
اسلامی
بہنوں کے 63 مدنی انعامات کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے 20 اگست 2020ء کو نیپال کے شہرنیپال گنج
اور پوکھرہ میں مدنی انعامات اجتماعات ہوئے جن
میں تقریبا 44 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ہند دہلی ریجن
مدنی انعامات ذمہ دار اسلامی بہن نےسنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک
اسلامی بہنوں کو مقصد حیات بتاتے ہوئے
زندگی کو مختصر جاننے اور خوب نیکیاں کرکے
گزارنے کی ترغیب دلائی جبکہ مدنی انعامات کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے
کا ذہن دیا۔

شریعت
میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں حضور اکرم علیہ
الصلوة والسلام کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پر اس کا خاتمہ
ہوجائے۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی
شان ایسی ہے کہ کوئی بھی ولی محدث، مفسر، غوث، قطب، ابدال ان کی شان کو نہیں پاسکتا۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں
سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں ترتیب کے
اعتبار سے پھر عشرہ مبشرہ ،پھر بدر والے،
پھر بیعت رضوان والے، پھر اصحاب قبلتین افضل ہیں۔ بحوالہ (مشکوة المصابیح جلد۸،ص 291)
کوئی صحابی فاسق نہیں سب عادل ہیںـ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:تَرجَمۂ کنز الایمان: پرہیزگاری کا کلمہ
اُن پر لازم فرمایا اور وہ اس کے زیادہ سزاوار اور اس کے اہل تھے۔(الفتح ۔26)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار
کردی۔(بحوالہ ( سورہ الحجرات آیت۷)
حضور علیہ الصلو ة
والسلام نے فرمایا، میرے صحابہ کو برا نہ کہو ،
کیونکہ اگر تم میں کوئی احد(پہاڑ) بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مد کو پہنچے نہ
آدھے کو۔(مسلم ، بخاری، شرح مشکوة المصابیح، جلد ۸،صفحہ ۲۹۱،حدیث ۵۷۴۷)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ حضرات صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرناچاہیے کسی صحابی
کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کروہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبو ب کی محبت کے لیے
چنا۔
مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا
تو مہربان رب نے اپنے نبی کو بُروں کی محبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا؟
رسول اللہ طیب ان کے سب ساتھی بھی طاہر ہیں
چنیدہ بہر یاکاں حضرت فاروق اعظم ہیں۔( ایضاً)
حضور علیہ الصلوة
والسلام نے فرمایا۔ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی
جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا(ترمذی)
مفتی احمد یار خان اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : حضور کو
دیکھنے والی آنکھ کی زیارت بھی بہشتی ہونے کا ذریعہ ہے، ایک شاعر نے کیا خوب شعر
کہا۔
جن اکھیاں نے دلبرڈیٹھااوہ اکھیاں تک
لئیاں
توں ملیوں تے ساجن ملیاں آساں لگ گئیاں
(شرح مشکوة المصابیح جلد۸،صفحہ ۲۸۶، حدیث
۵۷۵۲)
اے عاشقانِ صحابہ و اہل بیت ! دیکھا آپ نے کہ صحابہ کرام کی
کیسی فضیلت اور شان ہے اگر آپ بھی چاہتے
ہیں کہ ہمارے بھی دلوں میں ان حضرات کی شان اجاگر ہو جائے تو آئیں آپ بھی دعوت
اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں آئیے اور پائیے، علمائے ، صحابہ، انبیا کی محبت
اپنے دلوں میں۔
اللہ ہمیں صحابہ کرام کا خوب خوب ادب و
احترام کرنے کی توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہر صحابی نبی ۔۔۔ جنتی جنتی
ہر زوجہ نبی ۔۔۔ جنتی جنتی
حسن اور حسین بھی۔۔۔جنتی جنتی
صدیق و عمر ۔۔۔۔۔جنتی جنتی
امیر معاویہ ۔۔۔۔۔۔۔ جنتی جنتی

دنیا میں بہت سارے
افراد گزرے ہیں جو صاحب کمال افراد کی صحبت ومعیت میں رہے۔ ان میں سے بعض کے نام ونشان باقی رہے جبکہ
دیگر کے نام و نشاں دنیا سے بالکل ہی ختم ہوگئے لیکن قربان جائیے سیدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ بابرکت
پانے والوں کے،یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کے نام ونشان اور فضائل وکمالات رہتی دنیا
تک قرآن وحدیث میں ان کی عظمت پر شاہد ہیں۔
قرآن کی رُو سے ہر
صحابی جنتی ہے:
پارہ27سورۃ الحدید کی
آیت نمبر10 میں فرمایا گیا:لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ
اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ
الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ
الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰)تَرجَمۂ کنز الایمان: تم میں برابر
نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں
جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
مفسر قرآن مفتی احمد یار خان علیہ
الرَّحمہ نورالعرفان میں
لکھتے ہیں:ان(صحابہ کرام علیھم الرضوان) کے درجے اگرچہ مختلف ہیں مگر ان سب کاجنتی ہونا بالکل یقینی ہے کیونکہ رب
وعدہ فرماچکا ہے۔تمام صحابہ عادل ومتقی ہیں کیونکہ سب سے رب کریم نے جنت کا وعدہ
فرمالیا،جنت کا وعدہ فاسق سے نہیں ہوتا۔(نورالعرفان)
فضائل صحابہ بزبان
محبوبِ خدا:
صحابہ کرام کی عظمت وشان کے بارے میں چند
فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ کیجیے:
(1)میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو، اس لیے
کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو وہ ان کے ایک
مد(ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مد کے آدھے کو۔(بخاری،ج2؛حدیث3673)
(2)جب اللہ پاک کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے دل میں
میرے تمام صحابہ کی محبت پیدا فرمادیتا ہے۔(تاریخ اصبھان،ج1؛ص467،رقم 929)
(3)جو میرے صحابہ کر برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جوان کی عزت کی حفاظت کرے، میں
قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(ابن عساکر،ج44،ص22)یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھوں
گا۔(السراج المنیر شرح جامع الصغیر،ج3،86)
(4)میرے تمام صحابہ میں خیر(یعنی بھلائی)ہے۔(ابن
عساکر،ج29،184)
(5)میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،
میرے بعد ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنالینا۔ پس جس شخص نے ان سے محبت کی تو اس
نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض
کے سبب ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے ایذا
پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو
جس نے اللہ پاک
کو ایذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے گا۔(ترمذی،ج5؛ص463،حدیث3888)
(6) جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو
برا کہتے ہیں تو کہو:اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔(ترمذی:حدیث3892)
مفتی احمدیار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں:یعنی صحابہ کرام تو خیر ہی
خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا
وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح؛ج8؛ص344)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

اللہ تعالیٰ نے اس
کائنات کی تخلیق فرمائی اور اس میں انسان کو پیدا فرمایا اور انسان کی تربیت کے
لیے ہر دور میں اور ہر قوم پر رب العزت نے اپنے نبی علیہ
السلام کو مبعوث فرمایا اور ان تمام انبیا میں سب سے افضل ہمارے آقا دوجہان
سرور ِ کون ومکان اور ان نبی صلی اللہ علیہ
وسلم
کی امت میں بھی ایک قوم کو کو تمام آنے والے لوگوں پر فضیلت دی کیونکہ ان لوگوں نے
اپنی ایمانی آنکھوں سے حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی ان لوگوں
کو صحابہ کہا جاتا ہے۔
نبی
کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
صحابہ کرام کے فضائل آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کی طرح بیشمار ہیں، صحابہ
کرام کی افضیلت خود رب تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ تَرجَمۂ
کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے
نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ ۱۱، سورة توبہ، آیت ۱۰۰)
تو جب اللہ پاک ان سے راضی ہےتو ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خوشخبری کیا ہوگی کہ
اس کا رب عزوجل اس سے راضی ہے اور جس سے رب راضی ہو اس کا مقام و مرتبہ کیا ہوگا، رب کریم نے
ایک اور جگہ پر انہیں صحابہ کے لیے ارشاد فرمایا: (پارہ ۵، آیت ۹۵) اللہ پاک نے جنت اور
وہاں کی نعمتیں ان کے لیے نامزد کردیں۔
حضور اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی افضلیت کو یوں بیان فرمایا
:
۱۔ حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی کہ جس نے مجھے دیکھا۔(ترمذی شریف)
۲۔ حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ ایسے ہیں
جیسے کھانے میں نمک کہ کھانا نمک کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتا، ( طبرانی)
تواب گویا کہ کسی کا ایمان بھی صحابہ کی
محبت کے بغیر درست نہیں ہوگا۔
اسی طرح ہم حنفیوں کے پیشوا حضرت امام
اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نظروں میں صحابہ کتنے افضل تھے کہ آپ فرماتے ہیں ہم اہلسنت تمام صحابہ سے
محبت کرتے ہیں اور انہیں بھلائی ہی سے یاد کرتے ہیں۔(فقہ اکبر ص۸۵)
صحابہ کرام امتِ محمدیہ کی وہ جماعت ہے
کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ
نے اپنا دین اس زمین پر نافذ فرمایا اور صحابہ کرام امت کو
گناہوں اور فتنوں سے بچاتے ہیں، جیسا کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کو بچایا
خلافت ، امامت، ولایت، کرامت
ہر اک فضل پر اقتدارِ صحابہ
اللہ کریم ہمیں صحابہ کرام سے محبت عطا فرمائے اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

صحابی اس خوش
نصیب شخصیت کو کہتے ہیں جس نے حالت ایمان ̔ میں اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا یاصحبت پائی اور حالت ایمان ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے
۔
حضرات صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے فضائل و مناقب ٫قرآن و
حدیث میں بکثرت وارد ہوئے ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان بیان کرتے ہوئے
فرماتا ہے: رَّضِیَ
اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا
الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز
الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن
کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)
ایک اور مقام
پر ارشاد ہوتا ہے وَ كُلًّا
وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ
فرماچکا(الحدید:
10)
قرآن پاک کی
طرح احادیث مبارکہ میں بھی ان ِ نفوس قدسیہ کے فضائل مذکور ہیں۔جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ”اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نےمجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو
دیکھا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء
فی فضل من رأی ّ النبی صلی اللہ علیہ وسلموصحبہ، ، ۴۶۱ / ۵الحدیث۳۸۸۴)
یعنی جس نے
بحالت ایمان مجھے دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا وہ دوزخ سے
محفوظ رہے گا لہذا جو لوگ
حضور انور کے بعد مرتد ہوکر مرے وہ اس بشارت سے علیحدہ ہیں،یوں ہی جن لوگوں کو
اخلاص سے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی ان
کی خدمات میسر ہوئیں وہ بھی دوزخ سے محفوظ ہیں۔(مراۃ المناجیح : 8)
صحابی ہونا ایک ایسی فضیلت ہے کہ روئے زمین کے
تمام ولی غوث قطب مل کر بھی ایک صحابی کے مرتبے کو نہیں ُپہنچ سکتے کیونکہ ان
حضرات نے اللہ کے آخری نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی صحبت
پانے کا شرف حاصل کیا اور یہ ایک ایسی
جلیل القدر فضیلت ہے جو اب
قیامت تک کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوسکتی۔
محترم قارئین! اہلسنت والجماعت کامتفقہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ
کرام علیہم الرضوان عادل ہیں ان میں سے کوئی بھی فاسق نہیں۔لہذا ان حضرات پر کسی قسم کا
طعن کرنا یا انہیں برے الفاظ سے یاد کرنا ً قطعا جائز نہیں ان سے بغض و عناد رکھنا
اپنی ہی آخرت برباد کرنے کےمترادف ہے۔اللہ ٰ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلمکے تمام صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی سچی محبت عطا فرمائے اور
صحابہ کرام علیہم الرضوان پر طعن کرنے والوں کےسایہ سے بھی محفوظ فرمائے ،اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
جس مسلماں نے
دیکھا انہیں ِاک نظر اس نظرکی َبصارت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

سید المرسلین صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہم امتِ مسلمہ میں افضل و برتر ہیں، ان نفوس قدسیہ کی فضیلت و
مدح (تعریف) میں قرآن پاک میں جا بجا آیات مبارکہ وارد ہیں، جن میں ان کے حسن عمل
، حسن اخلاق اور حسنِ ایمان کا تذکرہ ہے،
جن کے اوصاف حمیدہ کی خود اللہ عزوجل تعریف
فرمائے، ان کی عظمت و رفعت کا اندازہ کون
لگا سکتا ہے ان پاک ہستیوں کے بارے میں قرآن پاک اور حدیث طیبہ میں وارد ہونے والے
فضائل ملاحظہ ہوں۔
تَرجَمۂ کنز الایمان:یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(الانفال :4)
تَرجَمۂ
کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن
کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)
ان (یعنی صحابہ کرام) کا تھوڑا عمل عام
مؤمنین کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے چنانچہ ، فرمانِ نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے
برابر بھی خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد( ایک
پیمانہ) کے برابر بھی نہیں، پہنچ سکتا، اور نہ
اس مد کے آدھے کو۔(بخاری ۲ ص ۵۲۲)
ان عظمت و رفعت والی ہستیوں سے محبت کا
ہونا بھلائی کی امید و دلیل ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔
جب
اللہ پاک کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے دل میں میرے تمام
صحابہ کی محبت پیدا فرمادیتا ہے،(فیضان نماز ص
332)
ان سے محبت رکھنا، ان کی عزت و حرمت کی
حفاظت کرنا، جہنم سے رہائی کا پروانہ ہے، شفیع امت صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو میرے صحابہ کو بُرا کہے
اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کر ے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں
گا۔(ابن عساکر ج 44، ص 222)یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھوں گا(السراج المنیر
ج ۳ص ۸۶)
پیارے اسلامی بھائیوں! جہاں ان سے محبت
رکھنے کے فضائل ہیں وہیں ان سے بغض و عداوت پر بھی وعیدیں ہیں ، چنانچہ دو احادیث
طیبہ پڑھیں۔
۱۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ
کو برا کہتے ہیں تو کہو، اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے سر پر۔
۲۔ جس نے انہیں ( یعنی صحابہ کرام کو) ایذا پہنچائی (یعنی برا بھلا کہا) تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی تو ضرو اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پا ک اس کی پکڑ
فرمائے گا۔(فیضانِ نماز 332)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

صحابہ کرام کے فضائل حضرت ابن عمر رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ جب تم ان کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو کہ تمہارے شر پر اللہ کی
پھٹکار ( ترمذی) یعنی صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹ تی ہے اور
اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی پر لعنت کرے مگر وہ لعنت کے لائق نہ ہو
تو لعنت خود اس لعنت کرنے والے پر پڑتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے
ڈرو اللہ سے ڈرو میرے
صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ
کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض
کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں
ستایا اس نے مجھے ستایا اس نے اللہ کو
ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی
تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑے
اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔ یعنی میرے
صحابہ سے بغض مجھ سے بغض ہے تو اس کے برعکس صحابہ سے محبت مجھ سے محبت ہے صحابہ کرام
کی شان تو بہت اونچی ہے صحابہ کرام میں سے کسی کو ستانا درحقیقت مجھے ستانا ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں
کہ صحابہ کو برا کہنے والاقتل کا مستحق ہے کے اس کا یہ عمل عداوت رسول کی دلیل ہے(مرقات) اور
عداوت رسول عداوت رب ہے ایسا مردود دوزخ ہی کا مستحق ہے ۔ (مخرج
مراةالمناجیح جلد ہشتم)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

اللہ تعالی نے تمام انبیا علیہم
السلام کی قربت و محبت کے لیے امت کے بہترین افراد کا انتخاب کیا،
تاکہ وہ افراد انبیائے کرام کی تعلیمات کے بعد میں آنے والے لوگوں تک پہنچائیں اور
دین اسلام نے ہمیشہ رہنا ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
لیے ایسے اصحاب کو پسند فرمایا کہ وہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس طریقے ے آگے پہنچائیں کہ وہ تعلیمات ہمیشہ باقی
رہیں۔
صحابی کی تعریف:
صحابی
وہ خوش نصیب مؤمن ہیں جنہوں نے ایمان اور ہوش کی حالت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا انہیں
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
صحبت نصیب ہوئی پھر ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا۔(امیر معاویہ ص ۱۹، مصنف مفتی احمد یار خان )
صحابہ کے فضائل :
قرآن
و حدیث میں صحابہ کرام کے لیے بے شمار فضائل ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: رَضِیَ
اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ ان سے راضی اور
وہ اس سے راضی ۔( پ ۳۰، سورہ البینہ
آیت۸)
یعنی اللہ تعالی اصحاب رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے راضی ہے اور صحابہ کرام بھی اللہ سے راضی ہیں۔
حضرت بریدہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آقا علیہ
السلام نے ارشاد فرمایا، میرا کوئی بھی صحابی
جہاں بھی فوت ہوگا تو قیامت کے دن لوگوں کے لیے وہ (صحابہ) قائد اور نور بن کر
اٹھے گا۔(جامع ترمذی، جلد ۶، ص ۱۸۰)
۳۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور علیہ
الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی
مانند ہیں، تو جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے(مشکوة ۶۰۱۷/۲)
میٹھے اسلامی بھائیو تمام صحابہ کر ام اہل خیر و صلاح ہیں
اور عادل ہیں، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر کے ساتھ ان کا ذکر کرنا ) فرض ہے۔(بہار
شریعت ص ۲۵۲)
اور کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو، کسی صحابی کے رتبہ
کو نہیں پہنچ سکتا۔(بہار شریعت جلد۲۵۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں: تابعین سے لے کر تا قیامت
امت کا کوئی ولی کیسے ہی عظیم پایہ ( مرتبہ) کو پہنچے ہر گز ہرگز ان (یعنی صحابہ)
میں سے ادنی سے ادنی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، اور ان میں کوئی ادنی نہیں۔(فتاویٰ
رضویہ، ج ۲۹،ص ۳۵۷)
اللہ ہمیں صحابہ و اہلبیت کا وفادار رکھے اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے
رسول حضرت محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کو
تمام رسولوں کا سردار اور دین اسلام کو کامل دین بنایا اور اس دین کے حاملین کو
تمام لوگوں کے درمیان منتخب فرمایا، وہ تھے رسول
اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے صحابہ کرام۔ یہ وہ اصحاب تھے جو
حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم پر
ایمان لائے اور انھوں نے آپ کی تصدیق کی جبکہ دوسرے لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے۔
صحابہ کرام نے ہر مشکل گھڑی میں نبی اکرم صلی
اللّٰه علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ وہ امت مسلمہ کے افضل ترین افراد ہیں، ان کا
مقام بلند اور مرتبہ نہایت عالی ہے۔ اللّٰه تعالیٰ نے
قرآن مجید میں ان کے اوصاف بیان کئے ہیں اور ان کی تعریف فرمائی ہے۔
فضائل صحابہ اور قرآن مجید:
اے نبی (غیب کی خبر دینے والے!) آپ کے لیے اللّٰه کافی ہے اور آپ کے پیروکار
مومن۔(کافی ہیں) (القرآن:64/8)
اور سبقت والے پہلے مہاجرین، انصار اور جنھوں نے اخلاص کے ساتھ
ان کی پیروی کی، اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی
ہوا اور وہ اللّٰه سے راضی،
اور ان کے لیے باغات تیار کیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں
گے، اور یہ عظیم کامیابی ہے۔(القرآن:89،88/9)
• وہ جنھوں نے اللّٰه اور
رسول کے حکم کی تعمیل کی بعد اس کے کہ انہیں زخم لاحق ہو چکا تھا ان میں نیکوکاروں
کے لئے عظیم اجر ہے۔ (القرآن:172/8)
•وہ لوگ جو ایمان لائے، ہجرت کی اور اللّٰه کی
راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور امداد کی، وہی سچے ایمان والے
ہیں، ان کے لیے مغفرت اور عزت والا رزق ہے
۔ (القرآن:74/8)
رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے
عزت و شرافت کا اظہار کرنے کے لیے ان کی محبت و تعظیم پر ابھارا جیسے کہ احادیث
مبارکہ میں واقع ہے۔
فضائل صحابہ اور احادیث مبارکہ:
• نبی کریم صلی اللّٰه
علیہ وسلم نے فرمایا:”، اللّٰه تعالیٰ سے
محبت رکھو، کیونکہ وہ تمہیں بطور غذا نعمتیں عطا فرماتا ہے، اور اللّٰه تعالی کی محبت کی بنا پر مجھ سے محبت رکھو
اور میری محبت کی بنا پر اہل بیت سے محبت رکھو۔) ابن ماجہ:13/2(
• نبی اکرم صلی اللّٰه
علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو۔ (1) اپنے
نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کی
محبت (2) نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کے
اہل بیت کی محبت (3) قرآن مجید کی تلاوت“۔ )الترمذی:219/2)
• نبی اکرم صلی اللّٰه
علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارے درمیان ہمارے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے جو اس میں سوار ہوا
نجات پا گیا اور جو سوار نہیں ہوا غرق ہو گیا۔)الطبرانی
فی الکبیر:66/3 2679)
• رسول اللّٰه صلی اللّٰه
علیہ وسلم نے فرمایا:”ہمارے صحابہ کرام کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین
افراد ہیں، پھر وہ جو ان کے ساتھ متصل ہوں گے، پھر وہ جو ان کے ساتھ متصل ہوں گے۔) المنصف:341/11(20710)
اللّٰه تعالیٰ سے دعا ہے
کہ وہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللّٰه عنھم کی
محبت عطا فرمائے اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق دے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

واقعی صحابہ کرام علیہم الرضوان
بے مثال و بے کمال ہیں کہ کوئی بھی اُنکے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔
(1) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ خود اللہ عَزَّ وَجَلَّنے
قرآن پاک میں بیان فرمائے : چنانچہ اللہ تبارک و
تعالی
پارہ ١١ سورہ توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں ارشاد فرماتا ہے: تَرجَمۂ
کنز الایمان: اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے
راضی اور اُن کے لیے تیار رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ اُن میں
رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
(2) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کو نبی کریم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنا
دیدار کرنے کا شرف عطا فرمایا۔
حضرت علّامہ مظہر الدین حسین زیدانی قُدِسَّ
سِرَّهُ النُّورانی فرماتے ہیں: صحابہ کی فضیلت محض " رسول
اللّٰه صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی صحبت (زیارت) کی وجہ سے
تھی. ( المفاتيح فی شرح المصابیح، جلد: ٦، صفحہ نمبر: ٢٨٦، تحت الحديث: ٤٦٩٩ ماخوذ
از ماہنامہ فیضان مدینہ شوال المکرم ١٤٣٩ سن ہجری)
(3) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کا جنتی ہونا قرآن پاک سے ثابت
ہے. ( پارہ ٢٧، سورہ حدید، آیت نمبر: ١٩).
(4) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جو
اُمت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں جن کے مقام و مرتبہ کو آقاءِ کریم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
نے یوں واضح کیا: " میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے
کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کی ایک مُد ( ایک پیمانہ)
کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اُس مُد کے آدھے کو" ( بخاری، جلد: ٢،
صفحہ نمبر: ٥٢٢، حدیث نمبر: ٣٦٧٣، مطبوعہ: دار الکُتُب العلمیہ بیروت ماخوذ از
فیضان نماز، صفحہ نمبر: ٣٣٢، مطبوعہ:مکتبۃ
المدینہ.
(5) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللّٰه عزوجل نے معیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:" پھر اگر وہ بھی یونہی
ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے". ( پارہ: ١، سورہ بقرہ، آیت
نمبر: ١٣٧)
حضرت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰه تعالٰی
علیہ
فرماتے ہیں: صحابہ کرام علیہم الرضوان ایمان
کی کسوٹی (معیار) ہیں. ( امیر معاویہ رضی اللّٰه
تعالٰی عنہ، صفحہ: ٢٩،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور ماخوذ از فیضان
نماز، صفحہ نمبر : ٣٣١، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
(6) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ احادیث طیبہ میں ان کی شانیں
بیان کی گئیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللّٰه
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: " میرے تمام صحابہ میں خیر (یعنی
بھلائی) ہے. (ابن عساكر، جلد: ٢٩، صفحہ نمبر:١٨٤ ماخوذ از فیضان نماز، صفحہ نمبر:
٣٣٢)
اللّٰه عزوجل ہمیں صحابہ کرام رضی اللّٰه تعالٰی عنہم کے فضائل و برکات سے مالا مال
فرمائے. آمین بجاہ النبی الآمین صلی اللّٰه
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم.
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

فضائل صحابہ میں آیات قرآ نی اور احادیث نبوی کثرت سے وارد
ہوئی ہیں یہ آیات و احادیث دو قسم کی ہیں ایک وہ آیات واحادیث ہیں جو عام صحابہ
کرام کے فضائل میں و ارد ہوئی اور دوسری قسم وہ جو کسی خاص صحابی کے حق میں نازل
ہوئی اورہم بطوراختصار دونوں قسموں سے کچھ آیات و احادیث پیش کرتے ہیں۔
پہلی قسم سے آیات:
۱۔ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ
كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور پرہیزگاری کا
کلمہ اُن پر لازم فرمایا اور وہ اس کے زیادہ سزاوار اور اس کے اہل تھے۔(الفتح ۔26)
اس آیت میں بیان
ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کرام پر پرہیزگاری کا کلمہ
لازم فرمادیا پرہیزگاری کا کلمہ یعنی ایمان اور اخلاص ان سے جدا نہیں ہوسکتا۔(ج۹،ص
۳۸۰)
٢۔ وَ
الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ
رُكَّعًا سُجَّدًا
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان کے ساتھ والے کافروں پر
سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے ۔
(الفتح ، 29)
اس
آیت میں بیان ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپس میں نرم دل تھے اور کثرت سے اور پابندی سے نمازیں پڑھتے
تھے، اس لیے کبھی تم انہیں رکوع اور کبھی سجدہ کرتے دیکھو گے۔(صراط الجنان، ج ۹، ص 386/387)
۲۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے
محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے
بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ست ایا اس نے مجھے ستایا، اس اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے۔(مرا ة المناجیح ج۸،
ص ۳۴۰)
دوسری قسم سے آیات:
۱۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ
مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) تَرجَمۂ
کنز الایمان:اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی)
کو۔(الدھر ،8)
ایک قول کے مطابق
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یتیم مسکین اور قیدی کو کھانا کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کی مدح میں یہ آیت نازل کی۔(تفسیر مقاتل بن سلیمان، ج۳، ص
۴۲۸)
۲۔ وَ
الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىۙ(۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور رات کی قسم جب چھائے ۔(اللیل ،1)
یہ سورت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں
نازل ہوئی۔
احادیث:
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
احزاب کے د ن فرمایا، کہ قوم کی خبر کون
لائے گا تو جناب زبیر نے عرض کیا، میں تب نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے
فرمایاکہ ہر نبی کے مخلص دوست ہوتے ہیں، اور میر ے مخلص دوست زبیر ہیں۔(مراة
المناجیح ، ج۸،ص۴۲۷)
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر امت کا کوئی امین ہوتا ہے اس امت کے امین
ابو عبیدہ بن جراح ہیں(مراة المناجیح، ج ۸، ص
۴۲۹)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں

صحابی کی تعریف:
علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں
جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا
جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى
اللہ عليه وسلم سے شرف
ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا
صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت صلى الله عليه
وسلم
کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ
میں ان کا شمار ہوگا۔
اس
طرح کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان
اللہ عنہم کا پاکیزہ گروہ اس زمرہ میں شما رکیا جاتا ہے جس کے بارے میں
علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجوم ہدایت ہیں
کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا
ارشاد ہے: اَصْحَابی کالنُّجوم بأیہم اقتدیتم
اہتدیتم. (ترمذی)
گروہ
صحابہ کا وجود، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے
معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ
تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب صلى
الله عليه وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہٴ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی
روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور صلى
الله عليه وسلم کا رحمة للعالمین
ہونا بھی ثابت کردیا اور وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ (سورہ فاطر:۲۴) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی
گئی۔
حضرات
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ
برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی صلى الله عليه وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام
کیاگیا اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ
کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو
اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول
اللہ صلى الله عليه وسلم کی رسالت معتبر رہے گی نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا
اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ
من جانب اللہ ہم کو عطاء
کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی
کی معرفت پہنچا ہے خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ
کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام نے اوّل،
زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے
سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب
ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی صلى الله عليه وسلم اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ
حجة الوداع کے موقع پر آنحضور صلى الله عليه
وسلم
نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا... بَلِّغُوْ
عَنِّی وَلَوْ آیةً . میری جانب سے لوگوں
کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔(بخاری ومسلم)
صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہ
نبوت میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک معتدبہ
جماعت اللہ کے رسول کی
خدمت میں اسلام سیکھنے کیلئے حاضر رہے اس لئے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا
کوئی قانون عطا کیا جائے، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور
ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات خدمت رسالت میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام
اور آیات کو پہنچائیں۔
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا
كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ
لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا
اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں
تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر
سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں
حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت
وعقیدت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر آنحضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ
صحابہ کرام نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان
کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی
عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلى الله عليه وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں
نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع
پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے
والی ذات اللہ کی ہے اس نے
صحابہ کرام کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ
کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوس قدسیہ پر تنقید و
تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان
کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا
جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست
اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی
حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی
پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور
علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی
بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی
بدبختی پر کفِ افسوس ملئے ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں