ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارك و تعالی نے بے شمار فضائل و خصائص سے نوازا ۔ ان میں ایک فضیلت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کی بلندی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارك و تعالی نے پارہ 30 سورہ الم نشرح کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا : اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)تَرجَمۂ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا ۔

اور جتنا ذکر بلند ہوتا ہے اسی قدر ادب و احترام لازم ہوتا ہے اسی وجہ سے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور دیگر بزرگان دین جب بھی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر فرماتے احادیث روایت کرتے تو نہایت ادب و احترام اور عشق و محبت کے ساتھ فرماتے. جیسا کہ:

صحابی رسول اسد اللہ و اسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا:صحابہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر محبت تھی؟

آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے اموال،اولاد، آباء و اجداد و امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے کسی پیاسے کو شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اس سے کہیں بڑھ کر اپنے آقا سے محبت تھی... (جان ہے عشق مصطفی ص 101، کتب خانہ امام احمد رضا )

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی تھی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر نہ ہو. عہد رسالت کا کوئی واقعہ کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو آنکھیں نم ہو جاتیں اور شدت تاثر سے آواز بھرا جاتی۔ (صحابہ کرام کا عشق رسول ،ص: 86، مکتبۃ المدينہ)

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیتے یا احادیث بیان کرتے تو بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ بیان کرتے. جیسا کہ: حضرت مصعب بن عبداللہ فرماتے ہیں کے جب امام مالک کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی۔

(صحابہ کرام کا عشق رسول 51 مکتبة المدينه)

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک کے پاس تھا اور آپ حدیث کا درس دے رہے تھے. اس حال میں آپ کو سولہ مرتبہ بچھو نے ڈنک مارا۔ (شدت تکلیف) سے آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور چہرہ مبارک زرد پڑ گیا مگر حدیث رسول کو قطع نہ فرمایا۔ (شفاء شریف مترجم ص:341)

ہر عضو کا کوئی نہ کوئی کام ہے مثلا آنکھ کا کام دیکھنا، کان کا کام سننا،ناک کا کام سونگھنا, وغیرہ ہے ۔ دل اور سر بھی الگ الگ دو عضو ہیں ان کا کام اہل عشق و محبت کے نزدیک کیا ہے سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان سے سنیے۔

دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا

سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ طہٰ و یسین۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ کی پیروی کریں،یہی محبوبِ رسول کی پہچان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بنایا اور دیکھا جائے تو کائنات میں سب سے زیادہ محتاج مخلوق انسان کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ خواہشات انسان کی ہیں۔ انسان کی خواہشات، ضرورتوں اور حاجتوں کی کوئی حد نہیں اور بے شک اللہ پاک ہی کی ہستی ہے جو اس کی ہر حاجت پوری کرنے کے لیے بے شمار خزانے رکھے ہیں اور بے شک وہ ہر حاجت پوری کرنے پر قادر ہے۔

اللہ رب العالمین کے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر انہیں انسان گنے اور اس کا شکر ادا کرنا شروع کر دے تو اس کیلئے اس کی تمام زندگی اور سانسیں کافی نہیں ہوں گی ، پھر بھی اس پر شکر ادا کرنے کا حق باقی رہے گا۔ بے شک ہر نعمت دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے چاہے وہ دین و دنیا کی نعمت ہو یا ظاہری اور باطنی نعمتیں ہوں۔ ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے اور یہ دین ہم تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمین کہا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

" ہم نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔"(الانبیاء)

اللہ تعالی نے اس دنیا میں ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کو معیار بنایا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

" تمہارے لئے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی میں خوبصورت نمونہ ہے۔"(الاحزاب)۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم اس دنیا میں اپنی زندگی بسر کریں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین بنایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر آکر مکمل ہوا ۔سورہ احزاب ،آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ تو اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نبیوں کی نبوت ختم کرنے والے ہیں۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ آئے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے رہنما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جو بھی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور اتباع کیے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے: کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ (آل عمران)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیاپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دن رات فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور دعائے رحمت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کی قسم اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں یاد فرمائی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی اہل ایمان کو اجازت نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں جنت ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی غرض بھی اطاعت ہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا کہ اگر تم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔ارشادِ ربانی ہے:

کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ)۔

یعنی وہ قریب ترین رشتہ دار اولاد بیوی ماں باپ جن کے ساتھ انسان شب و روز گزارتا ہے اور مال و اسباب، کاروبار یہ سب چیزیں اپنی جگہ اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ ہو جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہے اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا باعث ہے جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے ،جس طرح کے آخری الفاظ سے واضح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


جو جس سے محبت کرتا ہے تو اس کا ذکر بھی کثرت سے کرتا ہے اور اگر وہ ذکر ایسے محبوب کا ہو جو محبوبِ ربِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے تو اس ذکر میں ادب کے راستے پر چلنا لازم ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگان دین سچے عاشق رسول تھے اس لئے انتہائی ادب و احترام اور محبت بھرے انداز میں کثرت سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تھے۔

جیسا کہ صحابئ رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انکی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی تھی جس میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر خیر نہ ہو عہد رسالت کا کوئی واقعہ کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو آنکھیں نم ہو جاتیں اور شدت تاثر سے آواز بھر جاتی۔

ایک دن آپ رضی اللہ عنہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی ریشم سرکار کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں چھوا اور نہ کبھی کوئی خوشبو سرکار کے بدنِ مبارک سے زیادہ خوشبودار سونگھی (صحابۂ کرام کا عشق رسول ص 86، مکتبۃ المدینہ)

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرماتی ہیں کہ جب بھی وہ حضور کا ذکر کرتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (کتاب جان‌ ہے عشق مصطفی، ص 139 مکتبہ: کتب خانہ امام احمد رضا، بحوالہ بخاری)

حضرت ابو ایوب سختیانی رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ جب ان کے سامنے حضور کا ذکر کیا جاتا تو وہ اتنا روتے اتنا روتے کہ لوگوں کو ان کی حالت پر رحم آتا (کتاب جان‌ہے عشق مصطفی، ص 87، مکتبہ کتب خانہ امام احمد رضا)

اسی طرح تابعین، تبع‌ تابعین اور دیگر بزرگان‌ دین بھی جب سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر خیر کرتے اور آپکی احادیث بیان کرتے تو نہایت ادب و احترام بجا لاتے!

جیسا کے امام مالک کے بارے میں آتا ہے کہ جب لوگ ان کے پاس حدیث سننے آتے تو آپ پہلے غسل خانے جاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے، عمامہ باندھتے، تخت بچھایا جاتا پھر آپ باہر تشریف لاتے اور اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے اس طرح کہ آپ پر انتہائی عجز اور انکساری طاری ہوتی جب تک درس حدیث سے فارغ نہ ہوتے برابر خوشبو سلگائی جاتی رہتی۔( شفاء شریف مترجم ص 340 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

امام مالک فرماتے ہیں کہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں کہ حدیث کی خوب تعظیم کروں میں باوضو بیٹھ کر حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے بُرا جانتا ہوں کہ راستے میں یا کھڑے کھڑے یا جلدی میں حدیث بیان کی جائے ۔( شفاء شریف مترجم ص 341 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

عبد الرحمن بن قاسم جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تو ان کے چہرے کا رنگ دیکھا جاتا کہ وہ ایسا ہو گیا کہ گویا اس سے خون نچوڑ لیا گیا ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہیبت اور جلال سے ان کا منہ اور زبان خشک ہوجاتی۔( شفاء شریف مترجم ص 339 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

حضرت قتادہ رضی اللہ‌ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ بلا وضو حدیث بیان ہی نہیں کرتے تھے۔

( شفاء شریف مترجم ص 341 مکتبہ نذیر سنز پبلیشر)

اللہ تعالی تمام بزرگان دین پر اپنی رحمت و رضوان کی بارش فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بنائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرنا یہ اس قدر دلکش و ایمان افروز اور روح پرور موضوع ہے کہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ایک ایک پھول سے رنگ بدلنے کو اپنے لیے قابلِ فخر تصور کرتے ہیں، اور وہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی ذکر رسول کی بدولت آسمانِ عزت و عظمت میں ستارو ں کی طرح چمکنے اور چمنستان شہرت میں پھولوں کی طرح مہکتے ہیں اوریہ عاشقانِ رسول بارگاہِ الہی عزوجل میں ذکر رسول ہونے کی حیثیت سے اس قدر مقبول ہیں کہ اگر مجالس میں ان سعید روحوں کا تذکرہ چھڑ دیا جائے تو رحمت کے فرشتے اپنے مقدس بازوں اور پروں کو پھیلا کر ان محفلوں کا شامیانہ بنادیں۔

انہیں مقدس ہستیوں میں سے صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی ہیں ان کا پیاراآقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ان کا ادب و احترام اور عشق و محبت کا عالم یہ تھا کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان شاہِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین القاب، کمال تواضع اور مرتبہ مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ئے کلام میں صلوة کے بعد فدیتک یا بنی و امی یعنی میرے والدین آپ پر فدا ہوں۔ یا ،بنفسی انت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی میری جان آپ پر نثار ہواے اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ علی ہو سلم۔ جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور کثرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر رہنے کے باوجود محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر تعظیم و توقیر میں کوتاہی و تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و جلال میں اضافہ کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے باوجود بھی آپ کا ذکر کرتے ہوئے آپ علیہم الرضوان پر عشق و محبت کی وجہ سے ایک مخصوص کیفیت طاری ہوجاتی جیساکہ

امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ جب دوعالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرتے تو عشق سے بے تاب ہو کر رونے لگے۔(فیضانِ فاروق اعظم ،ص 342 جلد۱)

اور حضرت سیدنا میمو ن رحمۃ اللہ علیہ سے بالاسناد مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک سال حاضر رہا ہوں میں نے نہیں سنا کہ انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مگر ایک دن حدیث بیان کرتے ہوئے ان کی زبان سے یہ جاری ہوگیا پھر وہ اتنے رنجیدہ ہوئے کہ پیشانی پر پسینہ دیکھا اور وہ ٹپک رہا تھا پھر فرمایا، ان شآ اللہ عزوجل ایسا ہی ہے یا اس سے کم و زیادہ یا اس کے قریب ، قریب، اور ایک روایت میں ہے کہ ا ن کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، آنکھو ں میں آنسو بھر آئے اور ان کی رگیں پھول گئیں۔

(سنن دارمی، جلد۱، ص ۸۲)

اسی طرح تابعین و تبع تابعین بھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبار ک کرتے تھے، حدیث مبارکہ بیان کر تے ہوئے اس قدر محتاط ہوتے اور ادب و احترام میں اپنی مثال آپ تھے چنانچہ۔

حضرت سیدنا مصعب بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جاتا تو آپ کی چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا اور کمر مبارک جھک جاتی یعنی اتنا خشوع آپ پر طاری ہوجاتا، حاضرین نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا، کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام مبارک یا ذکر شریف سن کرآپ کی یہ کیفیت کیوں ہوجاتی ہے ؟ فرمانے لگے،جو کچھ میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو مجھ سے اس طرح کا سوال نہ کرتے میں نے قاریوں کے سردار سیدنا محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ سے جب بھی کوئی حدیث پاک پوچھی تو وہ عظمت حدیث اور یادِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں رودیتے یہاں تک کہ مجھے اان کے حال پر رحم آنے لگتا۔(صحابہ کرام کا عشقِ رسول ،ص 50)

اس طرح محدثین کرام بھی بہت بڑے عاشقانِ رسول تھے، ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت زیادہ ادب و احترام اور اہتمام فرماتے، چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ زبردست عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آتاتو بے اختیار آپ رحمۃ اللہ علیہ پرسوز و گداز کی ایک مخصوص کیفیت طاری ہوجاتی جس کے نتیجے میں آنکھ میں آنسو بھر آتے اور آواز بھاری ہوجاتی آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے اور سننے والے ہزار ہا افراد بھی اسی کیفیت کو محسوس کرلیا کرتے تھے۔

(فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ۴۲)

لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے اسلافِ کرام علیہم الرضوان کی طرح رسول کریم روف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کرتے ہوئے ادب و احرام و تعظیم و تکریم کو ملحوظ رکھیں عاشقانِ رسول کی صحبت میں رہیں۔اور اس کا ذریعہ دعوت اسلامی کا مدنی ماحول بھی ہے ، اللہ پاک دعوت اسلامی کی مزید برکتیں عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


قرآن و حدیث اور آئمہ اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں حقیقتِ ایمان کو دیکھا جائے تو ایمان کی روح از ابتدا تا انتہا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت و تعظیم کا نام ہے محبت کی کئی علامات میں سے ایک علامت تعظیم بھی ہے ۔

اللہ عزوجل سورۃ الحجرات آیت نمبر ٦ میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ (صراط الجنان جلد: 9 صفحہ: 399 )

غور کرنا چاہیے کہ یہاں بے ادبی اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور جو ضائعۂ اعمال کا سبب ہو کفر ہے نتیجہ یہ ہوا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے ادبی کفر ہے ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کامعمول یہ تھا کہ وہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم میں غایت درجہ کا اہتمام فرماتے ۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے : ہیں میں بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اس حال میں حاضر ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔

صحابہ کرام کاشانہ نبوت پر حاضر ہوتے تو فرط ادب سے کاشانہ نبوت کا دروازہ ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے۔ تمام صحابہ کرام اس ذات کریمی کو بہترین القابات سے خطاب کرتے اور ابتدائے کلام میں درود کے بعد 'فدیتک بابی وامی' میرےوالدین بھی آپ پر فدا ہوں یا ”بنفسی انت یا رسول اللہ ، ”میری جان آپ پر نثار ہے“ جیسے کلمات استعمال فرماتے ۔

امام مالک علیہ الرحمۃ کے متعلق منقول ہے کہ جب ذکر رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے تو ان کی رنگت بدل جاتی اور فرط ادب سے کھڑے ہو جاتے نیز حدیث نبوی بیان کرنے سے قبل وضو فرماتے ،عمدہ لباس پہن کر مودب بیٹھ کر حدیث بیان کرتے۔( شفاء شریف جلد دوم صفحہ: 87 '88'90'91'92'93)

حضرت قتادہ وامام جعفر کے متعلق منقول ہے کہ آپ نے کبھی کوئی حدیث بے وضو بیان نہ فرمائی۔حضرت اعمش حدیث سناتے وقت بے وضو ہوتے تو فورا تیمم فرمالیا کرتے ۔

ایک شخص سعید بن مسیب کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک حدیث کے متعلق دریافت کرنے لگا اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے فورا ً اٹھ بیٹھے اور فرمایا میں گوارا ہی نہیں کر سکتا کہ حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لیٹے لیٹے بیان کروں ۔ (صحابہ کرام کا عشق رسول ﷺ صفحہ : ‏17'18'45'49'50)

یہ حضرات بھی خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے امّتی گزرے ہیں اور ہم بھی امتی ہیں یہ حساسیت بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے متعلق ہم پر بھی لازم ہے حضرت ابو ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرے یا سنے تو انتہائی خشوع و خضوع کا اظہار کرے اور اپنے حرکات ظاہری میں انہی باتوں کا مظاہرہ کرے جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات ظاہری میں کرتا تھا۔

امت میں جب تک یہ عشق و ادب سلامت تھا امت کا عروج سلامت تھا اگر آج بھی امت عروج کی خواہشمند ہے ،تو لازم ہے اپنی تمام تر عقیدتیں اور محبتيں ذات رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مضبوط کرے۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اجالا کر دے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


