پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرنا یہ اس قدر دلکش و ایمان افروز اور روح
پرور موضوع ہے کہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ایک ایک پھول سے رنگ بدلنے کو اپنے لیے قابلِ فخر
تصور کرتے ہیں، اور وہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی ذکر رسول کی بدولت آسمانِ عزت و عظمت میں ستارو ں کی
طرح چمکنے اور چمنستان شہرت میں پھولوں کی طرح مہکتے ہیں اوریہ عاشقانِ رسول
بارگاہِ الہی عزوجل میں ذکر رسول ہونے کی
حیثیت سے اس قدر مقبول ہیں کہ اگر مجالس میں ان سعید روحوں کا تذکرہ چھڑ دیا جائے
تو رحمت کے فرشتے اپنے مقدس بازوں اور پروں کو پھیلا کر ان محفلوں کا شامیانہ
بنادیں۔
انہیں مقدس ہستیوں میں سے صحابہ کرام علیہم
الرضوان بھی ہیں ان کا پیاراآقا صلی اللہ
علیہ وسلم کی بارگاہ میں ان کا ادب و احترام اور عشق و محبت کا عالم یہ
تھا کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان شاہِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین القاب، کمال تواضع اور مرتبہ مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے
تھے اور ابتدا ئے کلام میں صلوة کے بعد فدیتک یا بنی و امی یعنی میرے والدین آپ پر فدا ہوں۔ یا ،بنفسی
انت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یعنی میری جان آپ پر نثار ہواے اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ علی ہو سلم۔ جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور کثرت سے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر رہنے کے باوجود محبت کی شدت کے تقاضے
کی بنا پر تعظیم و توقیر میں کوتاہی و تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و
جلال میں اضافہ کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے باوجود بھی آپ کا ذکر کرتے ہوئے آپ علیہم
الرضوان پر عشق و محبت کی وجہ سے ایک مخصوص کیفیت طاری ہوجاتی
جیساکہ
امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین رضی اللہ
عنہ جب دوعالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ
وسلم کا ذکر خیر کرتے تو عشق سے بے تاب ہو کر رونے لگے۔(فیضانِ
فاروق اعظم ،ص 342 جلد۱)
اور حضرت سیدنا میمو ن رحمۃ اللہ
علیہ سے بالاسناد مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود رضی
اللہ عنہ کی خدمت میں ایک سال حاضر رہا ہوں میں نے نہیں سنا کہ انہوں
نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مگر ایک دن حدیث بیان کرتے ہوئے ان کی زبان سے یہ جاری ہوگیا پھر
وہ اتنے رنجیدہ ہوئے کہ پیشانی پر پسینہ دیکھا اور وہ ٹپک رہا تھا پھر فرمایا، ان
شآ اللہ عزوجل ایسا ہی ہے یا اس سے کم و زیادہ یا اس کے قریب ، قریب، اور
ایک روایت میں ہے کہ ا ن کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، آنکھو ں میں آنسو بھر آئے
اور ان کی رگیں پھول گئیں۔
(سنن دارمی، جلد۱، ص ۸۲)
اسی طرح تابعین و تبع تابعین بھی پیارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبار ک کرتے تھے، حدیث مبارکہ بیان کر تے ہوئے اس
قدر محتاط ہوتے اور ادب و احترام میں اپنی مثال آپ تھے چنانچہ۔
حضرت سیدنا مصعب بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا امام
مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رحمتِ عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جاتا تو آپ کی
چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا اور کمر مبارک جھک جاتی یعنی اتنا خشوع آپ پر طاری
ہوجاتا، حاضرین نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا، کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام مبارک یا ذکر شریف سن کرآپ کی یہ کیفیت کیوں ہوجاتی
ہے ؟ فرمانے لگے،جو کچھ میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو مجھ سے اس طرح کا سوال نہ
کرتے میں نے قاریوں کے سردار سیدنا محمد بن منکدر رحمۃ اللہ
علیہ سے جب بھی کوئی حدیث پاک پوچھی تو وہ عظمت حدیث اور یادِ
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں رودیتے یہاں تک کہ مجھے اان کے حال پر رحم آنے لگتا۔(صحابہ کرام کا عشقِ
رسول ،ص 50)
اس طرح محدثین کرام بھی بہت بڑے عاشقانِ رسول تھے، ذکر رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت
زیادہ ادب و احترام اور اہتمام فرماتے، چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ زبردست عاشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم تھے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آتاتو بے اختیار آپ رحمۃ اللہ
علیہ پرسوز و گداز کی ایک مخصوص کیفیت طاری ہوجاتی جس کے نتیجے
میں آنکھ میں آنسو بھر آتے اور آواز بھاری ہوجاتی آپ رحمۃ اللہ
علیہ کو دیکھنے اور سننے والے ہزار ہا افراد بھی اسی کیفیت کو
محسوس کرلیا کرتے تھے۔
(فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ ۴۲)
لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے اسلافِ کرام علیہم
الرضوان کی طرح رسول کریم روف الرحیم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ذکر خیر کرتے ہوئے ادب و احرام و تعظیم و تکریم کو
ملحوظ رکھیں عاشقانِ رسول کی صحبت میں رہیں۔اور اس کا ذریعہ دعوت اسلامی کا مدنی
ماحول بھی ہے ، اللہ پاک دعوت اسلامی کی
مزید برکتیں عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ:
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی
ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں