کچھ گناہ باطنی ہوتے ہیں جنہیں باطنی بیماریاں کہتے ہیں، جیسے جھوٹ تکبر وغیرہ باطنی بیماریاں ظاہری بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہیں کہ ایک باطنی گناہ بے شمار گناہوں کا سبب بنتا ہے۔ انہیں میں سے ایک حرص ہے۔ کسی چیز میں حد درجہ دلچسبی کی وجہ سے نفس کا اس کی طرف راغب ہونا طمع (لالچ) کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کا علاج، ص 190)

عام طور پر لوگ صرف مال دولت کی طمع رکھنے کو حرص سمجھتے ہیں۔ جبکہ حرص مال دولت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔بلکہ حرص کا جذبہ تو لباس مکان عزت شہرت خوراک ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے کہ لالچ دل کا حصہ ہےکہ دل کو اسی طرح سے بنایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل ہم لالچ سے بچ نہیں سکتے مگر فرق اتنا ہے کوئی گناہوں کا حریص ہے تو کوئی نیکیوں کا۔ دیکھنا یہ ہے کونسی لالچ دل میں پیدا ہورہی ہے۔ حرص کی 3 قسمیں ہیں: (١)حرص محمود(٢) حرص مباح اور (٣)حرص مذموم۔

حرص محمود: نیک کاموں کی حرص کا ہونا نماز حج روزہ اور نیک کی دعوت عام کرنےکی حرص محمود ہے۔ ہمارے بزرگان دین صحابہ کرام نیک کاموں کے حریص ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابوہرہرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے دریافت فرمایا: آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا؟ تو صدیق اکبر نے عرض کی: میں نے۔ پھر پوچھا: آج کس نے نماز جنازہ میں شرکت کی؟ تو صدیق اکبر نے کہا: میں نے۔ نبی پاک ﷺ نے پھر پوچھا: آج تم میں سے مسکین کو کس نے کھلایا؟ اور اس بار بھی آپ نےعرض کی: میں نے۔ پھر نبی پاکﷺ نے پوچھا: مریض کی عیادت کس نے کی؟ اور اس بار بھی عاشق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں نے۔ تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس میں یہ خصلتیں جمع ہوجائیں وہ داخل جنت ہوگا۔ (حرص، ص 28)

صالحین نیک کام کے حریص تھے اور ہم فرائض میں بھی پابندی نہیں کرپاتے۔

حرص مباح: وہ کام جن کے کرنے پر ثواب نہ ملے اور نہ کرنے پر سزا بھی نہ ہو۔ جیسے عمدہ یا زائد لباس پہننا اور کھانے کاشوق اگر اس حرص کو پورا کرنے کے لیے چوری یا رشوت کے ذرائع اپناۓ تو اب بچنا لازم ہے۔

حرص مذموم: گناہوں میں دلچسپی لینا جیسے نشے اور جوئے کی حرص وغیرہ یہ مذموم ہے۔ اس کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے ان شاء اللہ خود بخود نیکیوں سے محبت پیدا ہوگی۔

کچھ لوگ اچھے کھانے اور اچھے کپڑے ملنے کی حرص میں امیر لوگوں سے دوستی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گناہ میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ پھر نشے کی عادت میں بھی گرفتار ہوتے ہیں۔اور یوں انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر والدین کے لیے بھی وہ پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں۔ اچھا دوست وہ نہیں ہوتا جو اچھے کھانے یا اچھے کپڑے دے کہ نبی پاک ﷺنے فرمایا: اچھا رفیق وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے۔ (حرص، ص 219)

اور مال دولت کی حرص اس قدر بری ہے کہ مال کا حریص نہ پھر کسی کا بھلا دیکھتا ہے نہ نقصان نہ حلال دیکھتا ہے نہ حرام۔ بس زیادہ مال کمانے میں لگا رہتا ہے۔ اور آخر کار جو اس کے پاس ہوتا ہے اسے بھی کھو بیٹھتا ہے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے عیوب پیدا ہوجاتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: دو بھوکے بھیڑیے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جاۓ اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا آدمی کو ما ل و جاہ کی حرص اسکے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔(ترمذی، 4/ 166، حدیث: 2383)

حریص مال دولت کمانے میں دن رات ایک کر دیتا ہے، حالانکہ کوئی اتنا ہی حاصل کرسکتا ہے۔ جتنا اس کے نصیب میں ہوگا اور نہ ہی کوئی دوسرا کسی کا نصیب چھین سکتا ہے۔ مال دولت کا حریص بخل میں بھی پڑ جاتا ہے اور یوں اہل و عیال کو دینے اور زکوٰة صدقات دینے سے بھی گریز کرنے لگ جاتا ہے۔

حرص کوئی سا بھی ہو ضرور نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا انجام برا ہی ہے۔ جیسے مال کا حریص رسوا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کھانے کا حریص بھی اپنا معدہ تباہ کردیتا ہے۔ اور لباس مکان کا لالچی بھی ضرور ناجائز ذرائع اختیار کر بیٹھتا ہے۔ دنیا ختم ہونے والی ہے اور اس دنیا کو جمع کرنا بے وقوفی ہے کہ اگر حلال مال ہو تب بھی بروز محشر کو حساب تو ضرور دینا ہوگا اور حرام مال کمانے کی صورت میں عذاب ہوگا۔ بہتری اسی میں ہے کہ ضرورت سے زیادہ مال نہ کمایا جائے۔ مال کس قدر کمانا چاہیے۔ اس پر امام غزالی فرماتے ہیں: اگر آمدنی سے زیادہ خرچ ہو تو خرچ گھٹاؤ ورنہ جس قدر خرچ ہے اس قدر کماؤ اور باقی وقت عبادت میں گزارو۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 7)

لہذا مال کی محبت اپنے دل میں پیدا ہونے نہیں دینی چاہیے۔ نبی پاک ﷺ نے مال کو ترجیح نہیں دی بلکہ اختیاری فقر کو اپنایا اور اس کی تلقین بھی کی اور یہی دعا بھی اور صحابہ کرام نے بھی مال جمع نہ کیا۔ لہذا مال دولت کے ذریعے زندگی کی ضروریات کو پورا کریں، نہ کہ خواہشات کو کہ خواہشات تو بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتیں اور ضروریات فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے۔