائے دریافت
کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا یہ بہت مفید
ہے۔ اللہ پاک نے اپنے نبی پاک ﷺ کو صائب الرّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے
باوجود صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں ان کی دلجوئی
بھی تھی اور عزّت افزائی بھی! چنانچہ مشورہ کرنا سنّت سرکار ﷺ ہے۔
پیاری اسلامی
بہنو! اس سے ہمیں اولاً تو ایک سنت مبارکہ بھی سیکھنے کو ملی کہ مشورہ کرنا سنت
سرکار ﷺ ہے اور دوسرا یہ کہ مشورہ کرنا برکت کی چابی ہے تیسرا یہ کہ مشورہ کرنےکی
وجہ سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے یعنی کوئی بھی کام ہو اگر ہم اسکے بارے میں کسی
قابل اعتماد اور سمجھدار شخص سے مشورہ کرلیں تو بہت ساری غلطیوں سے بچ سکتے ہیں
اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس سے آپ مشورہ کررہے ہیں وہ آپکو کچھ ایسا مشورہ پیش کرے
جس سے آپکا وہ کام مزید بہتر ہوجائے۔
لیکن کچھ لوگ
ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی نہ اپنی مستقل رائے ہوتی ہے اور
مشورہ بھی نئی کرتے ایسے لوگ بغیر مشورہ کیے بغیر سوچے سمجھے بس اپنا کام کرگزرتے
ہیں جسکی وجہ سے بعد میں انکو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امیر المؤمنین
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی تین قسم کے ہیں: ایک وہ آدمی
جو معاملات میں اپنی مستقل اور مضبوط رائے رکھتا ہے، دوسرا وہ جس کی اپنی رائے
مستقل نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل رائے والوں سے مشورہ کرکے اپنے معاملات چلاتا ہے
اور تیسرا وہ آدمی جس کی نہ اپنی رائے مستقل ہوتی ہے نہ وہ کسی سے مشورہ کرتا
ہے،ایسا شخص پریشان رہتاہے۔ (ادب الدنیا والدین، ص 473)
مشورہ
کس سے کیا جائے؟ اب
اگر ہمارا ذہن بن جائے کہ ہم اپنے
کام میں بہتری کے لئے کسی سے مشورہ کریں تو ایک تعداد ہے جسکے ذہن میں پہلا سوال
ہی یہی آتا ہے کہ مشورہ کیا کس سے جائے؟ تو پیاری
اسلامی بہنو! آپکی خدمت میں چند نصیحت آموز باتیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی
تاکہ آپ جب بھی مشورہ کریں تو یہ نہ ہو کہ اپنا بھلا سوچتے سوچتے نقصان ہی نہ
کربیٹھیں۔
تو پیاری
اسلامی بہنو! یہ سوال جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ مشورہ کس سے کیا جائے؟ تو جواب
آپکی خدمت عرض کرتی ہوں کہ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر
معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے،چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے
بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات
کے بارے میں مشورہ کرے گا۔ چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل
مند، تقویٰ والے، خیرخواہ اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ ان
شاء اللہ الکریم
اب کچھ لوگ
ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کے اچھے کام میں اسکی کو غلط مشورہ پیش کرتے تاکہ اسکا
کام مکمل نہ ہوسکے اور وہ ناکام ہوجائے اس کو ذلت
اٹھانی پڑی ایسے لوگ آپکے حاسد ہوتے ہیں جن کو آپکی کامیابی پسند نہیں ہوتی وہ
آپکو غلط مشورہ دے کر اپنی کسی پرانی دشمنی کا بدلہ نکالتے ہیں ایسے لوگوں سے بھی
بچ کر رہئے محتاط رہئے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکو مشورے دینے کا کوئی ذاتی
شوق یا عادت ہوتی ہے کہ کوئی مشورہ مانگے یا نہ مانگے لیکن انہوں نے اپنی رائے ضرور
ہی پیش کرنی ہوتی ہے اب چاہئے انکے پاس کوئی سہی بات پیشں کرنے والی ہو یانہ ہو
لیکن اپنی عادت یا شوق سے مجبور ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ غلط مشورہ نہ
دیجئےاور جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت
کرنے والا) ٹھہرے گا۔
غلط مشورے
دینے والوں کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ
دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر
کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی
میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/ 212)
دوسروں کے غلط
مشوروں سے جہاں تک ہوسکے بچ کر رہیں۔ کیونکہ آپ اپنی زندگی بہتر جانتے ہیں۔ آپ
کو اپنے لیے جو بہتر لگتا ہے وہ کریں اور مشورہ کرنے کے لئے بھی احتیاط سے کام
لیجئے کہ محتاط سدا سکھی رہتا ہے اور جہاں تک مسلمان کو مشورہ دینے کا تعلق ہے تو
اس بارے میں ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہ
رسول اکرم ﷺ کا
فرمان ہے: جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا
مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)
فرمانِ رسولِ
پاک ﷺ ہے: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس
کے خلاف ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)
غلط
کام کرنے پر مشورہ لینے و دینے کاحکم: واضح ہو کہ مشورہ ایک امانت ہے
اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتاہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی نے جان بوجھ کر اپنے مسلمان بھائی کو غلط
مشورہ دیا یہ جانتے ہوئے کہ بھلائی اس کے علاوہ میں ہے تو اس نے اس مسلمان بھائی
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) لہذا کسی غلط کام کرنے کی تائید
کرنے اور اسے کرگزرنے کا مشورہ دینے والا شخص بلاشبہ خیانت کا مرتکب اور اس گناہ
میں برابر کا شریک ہوگا۔ جس پر توبہ واستغفار اور آئندہ کے لیے اس طرح کی امور سے
مکمل اجتناب لازم ہے۔
بن مانگے مشورہ دینا: بن مانگے
مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طلب کرکے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت
میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے
اس وقت تک خاموش رہنے میں عزّت وعافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی
کہہ سکتا ہے: آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا کیجئے! ہمارے معاشرے میں بن مانگے
مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔

حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے میری طرف کوئی بات منسوب کی
جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے، اور جس سے اس کے کسی مسلمان
بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے اسے غلط مشورہ دیا تو اس نے مشورہ لینے والے کی
خیانت کی، اور جس نے بغیر دلیل کے غلط فتویٰ دیا (اور فتویٰ لینے والے نے اس پر
عمل کر لیا) تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا جس نے فتویٰ دیا۔غلط مشورہ نہ دیجئے جس سے
مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ دُرُست مشورہ دے ورنہ خائِن (یعنی خیانت کرنے والا)
ٹھہرے گا۔ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غَلَط مشورہ دے تواس
نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

مشورے کے معنی
کسی معاملے یا فیصلے میں کسی دوسرے کی رائے تجویز یا رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ مشورہ
اپنے سے زیادہ تجربہ اور علم والے سے مانگا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ
وہ مشورہ مانگنے والے کو اپنے تجربے اور علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ
دینے سے انکار نہ کرے، جب ہم سے مشورہ مانگا جائے اور ہمیں اس کے بارے میں علم
ہے۔ہم اس بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اس بارے میں تجربہ رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے علم
اور اپنی عقل اور اپنی سمجھ کے مطابق بہتر سے بہتر مشورہ دینا چاہیے اور بعض مشورہ
دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں۔
مشورہ نیکی
اچھائی اور اچھے کاموں کے لیے دینا چاہیے۔ غلط کاموں میں گناہ کے کاموں میں زیادتی
کے کاموں میں مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ مشورہ جو بھی دیا جائے اپنے علم اور تجربے کے
مطابق درست اور صحیح دیا جائے۔
اگر ہم جانتے
بوجھتے کسی کو غلط مشورہ دیں تو سخت گناہ گار ہونگے ہم خیانت کے مرتکب ہونگے۔
مسلمان ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں
فرمایا گیا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ
اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
کسی کو غلط
مشورہ دے دینا اور پھر اس پر ہنسنا یہ بہت ہی غلط بات ہے اور خیانت ہے۔
اللہ پاک نے
نبی کریم ﷺ کو بھی مشاورت کا حکم دیا: وَ شَاوِرْهُمْ
فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل
عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی صحابہ کرام سے۔ نبی اکرم ﷺ اپنے اصحاب سے
مشاورت کرتے تھے۔ اور ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے تھے۔
ایک صحابی نے
مشورہ دیا کہ یہ جگہ بہتر نہیں ہے فلاں جگہ پر پڑاؤ ڈالنا چاہیےجہاں پانی نزدیک ہو
آپ نے ان کے مشورے سے جگہ تبدیل کی۔ جنگ بدر میں آپ نے مشورے کی بنیاد پر پڑاؤ کی
جگہ تبدیل کی، قیدیوں کے بارے میں اصحابہ کرام سے مشاورت کی، جنگ احد میں مدینہ سے
باہر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مشورے سے ہوا حالانکہ
نبی کریم ﷺ مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے، جنگ خندق میں خندق کھودنے
کا مشورہ حضرت سلمان فارسی نے دیا جس پر عمل ہوا۔
جن سے مشورہ
مانگا جائے وہ بہترین مشورہ دے۔ اگر مشورہ دینے والے کو اس بارے میں علم نہ ہو تو
مشورہ لینے والے کو بتا دے۔ اگر جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس نے خیانت کی اور
خیانت بہت برا جرم ہے۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس سے اس کے کسی
بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے غلط مشورہ دیا تو اس نے مشورہ دینے والے کی
خیانت کی۔(ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی سے اس کے بھائی
نے مشورہ مانگا اور اس نے بغیر سوچے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے
ساتھ خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)

مشورہ کے
معنیٰ: کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے
کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔
مشورہ کرنا
سنّت سرکار ہے۔ آپ ﷺ نے میدان بدر میں جگہ کے انتخاب کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی
اللہ عنہ کا مشورہ قبول فرمایا جس کا مسلمان لشکر کو فائدہ ہوا۔ (تاریخ اسلام، 3/286)
ہمارے خلفائے
راشدین بھی مشورہ کرتے تھے، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نوجوان اورعمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام
یہ کیا کہ وہاں کے فقہائے کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ
مجلس شوریٰ بنادی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔ (البدایۃ و النھایہ، 6/ 332)
آج
کے دور میں مشورہ کس سے مانگیں؟ ہر کسی سے بھی مشورہ لینا عقلمندی نہیں
ہے ہر معاملے میں ہر کسی سے بھی مشورہ نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر چیز کی قیمت اس
چیز کا قدر دان ہی بہتر جان سکتا ہے۔
جیسے کہ ایک
نایاب موتی کی قیمت ایک سونار ہی جان سکتا ہے۔ مگر عام آدمی کی نظر میں اس کی کچھ
قیمت نہیں۔ اس لیے مشورہ بھی کسی عقلمند اور تجربی کار انسان سے کیا جائے جو آپ کو
کسی مصیبت میں بھی نہ ڈالے۔
جیسا کہ تفسیر
روح المعانی میں بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے
جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی
حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب
نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر
کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں
عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب
ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی
وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16،
ص 682)
ہامان کے
فرعون کو غلط مشورے نے اس کو ایمان قبول کرنے سے محروم کر دیا ایسے ہی بہت سے
بیوقوف لوگ ہیں جو دوسروں کو غلط مشورے دے کر ان کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔
حالانکہ ان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا مشورہ دے رہے ہیں۔
جس سے مشورہ
کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا،
فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نے اپنے بھائی
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے
مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو
وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،
راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)
اس لیے چاہیے
کہ کسی کو غلط مشورہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ ہر کسی کی جسمانی و ذہنی کیفیات مختلف
ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کسی کو ترقّی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے!
شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت اور ہمدردی میں مشورہ دیا تو یاد رکھئے کہ نادان دوست
سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھ دار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہچانتا ہے اس
کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔
اس لیے ہمیں
چاہیے کہ کو مشورہ دیں تو غلط مشورہ نہ دیں بلکہ اس کو صحیح مشورہ دیں اور صحیح
انسان سے ہی مشورہ کرے۔