جب کسی بڑے سے محبت ہوتی ہے تو اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، پھر یہ چاہنے والے اپنے محبوب کی تعظیم او راس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ، محبوب کا ذکر ہوتے ہی ان کی کیفیت متغیر ہوجاتی اور جب محبوب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا تو ان کے چہروں کا رنگ متغیر ہوجایا کرتا۔

جب ہمارے اسلاف حدیث پاک بیان فرمایا کرتے تو پہلے اس کے لیے خاص غسل کرکے ضاف کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر ، تخت بچھا کر اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا کرتے۔اور جب بیان کا وقت ہوتا تو وہ اپنے پہلو بھی نہ بدلتے تھے، یہاں تک کہ ایک بار امام مالک کو بچھونے سولہ ڈنک مارے پھر بھی انہوں نے پہلو نہ بدلا۔اور جب انہیں کوئی حدیث پاک یاد آجاتی تو اشک باری کرتے امام مالک علیہ الرحمۃ فرما تے ہیں حضرت محمد بن سکندر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا۔اور جب ان کے سامنے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ا ن کا رنگ متغیر ہوجایا کرتا۔

(صحابہ کرام کا عشقِ رسول ، ص ۵۰)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہکے سامنے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کا رنگ متغیر ہوجاتا اور ان کی پشت جھک جاتی۔اور جب کسی شخص کا نام محمد ہوتا تو تو بے وضو ان کو ان کے نام سے نہ پکارے بلکہ ان کی کنیت سے ،یا، عبداللہ کہہ کر پکارا کرتے۔( ایضا ملخصاً)

ایک بار عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے لوگوں نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ میں نے ایک مرتبہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔

(ایضاً ص 130 ، حدیث: 315)

یہ تھا ہمار اسلاف کا انداز کہ ہمیشہ ادب و محبت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا کرتے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان اسلاف کی طرح ہمیں بھی عشقِ رسول اور ادب عطا ہوجائے۔

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


پرسكون شبنمی رات کا ایک پہر گزر چکا ہے ہر سو اندھیرے کا راج ہے آسمان پر چھائے بادل رات کی تاریکی میں مزید اضافہ کیے دیتے ہیں، ماحول پر ایک سکوت طاری ہے ہاں دور سے کسی پرندے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ضرور کچھ دیر کے لیے فضا میں ہلکا سا ار تعاش پیدا کردیتی ہے، میرے مکین سوئے ہوئے ہیں۔

اس سردرات میں صحن میں بیٹھی ایمن مدینہ پاک کی سر زمین کھجوروں کے لہلاتے درخت خوشبوؤں سے معطر فضاؤں نیلیے آسمان پر روشن ستاروں خوبصو رت چاند کے خیالوں ، بزرگانِ دین کے عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں گم بیٹھی تھی، نجانے کب گرم آنسوؤں کی لڑی رخساروں پر بہہ گئی ، چونک کر آنسو صاف کیے ذہن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اطاعت ذکر اور حضور علیہ السلام کی نافرمانی کرنے والوں کے متعلق جو آیاتِ مبارکہ تھیں بار بار تکرار کررہی تھیں۔

کہیں تو میرے رب نے حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا کہیں حضور کی بارگاہ کے آدب سکھائے حضور کے ذکر کو اپناذکر فرمایا کہیں حضور کی آواز سےاپنی آواز کو بلند کرنے سے منع فرمایا، کہیں حضور کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے اعمال اکارت ہونے کی وعیدیں سنائیں ،میرا رب فرماتا ہے:

رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہیں ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے(پارہ 18 سور ہ النور)

جس سے محبت ہوتی ہے اس کا زکر بندہ بکثرت سے کرتا ہے اس کی تعظیم و توقیر اور عظمت کا خوب چرچا کرتا ہے، صحابہ کرام اولیا عظام تابعین تبع تاعین رحمۃ اللہ علیہم نے حضور علیہ ا لصلوة والسلام سے محبت کی زندہ مثالیں قائم کی ہیں۔

جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوة والسلام کے وصالِ ظاہری کے بعد حسنین کریمین کے حکم پر اذان دی تو جب حضور علیہ الصلوة والسلا م کا ذکر اذان میں آیا تو فرحت عشق سے بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔

امام بخاری علیہ الرحمۃ جب حدیث مبارکہ کی کتاب میں ذکر فرماتے تو ٹہر ٹہر کر حدیث س پہلے غسل فرماتے اور دورکعت نفل ادا فرماتے پھر استخارہ کرکے اس کو کتا ب میں نقل فرماتے۔

اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب حضور علیہ السلام کا نام مبارک لینے کو اپنی دونوں انگلیوں خو چوم کر آنکھوں سے لگالیتے،

بعض بزرگانِ دین کا طریقہ کہ حضور علیہ السلام نام مبارک بے وضو نہ لیتے۔امام مالک علیہ الرحمۃ نے کبھی مدینہ پاک میں سواری نہ کی۔یہی تھا ہمارے اسلاف کا حضور علیہ السلام سے عشق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑ ے کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

اللہ پاک ہمیں حضور علیہ الصلوة والسلام کا ادب اور سچا عشق عطا فرمائے۔

رات کی تنہائی میں یہ واقعات پڑھتے ہوئے ایمن کو پتا بھی نہ چلا فجر کی اذانیں شروع ہوگئیں، اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے حضور کی یادوں میں گم وضوکرنے چلی گئی۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


درود پاک کی فضیلت:

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس نے مجھ پر ایک بار درود پاک پڑھا اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محمد محبت ہے سند آزاد ہونے کی

خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی

تعظیم رسول اکرم اور صحابہ کرام:

جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی ہے پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے، اسلام نے تو ہر بڑے کی تعظیم کا درس دیا ہے۔

جو ہمارے چھوٹے پر شِقت نہ کرنے اور ہمارے بڑے کی تعظیم نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو سارے بڑوں میں سب سے بڑے ہیں اور اتنے بڑے ہیں کہ آج تک اتنا بڑا پیدا نہیں ہوا ، اور نہ ہی پیدا ہوگا، اس لیے آپ کی تعظیم ہی سب سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔

ایک مقام پرقرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظم کرنے والوں کی کامر انی کا اس طرح اعلان کررہا ہے ۔

جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔(اعراف ۱۵۷)

یہ ارشادات ِ ربانی صحابہ کرام کے پیش نظر تھے اس لیے انہوں نے اپنےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایسی تعظیم و توقیر کی کہ دنیا کے کسی شہنشاہ کی بھی اس طرح تعظیم نہ کیاجاسکی۔

صحابہ ٔکرام کی تعظیم و توقیر کا حال دیکھ کر صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے نمائندہ عروہ بن مسعود نے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے یہ تاثر پیش کیا تھا گویا یہ اپنے نہیں غیر کا تاثر ہے، آپ نے کہا: اے لوگو خدا کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں بھی پہنچتا ہوں، قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی دربار میں بھی حاضر ہو چکا ہوں، خدا کی قسم کسی بادشاہ کی اتنی تعظیم میں نے نہیں دیکھی، جنتی تعظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے اصحاب کرتے ہیں خدا کی قسم جب کبھی بھی کھنکار پھنکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا ہے، جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے جب وہ اپنے اصحا ب کو حكم دیتے تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں، اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لیے باہم جھگڑنے کی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کردیتے ہیں، اور از روئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔(سیرت رسول عربی، 481)

یہ تھا صحابہ کرام کا اندازِ تعظیم و توفیق کا اجمالی خاکہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیگانے نے پیش کیا تھا ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گی جس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کس کس طرح اپنے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر بجالائے اور آپ کا ادب ملحوظ رکھتے تھے۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ صحابہ کرام آپ کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پر ندے بیٹھے ہوئے ہیں یعنی وہ اپنے سروں کو حرکت نہیں دے رہے تھے، کیونکہ پرندہ اس جگہ بیٹھتا ہے جوساکن ہے۔(صحابہ کر ام کا عشقِ رسول ، ۳۰)

۲۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام (ادب کی وجہ سے ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازوں کو ناخون سے کھٹکھٹایا کر تے تھے۔(سیرت رسول عربی، 482)

۳۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ جب ہمرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک طعام ہوتے تو ہم طعام میں ہاتھ نہ ڈالتے یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے شروع فرماتے اور اپنا دست مبارک اس میں ڈالتے۔(سیرتِ رسول عربی، 490)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تعظیم و توقیر جس طرح آپ کی حیات دنیوی میں واجب تھی اسی طرح ظاہری حیات شریف کے بعد بھی واجب ہے، سلف و خلف کا یہی طریقہ رہا ہے ، ذیل میں چند واقعات بغرض تو ضیح درج کی جاتی ہیں۔

۱۔ حضرت اسحق نجیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال مبارک کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو صحابہ کرام خشوع و انکسار ظاہر کرتے ان کے بدن کے رونکٹھے کھڑے ہوجاتے اور وہ حضور کے فراق اوراشتیاق میں رویا کرتے یہی حال بہت تابعین کا تھا۔(سیرتِ رسول عربی، 490)

۳۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ میں ایوب سختیانی ، محمد بن منکر ، امام جعفر صادق، عبدالر حمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق ، عامر بن عبداللہ بن زبیر صفوان بن سلیمان اور امام محمد بن مسلم زہری سے ملا ک کر تا تھا ، میں نے ان کا یہ حال دیکھا کہ جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر آتا تو ان کا رنگ زرد ہوجاتا۔(سیرت رسول عربی، 492)

شوق زیارت میں رویا کرتے بلکہ بعض تو بے خود ہوجایا کرتے۔

امام مالک نے اپنی تمام عمر مدینہ منورہ میں بسر کی ، پاس ادب کبھی مدینہ شر یف کے حرم کی حد میں بول و براز نہیں کیا۔(سیرتِ رسول عربی، 492)

حضرت احمد بن فضلو یہ بڑے غازی اور تیر انداز تھے انہوں نے جب سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمان کو اپنے دستِ مبارک میں لیا ہے تو اس رو ز سےاد ب کی وجہ سے کبھی کمان کو بے وضو نہیں چھوا۔(سیرت ِ رسول عربی، 493)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں سے ایک امر یہ ہے اور آپ کی حدیث شریف کی تعظیم کی جائے۔

اب یہاں چند واقعات پیش کیے جائیں گے جن سے پتہ چلے گا کہہ ہمارے اسلاف کا انداز کیا ہوتا تھا جب لوگ امام مالک کے پاس طالب ِ علم کے لیے آتے تو خادمہ دولت خانہ سے نکل کر ان سے دریافت کیا کرتی کہ حدیث مبارکہ کے لیے آئے ہو یا مسائل فقہ کے لیے اگر وہ کہتے کہ مسائل فقہ کے لیے تو امام موصوف فوراً نکل آتے اور اگر وہ کہتے ہم حدیث کے لیے آئے ہیں تو حضرت غسل کرکے خوشبو لگاتے پھر لباس میں تبدیلی کرکے نکلتے، آپ کے لیے ایک تخت بچھایا جاتا جس پر بیٹھ کر آپ روایت حدیث کرتے، اثنائے روایت میں مجلس میں عود جلایا جاتا ، یہ تخت صرف روایت حدیث کے لیے رکھا ہوا تھا، جب اما م موصوف سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کروں۔(سیرتِ رسول عربی، 494)

حضرت ابن سیرین تابعی بعض وقت ہنس پڑتے، مگر جب ان کے پُاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ذکر آتا تو ان پر خشوع طاری ہوجاتا۔(سیرتِ رسول عربی، 495)

حضرت قتادہ کی نسبت مروی ہے کہ جب وہ حدیث سنتے تو ان کو گرایا واضطراب لاحق ہوجاتا۔( سیرتِ رسول عربی،495)

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کا لوح و قلم تیرے ہیں

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں



درود شریف کی فضیلت:

نبی رحمت ، شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ رحمت ہے، جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھتا ہے، اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کردیئے جاتے ہیں۔ (عشقِ رسول ،ص۱)

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاں گزیں ہوتو اتباع ِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ظہور ناگزیر بن جاتا ہے، احکامِ الہی کی تعمیل اور سیرت نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہے دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے، مسلمان کی معاشرت سنور جاتی ہے۔

آخرت نکھر تی ہے ، تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اسی عشق کا مل کے طفیل صحابہ کرام علیہم الرضوان کو دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا، یہ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کھٹن سے کھٹن وقت میں بھی انہیں اتباعِ رسو ل سے انحراف گوارا نہ تھا، وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا علیہ التحیة والثنا کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کومشعل راہ بنا کر جادہ پیما رہتے یہا ں تک کہ

لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

مفتی نعیم الدین مراد آباد علیہ رحمۃ اللہ الہادی اس کے تحت فرماتے ہیں:

دین کے محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کی مشقت برداشت کرنا مسلمان پر لازم ہے اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے مقابل دنیوی تعلیمات کچھ قابل التفات نہیں اور خدا اور سول کی محبت ایمان کی دلیل ہے۔محبتِ رسول خونی رشتوں سے بڑھ کر ہے۔

یاد رکھیے ایمان کامل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان کے نزدیک سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام رشتوں ناتوں سے بڑھ کر محبوب ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تم میں سے کوئی اس وقت کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مکمل طور پر اپنے اوپر نافذ کرلیا تھا۔جیسا کہ ایک بار امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم سے کتنی محبت کرتے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:خدا کی قسم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد باپ اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔

محمد ہے متاِ ع عالمِ ایجاد سے پیارا

پدر، مادر ، برادر جان مال اولاد سے پیارا

سبحن اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عشقِ رسول کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ انہیں اپنی جان، مال اور قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ عزیز نبی کریم کی ذات ہوا کرتی بلکہ ان نفوس قدسیہ کا حال تو یہ تھا کہ موت کی آغوش میں پہنچ کر بھی انہیں جانِ کائنات فخرموجودات علیہ افضل الصلوة والتسلیم ہی کی فکر دامن گیر ر ہتی۔

تابعین اور تعظیم مصطفی :

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم آثار کے معاملہ میں انھیں کے نقش قدم پر تھے۔ حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امران کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا۔

ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:جوکچھ میں نے دیکھاہے، تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے ۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رودیتے یہاں تک کہ مجھے انکے حال پر رحم آتا تھا۔

(صحابہ کرام کا عشقِ رسول، ص51)

شاہکار عظیم:

غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نماز عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سے سراٹھاؤں تو شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کی ،ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نمازعصر ادا کی،پھر ڈوب گیا اس سے ثابت ہوا کہ” افضل العبادات صلوۃ،وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے صدقہ میں ملیں۔

بوقت ہجرت غارثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گئے اپنے کپڑے پھاڑپھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا انگو ٹھا رکھ دیا،پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاؤں پر ملا انھوں نے اس خیال سے کہ حضور صلی اللہعلیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے آنسو چہرہ انور پر گرے چشم مبارک کھلی ،عرض حال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لعاب دہن لگادیافوراَ َ آرام ہوگیا۔ ہر سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے جان بھی سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کی۔(صحابہ کرام کا عشقِ رسول)

ان ہی واقعات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

مولا علی نے واری تری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے

اور حفظ جاں توجان فروض غررکی ہے

ہاں تونے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز

پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہو ا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائق بخشش)

محبت رسول اصل ایمان ہے:

صحابہ کرام علیم الرضوان کے اس بے مثال جذبہ عشقِ رسول کو سامنے رکھتے ہوئے ہر امتی پر حق ہے کہ وہ محبوب دو جہاں، سرور کون ومکان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو سارے جہان سے بڑھ کر محبوب رکھے، کیونکہ ان کی محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)

تَرجَمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ذوات قدسیہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان حضرات کی زندگیوں کے ہرہرپہلو کو زیر قلم لانا محال ہے، ہاں کچھ پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے مگر وہ بھی کما حقہ بیان ہو ممکن نہیں۔

ان ذوات ِ اقدسہ کی زندگی کا جو پہلو آج میرے زیر قلم ہے ، وہ حضور علیہ السلام سے ان حضرات کا ادب و عشق تابعین ، آئمہ اکابر ینِ اسلام الغرض تمام علمائے امت کا ادب و عشق صحابہ کرام کے ہی طرز پر مبنی ہے۔

صحابی تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوؤں سے منور ہو کر حضور کے عشق میں چو رچور ڈوبے تھے مگر تابعی حضرات بن دیکھے ہی عشق و ادب میں چور چور ہو رہے۔

قاضی عیاض الشفا میں اس کو اپنی سند کے ساتھ تحقیق سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ اور بادشاہِ وقت ابو جعفر منصور مسجد نبوی میں آئے وہ تھوڑی اونچی آواز سے بات کرنے لگے امام مالک رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے فرمایا۔ اے خلیفہ وقت ولا ترفع صوتک فی ھذا المسجد یعنی یہ مسجد نبوی ہے اس میں آواز اونچی نہ کرو

محبوب کی جگہ چیزوں سے محبت کا یہ عالم ہے حضور سے محبت کا عالم و اندازہ دشوار ہے۔

مصعب بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بےشک میں نے امام جعفر بن محمد الصادق کو دیکھا حالانکہ وہ انتہائی خوش مزاج اور ظرف الطبع تھے لیکن جب بھی ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل کیا جاتا تو ان کا چہرہ زرد ہوجاتا۔(قاضی عیاض الشا 521)

خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و ادب کو ربِ کریم نے صحابہ و تابعین ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کے دلوں میں آباد کردیا ہے۔آج بھی عشق و ادب کے وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دل یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہوگا۔

ترکوں کو انتہائی خوبصورت عادت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ادب کا یہ عالم ہے کہ جب بھی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ان کے سامنے لیا جاتا ہے یا وہ خود لیتے ہیں تو احترام سے اپنا ہاتھ دل پہ رکھ لیتے ہیں۔ دین سارا ہی عشق و ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہماری نسلوں کو عشق ادب رسول عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عدم سے لائی ہے بستی میں آرزوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کہاں کہاں ہے پھرتی ہے جستجوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم

تلاش نقش کف پائے مصطفی کی قسم

چنے ہیں آنکھوں سے ذرات ِ خاک کوئے رسول

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


محب کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ کوئی اس کے محبوب کا ذکر چھیڑ دے۔

اور جب محبوب کا ذکر چھڑ جائے تو محب کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس کو بیان کرنا واقعی ایک دشوار ہے۔

مقصودِ کائنات شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عشاق کو وہ قرار بخشتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے سوا کس سے نہیں ملتا۔ مورخین صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور دیگر عشاق کے ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیا ن کرتے ہوئے جن واقعات کو قلمبند کرسکے ان میں سے چند پیش خدمت ہیں۔

اذانِ بلال اور ذکرِ رسول:

بے مثال لوگوں کے انداز بھی بے مثال ہوا کرتے ہیں اذانِ بلالی میں جب اشھدان محمد رسول اللہ پکار ا جاتا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنی انگلیوں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ روشن کی طرف اشارہ فرماتے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ سر کار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد حسنین کریمین کے اصرار پرحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو حالت غیر ہوگئی حسبِ عادت انگلیوں کا اشار ہ کرنے کے لیے نگاہ صحن مسجد کی جانب اٹھ گئی

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ پہلی اذان تھی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سامنے نہیں تھا ایک عاشق دلگیر اس دردناک حالت کی تاب نہ لاسکا فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی اور عشق کی دبی ہوئی چنگاری جاگ اٹھی پھر ہجر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا غم سینوں میں تازہ ہوگیا اس واقعہ کے بہت دنوں تک اہل مدینہ کی پلکیں بھیگی ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب تک مدینے میں رہے دل کا غم ستاتا رہا۔ غم فراق نہیں ضبط ہو سکا تو کچھ دنوں بعد ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔

قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرنے کا انداز :

حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ امام مالک علیہ الرحمۃ سکے ساتھ عقیق کی طرف جارہا تھا راستہ میں ان سے ایک حدیث کے بابت پوچھا انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور فرمایا کہ مجھے تم سے توقع نہ تھی کہ راستے چلتے ہوئے مجھ سے حدیث شریف کی بابت سوال کرو گے۔ (ص،673 سیرتِ رسول عربی مکتبہ المدینہ )

امام مالک علیہ الرحمۃ کا حدیث بیان کرنے کا انداز:

جب کوئی امام مالک علیہ الرحمۃ کے پاس طلبِ حدیث کے لیے آتا تو خادمہ دولت خانہ سے نکل کران سے دریافت کرتیں کہ حدیث شر یف کے لیے آئے ہو یا مسائل فقہ کے لیے اگر وہ کہتے کہ مسائل فقہ کے لیے آئے ہیں تو امام موصوف فورا ً نکل آتے اور اگر وہ کہتے کہ ہم حدیث شریف کے لیے آئے ہیں تو امام مالک غسل کرکے خوشبو لگاتے پھر لباس تبدیل کرکے نکلتے آپ کے لیے ایک تخت بچھایا جاتا جس پر بیٹھ کر آپ حدیث روایت کرتے۔

(ص 672، سیرتِ رسول عربی مکتبہ المدینہ)

لیٹ کر حدیث شریف بیان کرنا پسند نہ کیا:

امام مالک علیہ الرحمۃکا قول ہے کہ ایک شخص حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے اس نے آپ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث دریافت کی آ پ رضی اللہ عنہ ا ٹھ بیٹھے اور حدیث بیان کی اس نے کہا میں چاہتا تھا کہ آپ اٹھنے کی تکلیف نہ فرماتے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں پسند نہیں کرتا کہ لیٹے ہی حدیث بیان کروں۔ (ص، 673، سیرتِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم مکتبۃ المدینہ )

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


الحمدللہ عزوجل ربِ کریم نے ہمیں مسلمان بنایا آقا کریم کی اُمت میں پیدا فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت ہمارے سینوں میں ڈالی ، محبت رسول ہر مسلمان میں پائی جاتی ہے مگر بے عقلی کی وجہ سے اس جذبۂ محبت میں کمی واقع ہوجاتی ہے پھر اللہ عزوجل کے نیک بندوں میں یہ وصف کامل طور پر پایا جاتا ہے، ہمارے اسلاف کے ایسے کئی واقعات موجود ہیں۔

ذکرِ رسول اور صحابہ کرام کا انداز:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :

جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مؤذن کو یہ فرماتے ہوئے سنتے :”اشہدان محمد رسول اللہ “تو یہی کلمات دوہراتے اور دونوں شہادت کی انگلیوں کو بوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگالیتے۔

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور کی حرمت و تعظیم ، عزت و تکریم، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایسے ہی واجب ہے جیسے آپ کی حیات میں لازم تھی یہ ادب آپ کے ذکر کے وقت آپ کی حدیث و سنت آپ کے اسم گرامی اور سیرت مبارکہ بیان کرتے وقت بھی واجب ہے۔

(شفا شریف ج ۲، ص ۳۳۶)

حضرتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ:

اسی طرح حضرت عمر ابن میمون فرماتے ہیں میں ایک سال آپ کی خدمت میں حاضر رہا میں نے نہیں سنا کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن حدیث بیان فرماتے ہوئے آپ سے یہ الفاظ ادا ہوگئے پھر آپ اتنے رنجیدہ ہوئے کہ پیشانی پر پسینہ دیکھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے چہرے کا رنگ متغیرہوگیا آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ان کی رگیں پھول گئیں، (اللہ اللہ یہ ہے ادب ،احتیاط)

اے عاشقانِ رسول آپ نے صحابہ کا انداز ملاحظہ فرمایا اسی طرح اسلاف و صالحین اور آئمہ متقدمین رحمہم اللہ کی یہ عادت تھی کہ جب ذکر رسول ہوتا تو فرطِ ادب و شوق میں سیل اشک رواں ہوجاتے دل پر درد سے آہیں لیتے اور محبوب کی یاد میں کھو جاتے چنانچہ۔

حضرت احمد بن منکدر کو دیکھاگیا کہ جب بھی ان سے حدیث پوچھی جاتی تو وہ رو پڑتے کہ ان کے حال پر رحم آنے لگتا۔

یادِ رسول پاک میں روئے جو عمر بھر

مولا مجھے تلاش اُسی چشم تر کی ہے

مشہور تابعی محدث کا اندازِ ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :

حضرت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، حدیث دریافت کی آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے آپ ادب بجالاتے ہوئے اٹھے اور حدیث بیان کی اس پر اس شخص نے کہا آپ لیٹے لیٹے ہی بیان فرمادتیے آپ نے فرمایا میں یہ مکروہ جانتا ہوں کہ حدیث لیٹے لیٹے بیان کروں۔

حضرت امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ ہنس مکھ تھے مگر جب آپ ہنس بھی رہے ہوتے اور آپکے سامنے ذکر رسول کیا جاتا تو آپ متواضع ہوجاتے۔

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب حدیث دریافت کی جاتی تو آپ غسل فرماتے عمدہ لباس زیب تن کرتے عمامہ باندھتے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے تخت بچھایا جاتا خوشبو سلگھائی جاتی، باوضو نہایت ہی عجز و انکساری کے ساتھ تخت پر تشریف فرما ہوتے اور حدیث بیان فرماتے۔

ایک مرتبہ آپ کو سولہ مرتبہ بچھو نے ڈنگ مارا۔(شدتِ الم سے) آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور چہرہ مبارکہ زرد پڑ گیا، مگر حدیث رسول کو قطع نہ فر مایا جب آپ سے اس کے متعلق پوچھاگیا تو فرمایا۔ ہاں میں نے حدیث رسول کی عظمت و جلال کے سبب صبر کیا۔ (الشفا باب الثالث ج ۲، ص ۳۳۷)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ذکر رسول کے وقت اسلاف کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں کامل عشقِ رسول نصیب فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں